ایران اسرائیل جنگ کا خاتمہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
ایران اسرائیل جنگ آخر کار ختم ہو گئی۔ 10جون 2025کو امریکی صدر جناب ٹرمپ کیمپ ڈیوڈ میں اپنے چند حواریوں سے ملے ۔وہاں پران کو ایک بریفنگ دی گئی جس کے نتیجے میں طے پایا کہ اسرائیل اب ایران پر حملہ کر دے۔امریکا پہلے ہی ایران پر حملے کا فیصلہ کر چکا تھا۔وکی لیکس کے مطابق صدر ٹرمپ کا سعودی عرب و خلیجی ممالک کا حالیہ دورہ بظاہر تو جو بھی مقاصد لیے ہوئے تھا لیکن اصل مقصد تیل کی دولت سے مالا مال ان ممالک کو براہِ راست یہ حکم پہنچانا تھا کہ ایران اسرائیل جنگ کے تمام اخراجات یہ ریاستیں اٹھائیں گی۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم نتن یاہو نے امریکا کا گرین سگنل ملنے پر تیرہ جون علی الصبح ایران پر حملہ کر دیا۔اسرائیل پچھلے لمبے عرصے سے اپنے عرب ہمسایوں کو مار رہا تھا۔اسے غرور اور تکبر تو تھا ہی لیکن اسے یہ خوش فہمی بھی ہو گئی کہ وہ کسی بھی قوم کو جھکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔اسرائیل نے اپنے قیام سے ابتک اپنی فضاؤں سے آگ برستی نہیں دیکھی تھی۔امریکا نے 10جون کو ایران پر حملے کے فیصلے سے پہلے ہی دھوکہ دہی کا ڈول مذاکرات کی شکل میں ڈال رکھا تھا۔
ایرانی قیادت اس دھوکے میں آ گئی کہ جب تک مذاکرات ہو رہے ہیں،حملہ نہیں ہو گا۔اس خام خیالی کا ایران کو بہت بڑا نقصان ہوا۔ایران کے انفراسٹرکچر کو تو جو نقصان پہنچنا تھا،سو پہنچا لیکن اس کی انتہائی تربیت یافتہ ملٹری قیادت موت کے منہ میں چلی گئی۔ایرانی افواج اور پاسدارانِ انقلابِ کے سربراہوں کے علاوہ اعلیٰ ترین قیادت پہلے دن کے اسرائیلی حملے کی نذر ہو گئی۔ایران کی نیوکلیئر قیادت بھی حملے کا شکار ہوئی۔ایران کے اداروں میں موجودہ حکومت کے مخالفین اور اسرائیلی موساد کے ایجنٹوں کی بھرمار دیکھی گئی۔شاید یہ حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ناکامی تھی۔
پہلے دن کے اسرائیلی حملے کے نتیجے میں بے پناہ جانی،مالی و انفرا سٹرکچر نقصانات سے سنبھلنے میں ایران کو ایک آدھ دن لگا لیکن پھر ایران نے عزم و حوصلے سے طاقتور انگڑائی لی اور اسرائیلی شہروں،فوجی تنصیبات اور خاص کر اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے ہیڈ کوارٹر کو اپنے میزائلوں سے نشانہ بنانا شروع کیا۔ساری دنیا یہ سمجھتی تھی کہ اسرائیل اتنا طاقتور ہے اور اس کا فضائی دفاع اتنا مضبوط ہے کہ اس کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی موثر نہیں ہو سکتی۔اسرائیل کی فضائیہ بہت اچھی اور بہت تربیت یافتہ ہے۔
یسی ایئرفورس کسی بھی ملک کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے ۔آج کل لڑاکا جہازوں کے مابین ڈاگ فائیٹ بہت شاذ و نادر ہے ۔آج تو میزائل ایک قوت و رفتار کے ساتھ اپنا پے لوڈ لے کر اُٹھتے ہیں اور ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے لپکتے ہیں۔یہ ٹیکنالوجی اگر امریکا و اسرائیل کے پاس ہے تو ایران بھی میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں بہت پیش رفت کر چکا ہے۔ایران نے بہت سمجھ بوجھ کے ساتھ پہلے دو دن بے شمار ڈرون اور کم مہلک میزائل فائر کیے جنہیں انٹرسپٹ کرنے کے لیے اسرائیلی فضائی دفاعی نظام حرکت میں آیا۔پہلے دو دن اسرائیلی نظام نے قدرے بہتر کارکردگی دکھائی اور ایران کے صرف بیس فیصد میزائل کارگر رہے،پھر بھی اسرائیلی افواج اور عوام کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔
