سینئر وزیر مریم اورنگزیب کو عامر خان کی کس فلم پر پابندی لگانے کا افسوس ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
لاہور:پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہےکہ انہیں بالی وڈ اداکار عامر خان کی فلم ’دنگل‘پر پابندی لگا کر افسوس ہوا۔
تفصیلات کے مطابق مریم اورنگزیب نے حال ہی میں اداکار عمر بٹ کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے مختلف موضوعات پر بات کی۔
میزبان نے سینئر صوبائی وزیر سے سوال کیا کہ ایک سمجھوتا جو آپ کو لگتا ہے نہیں کرنا چاہیے تھا؟ اس کے جواب میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ بالی وڈ اداکار عامر خان کی فلم ’دنگل‘پر پابندی نہیں لگانی چاہیے تھی۔
مریم اورنگزیب نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے وہ فلم نہیں دیکھی تھی اور ان ہی دنوں میں وزیر اطلاعات بنی تھی، سینسر بورڈ کے ساتھ میٹنگ ہوئی اور انہوں نے فلم پر پابندی کی کچھ وجوہات بتائیں، بھارتی فلموں پر پہلے سے ہی پابندی لگی ہوئی تھی اس وجہ سے ‘’دنگل‘پر بھی پابندی لگا دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پابندی لگانے کے ڈیڑھ سال بعد میں نے عامر خان کی یہ فلم دیکھی تھی تو تب سے مجھ پر یہ بوجھ ہے۔
واضح رہے کہ عامر کی فلم دنگل 2016 میں ریلیز ہوئی تھی، یہ ایک کامیاب فلم تھی جس نے کروڑوں کی کمائی کی اور اس فلم میں کبڈی کے کھیل کو دکھایا گیا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مریم اورنگزیب نے عامر خان کی پر پابندی
پڑھیں:
افسوس دستورکوشخصیات کےتابع کیاجارہا ہے،کامران مرتضیٰ
اسلام آباد: جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی رہنما اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن بلاشبہ تاریخی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ دن منفی معنوں میں تاریخ کا حصہ بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں کچھ دن فخر اور کامیابی کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں، اور کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جنہیں یاد کر کے قوم کو افسوس ہوتا ہے۔
آج کا دن بھی ان ہی دکھ اور تکلیف والے دنوں میں شمار ہوگا۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ امریکاکی تین سو سالہ تاریخ میں صرف پچیس ترامیم ہوئیں، لیکن پاکستان میں محض تیرہ مہینے کے دوران دوسری آئینی ترمیم پیش کی جا رہی ہے۔
چھبیسویں ترمیم طویل سیاسی گفت و شنید، مشاورت اور اتفاقِ رائے کے بعد منظور کی گئی تھی۔اس عمل میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماءاسلام سب شریک تھے۔مگر آج ہم صرف تیرہ مہینے بعد اسی ترمیم کو ریورس کرنے جا رہے ہیں، جو افسوسناک اور تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم جمہوری ڈائیلاگ کا نتیجہ تھی، مگر ستائیسویں ترمیم اکثریت کے زور پر لائی جا رہی ہے۔ یہ طرزِ عمل سیاسی شرافت کے منافی ہے۔ جب ہم نے چھ ہفتوں کی مشاورت کے بعد اتفاقِ رائے سے ترمیم منظور کی، تو یقین تھا کہ یہ پائیدار پیش رفت ہے۔
لیکن آج ایک گھنٹے کی کارروائی میں وہ تمام محنت اور اعتماد ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی پاکستان اب اس سیاسی دھوکے کے بعد اپنے لائحہ عمل کا ازسرِ نو جائزہ لے گی۔
ہم پر جو وعدہ خلافی کی گئی ہے، اس کے بعد پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کیا ہم اب بھی چھبیسویں ترمیم کو اون کر سکتے ہیں یا نہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئین کو شخصیات کے لیے نہیں بلکہ نسلوں کے لیے بنایا جاتا ہے، مگر افسوس کہ آج دستور کو شخصیات کے تابع کیا جا رہا ہے۔یہ دن تاریخ میں ہمیشہ منفی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔
کیونکہ آج جمہوری اقدار، آئینی شرافت اور باہمی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اس طرزِ عمل کے بعد 1973ءکے آئین کا جو کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل تھا، وہ بھی اب برقرار نہیں رہا۔ آج کا یہ دن سیاسی و آئینی لحاظ سے قوم کے لیے دکھ بھرا دن ہے۔