Juraat:
2025-11-10@07:21:10 GMT

تہذیبوں کا عروج وزوال

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

تہذیبوں کا عروج وزوال

آواز
۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

تاریخ بااختیار اور بے اختیار لوگوں کے عروج و زوال کی نشان دہی کرتی ہے جس میں ہزاروںسینکڑوں کہی ان کہی کہانیاں پوشیدہ ہے۔ لیکن یہ کتنی ستم طریفی ہے کہ کبھی کسی نے تاریخ سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہی ہمارا المیہ ہے زمانہ قدیم میں سلطنت روم یا روم الکبریٰ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور تھی ،جس میں آج کے یورپ کا بہت بڑا حصہ شامل تھا۔ اس کے زوال کے بعد علیحدہ علیحدہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آنے لگیں جس کے درمیان اکثر وبیشتر لڑائیاں اور جنگیں ہوتی رہتی تھیں جس نے بتدریج بڑی بڑی سلطنتوں کی بنیاد رکھی ۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس طرح فرانس،ا سپین، برطانیہ اور بعد میں اطالیہ اور جرمنی میں طاقتور شاہی حکومتوں کا قیام عمل میں آیا۔ نپولین کی جنگوں کے بعد انیسویں صدی عیسوی میں یہ تحریک ترقی کرتی گئی اور چھ ملکوں برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریا، روس اور اطالیہ کا شمار دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہونے لگا ،ان میںرقبہ اور آبادی کے اعتبار سے نئی سلطنت روس کے مقابلے میں دوسری سلطنتیں بالکل چھوٹی اور حقیر نظر آنے لگیں ۔ موجودہ یورپ درجنوںچھوٹے چھوٹے ملکوں پر مشتمل ہے جو ایک بڑی سلطنت کا تاثردینے سے قاصر ہے۔ اسی لئے یورپی یونین کا قیام عمل میں لایا گیا ۔یورپ میں متعدد چھوٹی چھوٹی شاہی حکومتیں اور جمہوری ریاستیں ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ دوسرے براعظموں کے مقابلہ میں یورپ چھوٹا ہے لیکن دنیا کی عظیم ترین مملکتوں کا مرکز رہا ہے۔یورپین ممالک نے یقینا ایشیا سے، جہاں دنیا کی سب سے زیادہ قدیم تہذیبوں کی نشوونما ہوئی تھی سے بھرپور فیض اٹھایا۔ یونانیوں کے وقت سے یورپ کو سب براعظموں میں اولین حیثیت رہی ہے۔ یونانی تہذیب کے بعد روما کی تہذیب کا ظہور ہوا اور بعد میں اطالیہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی تہذیبیں پیدا ہوئیں۔ تجارت میں بھی یورپ کو ایک عرصہ دراز تک غلبہ حاصل رہا ہے۔ اس تسلط کے کئی اسباب ہیں، معتدل آب و ہوا، ساحلی علاقے تک بآسانی رسائی، قدرتی دولت اور ان تک باشندوں کی فطری رسائی۔ دنیا کی تاریخ میں یورپ نے جو کردار ادا کیا ہے اس کے رقبے کے تناسب سے بہت زیادہ ہے۔ صدیوں تک وہ مغربی تہذیب و تمدن کا گہوارہ اور ادب و فنون اور سائنس کا مرکز رہا ہے۔ تقریبا تین ہزار سال قبل بحرمتوسط کے ساحل پر تہذیب و تمدن کا آغاز ہوا تھا۔ اہل اسرائیل، اہل یونان ور اہل رومہ یورپی تہذیب کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ یورپ کے ایک بڑے حصے کو رومیوں نے اپنے زیراثر رکھا تھا۔ ان کے دور حکومت میں یورپ میں پہلی مرتبہ سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور سڑکوں کا یہ نظام انیسویں صدی عیسوی تک لاثانی رہا۔ اس دور میں یورپ کے مشہور شہروں لندن، پیرس، ویانا اور مارسیلز وغیرہ کی بنیادیں رکھی گئیں۔ صدیوں کی عملداری کے بعد 500 ء میں سلطنت روما کے دو ٹکڑے ہو گئی۔ اس کے مغربی حصہ میں وحشی حملہ آوروں نے نئی ریاستیں قائم کیں اور اس کا مشرقی حصہ بازنطینی مملکت کے نام سے موسوم ہوا جس کا دارالخلافہ نیا روم یا قسطنطنیہ تھا۔ بازنطینی مملکت تقریبا ایک ہزار سال تک قائم رہی۔ اس کی تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس کا اقتدار ایران کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا اور یورپ، ایشیاء اور افریقہ یکساں طور پر اس کی افواج سے خوف زدہ رہا کرتے تھے۔ اپنے طویل دور حکومت میں یہ سلطنت عیسائیوں کا مضبوط مرکز تھی۔