دو دن کے ابتدائی ایرانی حملوں کو روکتے روکتے اسرائیلی دفاعی نظام تھکنے لگا تو ایران نے اپنے زیادہ مہلک ہتھیاروں سے حملہ شروع کر دیا تب اسرائیل کا دفاعی نظام بالکل بیٹھ گیا۔ ایران کے اکثر میزائل اہداف کو نشانہ بنانے لگے۔ اسرائیل میں ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر دیکھنے کو ملے۔اسرائیلی عوام بنکروں میں چھپ گئی جس سے ان کا جانی نقصان تو کم ہوا لیکن اسرائیلی انفراسٹرکچر کو پہلی دفعہ کھنڈر بنتے دیکھا گیا۔
صدر ٹرمپ اور انکی ٹیم پہلے تو یہ کہتی رہی کہ یہ اسرائیل کا اپنا اقدام ہے،امریکا اس میں شامل نہیں ہے لیکن جب اسرائیل سے چیخ و پکار اٹھنے لگی تو امریکا نے پینترا بدلا۔اس موقع پر بھی دنیا کے سامنے کہا گیا کہ حملہ کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ دو ہفتوں میں ہو گا۔ یاد رہے کہ دو ہفتے صدر ٹرمپ کی پسندیدہ دھوکہ بازی ہے وہ اکثر موقعوں پر ایسا ہی کہتے رہے ہیں لیکن کرتے کچھ اور ہیں۔ٹرمپ اور نتن یاہو جنگ کے دوران روزانہ تبادلہ خیالات کر رہے تھے۔جنگ کے نویں روز دونوں کے درمیان طے پایا کہ اسرائیل کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے اب امریکا کو براہِ راست جنگ میں حصہ لینا ہوگا۔
امریکا نے فوجی کارروائی کے لیے اپنے بی ٹو بمبار طیاروں کو استعمال کیا۔ایران کے تین نیوکلیئر مقامات نطنز،اصفہان اور فردو کو بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا گیا۔اس فوجی کارروائی کی تکمیل کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے اعلان کیا کہ امریکا نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے لیکن صدر ٹرمپ کوئی چھوٹی بات تو کر تے نہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ 60میٹر تک کی گہرائی میں مار کرنے والا بم اس سے کہیں زیادہ گہرائی میں قائم ایٹمی پلانٹ کو کیسے مکمل تباہ کر سکتا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق ایرانی ایٹمی پلانٹ تباہ نہیں ہوئے،اسٹیلائٹ تصاویر بھی اسی بات کی گواہی دے رہی ہیں۔مشہور امریکی نیوز چینلز بشمول CNNبھی یہی کہہ رہے ہیں کہ مکمل تباہی نہیںہوئی۔خبروں کے مطابق امریکیوں نے تین ایٹمی تنصیبات پر حملے سے پہلے ایران کو آگاہ کر دیا تھا۔ یہ عین ممکن ہے کہ جنگ شروع ہوتے ہی ایرانیوں نے افزودہ یورینیم کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہو گو کہ یہ منتقلی آسان نہیں۔دوسرا امریکی پیشگی اطلاع بھی مدد گار رہی ہو۔غالب امکان یہی ہے کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم بچ گیا ہو۔جنگ شروع ہونے سے پہلے ایران کے پاس کم از کم 9ایٹم بم بنانے کے لیے 60فیصد افزودہ یورینیم موجود تھی۔اسرائیلی اور امریکی حملوں کے بعد کسی بھی ایرانی نیوکلر مقام سے نہ تو تابکاری کا اخراج رپورٹ ہوا اور نہ ہی افزودہ یورینیم کے پھٹنے سے پیدا ہونے والا زلزلہ ریکارڈ ہوا۔ان شواہد سے تو یہی عیاںہے کہ جناب ٹرمپ کا بیان حقیقت پر مبنی نہیں۔ہاں نیوکلیئر پروگرامDegradeہوا۔
امریکی فضائی حملے کے بعد ایران نے اعلان کیا کہ وہ بدلہ لے گا۔اس وقت سعودی عرب،عراق اور قطر میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔امریکا نے فوراً ضروری احتیاطی تدابیر بروئے کار لائیں۔ادھر ایران نے حملے سے پہلے امریکا کو جانکاری بھی دے دی۔
