بانی پی ٹی آئی کی فیملی تسلی رکھیں، انہیں کوئی مائنس نہیں کرسکتا، بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
بانی پی ٹی آئی کی فیملی تسلی رکھیں، انہیں کوئی مائنس نہیں کرسکتا، بیرسٹر گوہر WhatsAppFacebookTwitter 0 26 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت بانی پی ٹی آئی کو ملکی سیاست سے مائنس نہیں کرسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نہ صرف پاکستان کی سیاست کے مرکزی کردار ہیں بلکہ سیاسی بیانیے کا محور بھی وہی ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پاکستان کی سیاست کا محور ہیں اور ان کے بغیر سیاست ممکن نہیں۔ان کا ذکر ہر فورم پر ہوتا ہے ہر جگہ انہی کی بات ہوتی ہے اور وہی عوام کی توجہ کا مرکز ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں ان کے خاندان، بالخصوص علیمہ باجی کو تسلی دیتا ہوں کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔ ہمارے قائد کو نہ مائنس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد میں گاڑی پر کھمبا گرنے سے 2 افراد جاں بحق، 2 زخمی اسلام آباد میں گاڑی پر کھمبا گرنے سے 2 افراد جاں بحق، 2 زخمی سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے والے عناصر کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ میرے لیڈربانی پی ٹی آئی ہیں،صرف انہی کے سامنے ہی جوابدہ ہوں، علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی آئی کو مائنس نہیں کیا جاسکتا، جاوید ہاشمی کی عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل آمد خواجہ آصف کا کشمیر پر دوٹوک مؤقف: راج ناتھ کی موجودگی میں کشمیر کا معاملہ اٹھادیا چیئرمین نیب نے اسپیکر ایاز صادق کو سالانہ رپورٹ 2023-24 پیش کر دیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر مائنس نہیں
پڑھیں:
Never Again
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
1945 میں دنیا نے فیصلہ کیا کہ ہٹلر کے جرمن جنرلز کو جنگی جرائم، نسل کشی اور جرائم ِ انسانیت کے لیے جوابدہ ٹھیرایا جائے گا۔ نیرمبرگ مقدمات نہ صرف مجرموں کی سزا کے لیے تھے بلکہ انسانی حقوق اور عالمی امن کے قیام کی بنیاد بھی تھے، اور اس کے ساتھ ’’Never Again‘‘ کا وعدہ بھی دیا گیا۔ آج، تقریباً ایک صدی بعد، یہی وعدہ دوبارہ چیلنج ہو رہا ہے، نیتن یاہو کے اسرائیل کی جارحیت اور بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظرنامے کے ذریعے۔ ابتدائی ردعمل میں حیرت اور تشویش ہوئی، مگر جلد ہی واضح ہو گیا کہ مسئلہ صرف کسی ایک ملک یا گروہ تک محدود نہیں بلکہ یہ عالمی سیاست اور دوہرے معیار کا عکس ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور OIC نے دوحا میں اسرائیل کے حملے کو خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا اور شدید مذمت کی لیکن میڈیا کی کوریج نے ایک واضح فرق ظاہر کر دیا۔ Reuters اور BBC نے اسے محض ایک معمولی کشیدگی کے طور پر پیش کیا، جبکہ Guardian نے کہا کہ یہ خلیج کے لیے ایک صدمہ ہے اور اسرائیل کو ایران سے بڑا خطرہ دکھاتا ہے۔ Al Jazeera اور The New Arab نے اسے ثالثی کی تخریب، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور مغربی میڈیا کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے معمول بنانے کا ثبوت قرار دیا۔
دوحا میں اسرائیل کے حملے پر غور کرتے ہوئے، ایک واضح تضاد نظر آتا ہے: جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو مغربی میڈیا نے اسے دنیا کے لیے ایک ’’سرخ لکیر‘‘ قرار دیا۔ لیکن جب دوحا پر حملہ ہوا، جو ایک امریکی اتحادی بھی ہے، اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ یہی ظاہر کرتا ہے کہ بعض اتحادی دوسرے سے زیادہ ’’پاک‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وہ سبق ہے جو خلیجی تعاون کونسل کے ممالک کو سیکھنا چاہیے اور سمجھنا چاہیے: صرف ریاستی تعلقات یا سیاسی سفارت کاری کافی نہیں، عوامی شعور اور حقیقی خطرات کو نظر انداز کرنے کی قیمت خطے کے امن پر پڑ سکتی ہے۔ بھارت، اسرائیل بمقابلہ پاکستان کے زاویے سے دیکھا جائے تو صورتحال مزید واضح ہوتی ہے: اسرائیل بھارت کو بغیر پائلٹ ہوائی جہاز، نگرانی کی ٹیکنالوجی، اور انسجنسی کے خلاف حربے فراہم کرتا ہے، جبکہ بھارت خود کو اقتصادی اور جوہری طاقت کی بنیاد پر عظیم سمجھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ہتھیاروں اور رافیل طیاروں کے باوجود بھارت نے نہ چین کے سامنے مؤثر ردعمل دکھایا، نہ پاکستان کے۔ پاکستان کی فوج تجربہ کار ہے، روایتی اور مخلوط جنگوں میں حقیقی تجربہ رکھتی ہے، اور اس کا جوہری ڈھال خطے کے توازن کو برقرار رکھنے والا اہم مساوی عنصر ہے۔ بھارت کی داخلی میڈیا اور سیاسی مشینری پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا چلاتی ہے، جس سے وہ اپنے غیرملکی اور اسلام دشمن ووٹر بیس کو مطمئن رکھتا ہے، مگر حقیقتاً پاکستان کے خلاف کوئی بین الاقوامی شواہد موجود نہیں۔
دوحا میں اسرائیل کے حملے نے نہ صرف قطر کے دارالحکومت کو ہدف بنایا بلکہ عالمی امن اور ثالثی کے عمل کو بھی چیلنج کیا۔ قطر اور سعودی عوام نے حماس کے حق میں سڑکوں پر احتجاج کیا، جو یہ دکھاتا ہے کہ بادشاہتیں جو عام طور پر عوامی رائے کو محدود کرتی ہیں، اب عوامی دباؤ کو نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ خلیجی تعاون کونسل کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف ریاستی سفارت کاری کافی نہیں، عوامی توقعات اور احساسات بھی خطے کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان اس تمام منظرنامے میں ایک پوشیدہ مگر کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ وزیراعظم کا فوری قطر دورہ اور سعودی عرب کے ساتھ طویل المدتی غیر تحریری سیکورٹی معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ میں ایک اسٹرٹیجک ضامن کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ماضی میں مدینہ پر حملے کو خاموشی سے سنبھالا گیا، مگر آج پاکستان کا گرم استقبال ظاہر کرتا ہے کہ ریاض اور دوحا کے لیے اسلام آباد ایک ناگزیر حفاظتی ڈھال ہے۔ پاکستان کا یہ کردار عالمی سطح پر مسلم دنیا کے استحکام اور امن کے لیے ایک مرکزی محور بناتا ہے۔
اقوامِ متحدہ، جو نیرمبرگ کے وعدے پر بنی تھی کہ کبھی دوبارہ ایسی درندگی نہ دہرائی جائے، آج مفلوج ہے۔ ہر جنگ بندی کی قرارداد کو امریکا مسترد کر دیتا ہے، اسرائیل اقوامِ متحدہ کی تمام قراردادیں نظر انداز کرتا ہے، بین الاقوامی فوجداری عدالت نیتن یاہو اور گیلانٹ کے لیے وارنٹ جاری کرتی ہے مگر اثر کچھ نہیں ہوتا۔ سلامتی کونسل منقسم ہے اور جنرل اسمبلی بے اثر ہے۔ وہ ادارہ جو کبھی ظلم کے خلاف کھڑا ہوا تھا، آج بے اثر ہے، اور ’’Never Again‘‘ کا وعدہ ’’بار بار‘‘ میں بدل گیا ہے۔
اسرائیل کا قطر پر حملہ اور اس کے بعد کے ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ ایک نئے موڑ پر ہے۔ خلیجی عوامی احتجاج کو دبایا نہیں جا سکتا، سعودی عرب کی پرانی پالیسیاں بدل رہی ہیں اور پاکستان محض تماشائی نہیں بلکہ ایک مرکزی کھلاڑی ہے، جو عرب دنیا اور عالمی توازن دونوں میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ مسلم دنیا کے لیے یہ لمحہ ایک ہنگامی سبق ہے: اگر ہم نے ’’Never Again‘‘ کو عملی شکل نہ دی تو ظلم اور درندگی بار بار دہراتی رہے گی۔ پاکستان اس منظرنامے میں ایک پوشیدہ اسٹرٹیجک کارڈ کے طور پر موجود ہے، جو خطے میں توازن اور اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ اور جیسا کہ یہ ’’Never Again‘‘ کا وعدہ بار بار دہرایا جا رہا ہے، واضح ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی طاقت، کوئی بھی ملک محفوظ نہیں۔ نہ کوئی تنظیم، نہ کوئی وعدہ، اور نہ کوئی حکمت عملی اس بات کی ضمانت دے سکتی ہے کہ کسی پر ظلم یا جارحیت دوبارہ نہیں ہوگی۔ ہر کوئی ایک دوسرے کی حدود کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیں سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