ایران کے ساتھ جنگ میں 6 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، اسرائیلی مرکزی بینک کا اعتراف
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
ایران کیساتھ جنگ سے ہونیوالے معاشی نقصانات کی تفصیل بتاتے ہوئے اسرائیل کے مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ جنگ کے باعث اسرائیل کی جی ڈی پی میں 1 فیصد کمی کا امکان ہے۔ اسرائیلی سینٹرل بینک نے مزید کہا کہ جنگ سے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، ایران کے ساتھ جنگ کے اخراجات معیشت پر بھاری بوجھ ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی سینٹرل بینک کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ میں اسرائیل کو 6 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کے مرکزی بینک نے ایران کے ساتھ جنگ سے ہونے والے معاشی نقصانات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جنگ کے باعث اسرائیل کی جی ڈی پی میں 1 فیصد کمی کا امکان ہے۔ اسرائیلی سینٹرل بینک نے مزید کہا کہ جنگ سے انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا، ایران کے ساتھ جنگ کے اخراجات معیشت پر بھاری بوجھ ہیں۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ ایران کے خلاف فتح نے امن کے دروازے کھول دیئے ہیں، ہم ایران کے خلاف طاقت سے لڑے اور عظیم فتح حاصل کی۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اس فتح سے امن معاہدوں میں ڈرامائی توسیع کا ایک موقع ہے، جس پر ہم بھرپور طریقے سے کام کر رہے ہیں، قیدیوں کی رہائی اور حماس کی شکست کا موقع ملا ہے، جسے ہم ضائع نہیں کریں گے، ہمیں اب ایک دن بھی ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران کے ساتھ جنگ کہ جنگ جنگ کے کہا کہ
پڑھیں:
ترسیلات زر بڑھنے کے ساتھ تجارتی خسارے میں بھی اضافہ، ماہرین کا انتباہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستانی معیشت کے لیے ایک جانب بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر نے وقتی سہارا فراہم کیا ہے، تو دوسری طرف بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ماہرین کے نزدیک خطرے کی نئی گھنٹی بجا رہا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2025 کے دوران بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے وطن عزیز میں 3.42 ارب ڈالرز کی ترسیلات بھیجیں، جو گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں تقریباً 11.9 فیصد زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ وقتی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری کا اشارہ ضرور دیتا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات اور سکڑتی برآمدات نے حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2025-26 کے ابتدائی چار ماہ (جولائی تا اکتوبر) میں ترسیلات زر 12.96 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 9.3 فیصد زیادہ ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب بدستور سب سے بڑا ذریعہ ہے جہاں سے اکتوبر میں 820.9 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو ماہانہ بنیاد پر 9.3 فیصد اور سالانہ بنیاد پر 7.1 فیصد زیادہ ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات سے 697.7 ملین ڈالر (15 فیصد اضافہ)، برطانیہ سے 487.7 ملین ڈالر (4.7 فیصد اضافہ) جب کہ امریکا سے ترسیلات 290 ملین ڈالر رہیں جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 8.8 فیصد کم ہیں۔
اسی طرح یورپی یونین کے ممالک سے مجموعی طور پر 457.4 ملین ڈالر موصول ہوئے، جو 19.7 فیصد سالانہ اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری سمت صورتِ حال تشویشناک ہے۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں تجارتی خسارہ 12.6 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔ اس عرصے میں درآمدات 15.1 فیصد اضافے سے 23 ارب ڈالر تک جاپہنچیں جب کہ برآمدات 4 فیصد کمی کے ساتھ 10.5 ارب ڈالر پر سکڑ گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف اکتوبر کے مہینے میں درآمدات 6.1 ارب ڈالر تک پہنچیں جو مارچ 2022 کے بعد سب سے زیادہ سطح ہے جب کہ برآمدات 2.8 ارب ڈالر رہیں، یوں ماہانہ تجارتی خسارہ 3.2 ارب ڈالر تک جا پہنچا — جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 56 فیصد زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ترسیلات میں اضافہ وقتی ریلیف ضرور ہے، لیکن مستقل حل برآمدات میں اضافے اور درآمدی انحصار میں کمی سے ہی ممکن ہے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر برآمدی پالیسی میں اصلاحات نہ کیں، تو موجودہ درآمدی دباؤ ایک بار پھر بیرونی کھاتوں پر شدید بوجھ ڈال سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو اب درآمدی معیشت سے نکل کر پیداواری معیشت کی طرف جانا ہوگا تاکہ پائیدار اقتصادی استحکام حاصل کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم نے بڑھتے خسارے سے نمٹنے کے لیے توانائی، ٹیکس اصلاحات اور برآمدی پالیسیوں پر مشتمل آٹھ ورکنگ گروپس قائم کر دیے ہیں، جو رواں ماہ کے وسط تک اپنی سفارشات پیش کریں گے، تاہم معیشت پر دباؤ کم کرنے کے لیے عملی اقدامات، صنعتی شعبے کی بحالی اور برآمدکنندگان کو سہولتیں دینے کے بغیر کوئی پائیدار بہتری ممکن نہیں۔