ایرانی حملے میں قطر اور وہاں موجود امریکی فوجی اڈے کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ایران کبھی امریکا کا نقصان کرتا بھی نہیں۔جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ایران نے عراق کے اندر امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تو تب بھی کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔قطر میں امریکی فوجی اڈے پر ایرانی حملے کے فوراً بعد امیرِ قطر نے صدر ٹرمپ سے رابطہ کر کے جنگ بندی کی اپیل کی۔ٹرمپ نے امیرِ قطر کو کہا کہ آپ جنگ بندی کے لیے ایران کی رضا مندی حاصل کریں۔امیرِ قطر نے ایرانی صدر سے بات کر کے رضا مندی حاصل کی اور صدر ٹرمپ کو آگاہ کر دیا۔صدر ٹرمپ نے نتن یاہو کوجنگ بندی کا کہہ دیا یوں وہ جنگ جو امریکی حملے اور ایران کے بظاہر جوابی حملے سے ایک عالمی جنگ کا روپ دھار رہی تھی،فوری جنگ بندی پر منتج ہوئی۔
ایران اسرائیل جنگ پاکستان کے لیے بہت تشویش کا باعث تھی۔ایران پاکستان کا پڑوسی اور مسلم ملک ہے،ایرانی نقصان پر ساری پاکستانی قوم رنجیدہ ہوتی ہے۔اس جنگ کی وجہ سے جنگ پاکستان کے پڑوس میں پہنچ گئی تھی۔پڑوس میں آگ لگی ہو تو گھر کو بچانا اولین ترجیح ہوتی ہے۔جنگ کے شروع میں اسرائیل اور جنگ کے دوران امریکا نے جو اہداف مقرر کیے تھے ان میں سے ایران کے اندر حکومت تبدیلی کا ہدف تو بالکل ناکام دکھائی دیا،سابق ایرانی ولی عہد رضا پہلوی دیوارِ گریہ پر یہودی بن کر پیشانی رگڑنے کے بعد تخت سنبھالنے کے لیے تیار بیٹھے رہ گئے۔
ایرانی ایٹمی تنصیبات بھی شاید مکمل تباہی سے دوچار نہیں ہوئیں۔اسرائیل کو پہلے دن بڑی کامیابی ملی لیکن پھر جنگ کے شعلے اس کے اپنے دامن کو جلانے لگے۔پاکستان کے پاس تو امریکا،اسرائیل ،بھارت اور مغربی ممالک کی مرضی کے خلاف ایٹم بم ہے۔ہمیں اپنے دامن کو سمیٹ کر،جنگوں سے بچ کر اپنے دفاع اور معیشت کو مزید مضبوط بنانا ہے اور بہت چوکس رہنا ہے۔خدا پاکستان پر اپنی رحمت کا سایہ کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایران اسرائیل جنگ امریکی فوجی اڈے افزودہ یورینیم امریکا نے ایران نے ایران پر ایران کے سے پہلے نہیں ہو حملے کے کر دیا جنگ کے کے پاس کے لیے کے بعد
پڑھیں:
یقیں نہ کرنا، بہت اندھیرا ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250924-03-7
باباالف
زمانہ اور اس کے روزو شب بدل رہے ہیں۔ بالکل بدل جانے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ پرانی دنیا اختتام پذیر ہورہی ہے۔ مغربی نظریات، تصورات، احساسات اور کوششیںسند باد کے بحری اسفار کی طرح پیچھے رہ گئی ہیں۔ جنات، حسین دوشیزائیں، دیو قامت مغربی جنگی پرندے اور نظام، ایک دروازہ تھا جو بتدریج بند ہورہا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر تھا جس میں لاکھ آوارہ گردی رہی لیکن واپس اپنے ماضی کی طرف ہی آنا ہے۔ خلافت راشدہ کے اسلامی نظام کی طرف۔
پاک سعودی معاہدے کے پیدا کردہ جوش وخروش میں ابھی تک یہ علم نہیں کہ یہ باقاعدہ پیکٹ ہے یا پھر عام معاہدہ یا اگریمنٹ۔ بجا طور پرایک سرخوشی اور نشاط کا عالم ہے۔ سعودی بھائی اور ہم یک جان دو قالب تو ابتدا سے رہے ہیں اب شہر کے چھٹے ہوئے غنڈوں اور مسٹنڈوں کے خلاف بھی معاہدے کی ڈوری میں بندھ گئے ہیں۔
