صہیونی جارحیت میں شہید عسکری قیادت، سائنسدانوں کی تدفین ہفتے کو کی جائے گی
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران پر حالیہ اسرائیلی فضائی جارحیت میں شہید ہونے والے اعلیٰ فوجی قیادت کو ہفتے کے روز تہران میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے گا۔ نماز جنازہ تہران یونیورسٹی سے آزادی اسکوائر تک ادا کی جائے گی، جس میں عوام، علما، سیاسی قیادت اور اعلیٰ عسکری عہدیداران کی شرکت متوقع ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران کی عسکری، جوہری اور رہائشی تنصیبات پر یکطرفہ اور شدید فضائی حملے کیے گئے، جن کے نتیجے میں 600 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ شہدا میں اہم ترین فوجی افسران، سائنسدان اور معصوم شہری شامل تھے۔
شہید ہونے والی ممتاز شخصیات میں ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد حسین باقری، سپاہ پاسداران کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، قرارگاه خاتم الانبیا کے سربراہ میجر جنرل غلام علی راشد اور ایرو اسپیس ڈویژن کے سربراہ میجر جنرل امیر علی حاجی زادہ شامل ہیں، جبکہ کئی جوہری سائنسدان بھی اس حملے میں جاں بحق ہوئے۔
سپاہ پاسداران کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی اور ان کے دفتر کے انچارج میجر جنرل مسعود شنعی کی تدفین جمعرات کی صبح ان کے آبائی شہر گلپایگان میں عمل میں آئے گی۔
دوسری جانب تہران میں ہفتے کو منعقد ہونے والی قومی سطح کی نماز جنازہ صبح 8 بجے تہران یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے آغاز کرے گی، جس کے بعد شہدا کے جسد خاکی آزادی اسکوائر تک لے جائے جائیں گے۔ اس موقع پر ملکی اور مذہبی قیادت کی بڑی تعداد خراج عقیدت پیش کرے گی۔
ایران نے اسرائیلی حملوں کو نہ صرف کھلی جارحیت بلکہ قومی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے، اور تہران کے حکام کا کہنا ہے کہ شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے سربراہ میجر جنرل
پڑھیں:
شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی زندگی پر ایک نظر
اسلام ٹائمز: علامہ سید عارف حسین الحسینی کو مرحوم قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین کے بعد پاکستان کی ملت جعفریہ کا قائد منتخب کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے ملت تشیع پاکستان میں انقلابی فکر اور سیاسی شعور کی ایک ایسی روح پھونکی، جس کی حرارت آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ انہیں پاکستان میں امام خمینی کا نمائندہ اور وکیل مقرر کر دیا گیا۔ علامہ سید عارف الحسینی نے نہ صرف تحریک جعفریہ کو فعال کیا بلکہ ملت کو مجموعی طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ رپورٹ: سید عدیل عباس
بعض شخصیات ایسی پیدا ہوتی ہیں، جو اس دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی سحرانگیز اور طسلماتی شخصیت کیوجہ سے لوگوں کے دلوں پر راج کرتی ہیں، ایسی ہی ایک شخصیت کو پاکستان میں علامہ سید عارف حسین الحسینی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے انتہائی قلیل عرصہ تک ملت جعفریہ پاکستان کی قیادت کی اور عین جوانی میں منصب شہادت پر فائز ہوگئے۔ سید عارف حسین الحسینی نے کرم کے معروف مذہبی سادات گھرانے میں 25 نومبر 1946ء کو آنکھ کھولی، آپ کے والد گرامی کا نام سید فضل حسین تھا، چونکہ ان کا سلسلہ نسب حسین الاصغر ابن امام علی بن الحسین (ع) تک پہنچتا ہے، لہذا آپ کا خاندان "حسینی” کے عنوان سے مشہور ہے۔ شہید عارف الحسینی کے آباء و اجداد میں سے متعدد افراد علماء اور مبلغین تھے اور اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کی غرض سے پاراچنار کے سرحدی علاقہ پیواڑ جو کہ آپ کا آبائی علاقہ ہے، میں میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ قائد شہید سید عارف حسین الحسینی نے اپنا بچپن آبائی علاقہ میں ہی گذارا، جہاں انہوں نے قرآن کریم اور ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔
بعدازاں انہوں نے مقامی اسکول میں داخلہ لیا اور پرائمری اور متوسطہ کے بعد پاراچنار کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے، سنہ 1964ء میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد علوم آل محمد (ص) سے روشناس ہونے کیلئے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے حاجی غلام جعفر سے کسب فیض کا آغاز کیا اور مختصر عرصہ میں مقدمات (ادبیات عرب) مکمل کر لئے۔ شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی نے 1967ء میں نجف اشرف اور بعدازاں قم میں عربی ادب کے نامور استاد مدرس افغانی کے ہاں تکمیلی مراحل طے کئے اور ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ کے ہاں فقہ اور اصول فقہ کے اعلیٰ مدارج مکمل کئے۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی نجف میں آیت اللہ مدنی کے حلقہ درس میں شریک ہوئے اور ان کے توسط سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خمینی سے واقف ہوئے۔ 1973ء میں انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں عراق کی بعثتی حکومت نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور کچھ عرصہ بعد ملک بدر کردیا۔
علامہ عارف الحصینی نے 1974ء میں دوبارہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اور نجف جانے کا فیصلہ کیا، لیکن حکومت عراق نے ویزا جاری کرنے سے انکار کیا، چنانچہ وہ اسی سال قم روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ شہید استاد مرتضیٰ مطہری، آیت اللہ مکارم شیرازی، وحید خراسانی، میرزا جواد تبریزی، محسن حرم پناہی اور سید کاظم حائری سے فلسفہ، کلام، فقہ، اصول اور تفسیر جیسے علوم میں کسب فیض کیا۔ قم میں رہائش اور حصول علم کے دوران وہ پہلوی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرتے تھے، لہذا اس وقت انہیں گرفتار کیا گیا۔ انہیں ایک ضمانت نامے پر دستخط کرنے کیلئے کہا گیا کہ "وہ مظاہروں اور انقلابی قائدین کی تقاریر میں شرکت نہیں کریں گے اور انقلابی علماء و رہنماوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے” لیکن انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، چنانچہ جنوری 1979ء میں آپ کو ایران چھوڑ کر پاکستان واپس جانا پڑا۔ 1979ء سے 1984ء تک مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں مصروف رہے۔ وہ ہر جمعرات کے دن مدرسہ جعفریہ سے پشاور جاکر جامعہ پشاور میں اخلاق اسلامی کی تدریس کیا کرتے تھے۔
علامہ سید عارف حسین الحسینی کو مرحوم قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین کے بعد پاکستان کی ملت جعفریہ کا قائد منتخب کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے ملت تشیع پاکستان میں انقلاب فکر اور سیاسی شعور کی ایک ایسی روح پھونکی، جس کی حرارت آج بھی محسوس کی جاتی ہے۔ انہیں پاکستان میں امام خمینی کا نمائندہ اور وکیل مقرر کر دیا گیا۔ علامہ سید عارف الحسینی نے نہ صرف تحریک جعفریہ کو فعال کیا بلکہ ملت کو مجموعی طور پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ آپ کی یہ فعالیت اور اتحاد بین المسلمین کی کوششیں کسی صورت استعماری طاقتوں اور پاکستان میں ان کے گماشتوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھیں، جس کے نتیجے میں علامہ سید عارف حسین الحسینی کو آج سے سینتیس سال قبل مورخہ 5 اگست 1988ء کو پشاور میں واقع ان کے مدرسے دارالمعارف الاسلامیہ میں نماز صبح کے موقع پر فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔
آپ کی شہادت پر امام خمینی (رح) نے جنازے میں شرکت کے لئے ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان بھیجا اور پاکستان کے علماء اور قوم و ملت کے نام ایک مفصل پیغام جاری کیا، جس میں شہید کو اپنا "فرزند عزیز” قرار دیا۔ ادھر پاکستان کے اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے بھی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ پشاور جاکر شہید کے جنازے میں شرکت کی۔ آیت اللہ جنتی نے نماز جنازہ کی امامت کی، بعدازاں شہید کی میت ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے آبائی شہر پارچنار منتقل کی گئی اور تدفین ان کے آبائی گاؤں پیواڑ میں ہوئی۔ شہید قائد نے چند ہی سال ملت تشیع پاکستان کی قیادت کی، تاہم یہ قلیل عرصہ ملت کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آپ کے معنوی فرزندان آج بھی تمام تر مشکلات کے باوجود میدان عمل میں حاضر ہیں اور آپ کے خط پر چلتے ہوئے مشن حسینی کی تکمیل میں کوشاں ہیں۔