ہمارے وزیرخارجہ خواجہ آصف تو اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں کہ اس معاہدے میں دوسرے ممالک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اشارہ اس طرف تھا کہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی نیو کلیئر شیلڈ یا کور فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ایٹمی پھیلائو (Nuclear proliferation) کی حدود وقیود سے یہی وہ تجاوز ہے مغربی اور بھارتی میڈیا نے ابھی سے جس کا طبلہ سارنگی بجانا شروع کردیا ہے۔ ہمارے یہاں خراب وخوار ہونے کی ایک دورخی ریت چلی آرہی ہے کہ مخاطب اپنے مسلمان بھائی ہوں تو اسلامی جذباتیت کا ایٹم بم ہمراہ ہوتا ہے اور اگر خطاب رائٹرز (Reuters) سے ہوتو مسلم وابستگی کا ہیجان زنگ آلود اور نیم جان ہوکر انکار میں بدل جاتا ہے۔
اس معاملے میں ابہام ہے کہ اگر ہم سعودیہ کو نیو کلیئر چھتری مہیا نہیں کررہے ہیں تو پھر وہ کیا ہے جس کی سعودیہ کو کمی ہے۔ معاملہ بس اتنا تو نہیں ہے کہ عربوں کو ہماری ضرورت ہے اور ہمیں ’’اربوں‘‘ کی۔ یا پھر یہ کہ امریکا اپنی دفاعی چھتری کی بہت زیادہ قیمت وصول کرنا چاہتا تھاجب کہ پاکستان سے یہ سستے داموں مل گئی ہے۔ معاہدے کے ضمن میں امریکا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے تعلقات میں پڑنے والی گرہیں بھی پیٹ پھاڑ کر کلیجہ چبانے تک آگئی ہیں کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد عرب ممالک کو امریکا پر بھروسا نہیں رہا۔ بیوگی کی چادر عرب بھائیوں سے امریکا تک تن گئی ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے جاپان امریکا طرز کے دفاعی معاہدے میں ’’نکی جئی نا‘‘ حائل ہوگئی ہے اور بس۔
امریکا ہمیں جو دے ہے نہیں لیتے ہم
کونین بھی گو دے ہے، نہیں لیتے ہم
ہم لیتے ہیں جس ڈھب سے نہیں دیتا وہ
جس ڈھب سے کہ وہ دے ہے نہیں لیتے ہم
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کا میلہ اور بازار پہلی مرتبہ نہیں لگا۔ یہ سلسلہ 1967 سے شروع ہوا۔ 1979 میں مسجد الحرام پر قبضے کے بعد محبت میں اضافہ مزید گہرا ہوا جب پاکستانی اسپیشل فورسز نے سعودی فوجیوں کو مسجد الحرام پر دوبارہ قبضہ کرنے میں مدد دی۔ 1982 میں سیکورٹی تعاون کے معاہدے کے ذریعے سعودی فوجیوں کو پاکستانی تربیت، مشاورت اور معاونت سعودی سرزمین پردی جانے لگی جس میں بعض اوقات 20 ہزار پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات رہے۔
دسمبر 2015 میں ’’اسلامی ملٹری کائونٹر ٹیررازم کو لیشن IMCTC‘‘ وجود میں آیا جو 43 اسلامی ممالک کے درمیان دہشت گردی کی بے چہرہ امریکی جنگ میں شرکت کا اتحاد تھا۔ 6 جنوری 2017 کو اس اتحاد کو بوسہ دینے کے لیے پاکستان نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس فورس کے پہلے کمانڈر جنرل کے عہدے کے لیے سعودی عرب کو بطور تحفہ دے دیا گیا۔ آج بھی وہی اس فورس کی کمان کررہے ہیں۔ یہ فورس آج کہاں ہے؟ سعودی فرمانروائوں کے کن محلات کی حفاظت کررہی ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ اگر یہ اسلامی دنیا کا اتحاد اور مسلم ناٹو تھا تو غزہ میں مداخلت کیوں نہیں کررہا ہے جہاں ناپاک صہیونی وجود بنام اسرائیل ہر مسلمان مردو عورت کو شہید اور ہر عمارت کو تباہ کررہا ہے۔ کیا صرف سعودیوں اور پاکستانیوں کے خون کی حرمت کعبہ کی حرمت سے سوا ہے؟ اہل غزہ کے خون، جان اور مال کی کوئی حرمت نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اتنے بڑے اتحاد کی موجودگی میں نیا اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کیا اس لیے کہ وہ ایک سنی اتحاد تھا۔
پاکستان اور سعودی عرب کا ہی سنگم نہیں ہوا ہے آج کل ترکی اور مصر کا اتحاد بھی بغیر کسی اعلان کے جاری ہے جن کے درمیان 2016 کے بعد خاصے اختلافات رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان آج کل فوجی مشقیں ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ بھی قطر کے ساتھ ساتھ دیگر سات اسلامی ممالک پر اسرائیل کے حملے قراردیے جارہے ہیں۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ مصر کا فرعون جنرل سیسی بھی امریکی ڈارلنگ ہے جس کو سالانہ ایک سے دو ارب ڈالر امریکی امداد ملتی ہے، آئی ایم ایف کے قرضے بھی ملتے ہیں صرف اس ایک شرط پر امریکا کے سامنے سرتسلیم ہی نہیں پورے کا پورا سربسجدہ رہنا ہے۔ اسرائیل بھی امریکا کا بغل بچہ ہے اور ترکی کے صدر طیب اردوان بھی امریکا کی گڈ بک میں ہیں۔ تینوں کی امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ ہے۔ پاک سعودی اتحاد ہو یا ترک مصر اتحاد ان ممالک کی حکمران اشرافیہ اپنے اپنے فائدے کے لیے نئے اتحاد تشکیل دے رہی ہے۔ اور یہ سب کچھ ہورہا امریکا کی رضا اور مرضی سے۔ امریکا چاہتا ہے کہ خطے کے بڑے ممالک آپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں۔ ان کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی ہوحالانکہ ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی نہیں ہے مگر امریکا کے سب قابل قدر شراکت دار ہیں تاکہ امریکا ایران، روس اور چین پر اپنی پوری توجہ مرکوز رکھے۔
تمام اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کے عوام میں بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے جو اپنے حکمرانوں سے شدید نا خوش ہیں خصوصاً امریکا اور اسرائیل کے حوالے سے۔ ان اتحادوں سے حکمران عوام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ امریکا سے دور ہورہے ہیں اور امریکا اور اسرائیل کے خلاف باہم متحد ہورہے ہیں۔ یہ اتحاد عوام کو ٹھنڈا اور خوش کرنے کے لیے ہیں۔ عوام کی فلاح وبہبود کا اس سے کوئی تعلق نہیں سوائے اس کے کہ عوام کو خوش کن ترانے سننے کو مل جاتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف ان مسلم حکمرانوں کی کوئی شخصیت ہے اور نہ یہ اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ اگر اسرائیل سے اتنی ہی نفرت ہے تو قطر پر حملے کے فوری بعد امارات اور تل ابیب کے درمیان فلائٹس پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی۔ سفارتی تعلقات کیوں منقطع نہیں کیے گئے۔ آج بھی ائر دبئی کی روزانہ تین مرتبہ فلائٹس اسرائیل جاتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کے نزدیک عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایسے معاہدوں سے ان حکمرانوں کی مدت اقتدار طویل ہوجاتی ہے، پاکستان جیسے ملک کے حکمرانوں کو عیاشیوں اور اللے تللوں کے لیے وافر ڈالرز مل جاتے ہیں۔ رہے عوام اور ملک وہ وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام اسلام کا نظام چاہتے ہیں۔ آج بھی ان کے خوابوں، خیالوں اور نظریات میں خلافت راشدہ کے نظام کے سوا کچھ نہیں۔ آخر میں کالم کی ابتدائی سطریں دوباہ پڑھ لیجیے۔