مشرقی یا یونانی کلیسا نے مشرقی اور وسطی یورپ کے بہت سارے لوگوں کا مذہب تبدیل کروایا۔ مشرقی یورپ، روس، رومانیہ اور بلغاریہ کے بیشتر لوگوں کا طریق عبادت رومن کیتھولک یا مغربی کلیسا سے مختلف ہے۔ 1453 ء میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد یہ مملکت ترک مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئی۔ سلطنت رومہ کے ٹکڑے ہونے کے بعد مغربی یورپ میں جو نئی ریاستیں قائم ہوئی تھیں۔ انہیں عرب مسلمانوں سے خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔ قبول اسلام کے بعد عرب اپنے ریگستانی جزیرہ نما سے نکل کر مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ میں پھیل گئے مسلمان آندھی اور طوفان کی طرح اٹھے اور ان پرخطروسیع علاقوں کو 50 سال سے کم عرصہ میں فتح کرکے پوری دنیا پر چھا گئے اور ا سلامک سلطنت کوا سپین، پرتگال اور جزیرہ سسلی تک پھیلا دیا۔ بالآخر جنوبی فرانس میں مسلمانوں کی فاتحانہ پیش قدمی کو روک دیا گیا۔ اسپین سے ان کا اخراج 1492 ء تک پایہ تکمیل کو پہنچا، اس سال کولمبس نے نئی دنیا (امریکا) دریافت کی۔ یورپی تہذیب کی نشوونما میں عرب مسلمانوں کا نمایاں حصہ رہا ہے۔ انہوں نے یہاں چاول، کپاس اور شکر جیسی اہم فصلوں اور بہت سے میوئوں کی کاشت کو متعارف کروایا اور کئی فنون، صنعتوں اور سائنسی علوم جیسے فلکیات، طب اور ریاضی میں گراںقدرکام انجام دیا مسلمانوں نے ایسے علوم متعارف کروائے جن کا یورپین لوگوںعلم تک نہیں تھا ۔اس لئے کہاجاتاہے کہ یورپ کے مسیحی باشندوں نے بہت سی باتیں عربوں سے سیکھی ہیں مسلمانوں کے خوف نے مسیحی ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی طاقت بڑھانے پر مجبور کیا جس کے نیتجہ میں کئی ایجادات ہوئیں ۔ فرانکوں کی قلمرو (The Kingdom of Franks) جس میں موجودہ فرانس اور مغربی جرمنی شامل تھے، وجود میں آئی۔ مسیحی یورپ کا یہ نیا اتحاد 800 ء میں قائم ہوا جبکہ اسقف اعظم لیو سوم نے فرانکی بادشاہ شارلیمان (Charlemagne) کی تاج پوشی مغربی کے رومی شہنشاہ کی حیثیت سے کی۔ اس مملکت کا نام مقدس رومی مملکت (The Holy Roman Empire) رکھا گیا۔ شارلیمان کی وفات (814ء ) کے بعد اس کی مملکت میں زمانہ حال کا جرمنی اور بحرمتوسط کا ایک چھوٹا ساحلی علاقہ شامل تھا۔ 843 میں اس کی مملکت کو اس کے پوتوں میں تقسیم کر دیا گیا جس کے باعث متعدد سیاسی وحدتیں وجود میں آئیں جن میں موجودہ فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔ شارلیمان کی مملکت برائے نام باقی رہ گئی تھی اور 1806 ء میں پورے طور پر اس کا خاتمہ ہو گیا جبکہ نپولین نے اس کے آخری شہنشاہ فرانسس دوم کو تخت شاہی سے دست بردار ہونے پر مجبور کردیا۔ مقدس رومی مملکت کا قیام اس منصوبے کے تحت عمل میں لایا گیا تھا کہ وہ سلطنت روم کی جانشین بنے مگر یہ مقصد کبھی بھی حاصل نہ ہو سکا۔ یہ مملکت متعدد چھوٹی اور کمزور ریاستوں پر مشتمل تھی جو ہمیشہ طاقتور مرکزی حکومت کے خلاف برسرپیکار رہا کرتی تھیں۔ قرون وسطی اور ابتدائی عہد جدید کے دوران حکمرانوں کے درمیان آپس میں لڑائیاں اور شہنشاہ کے خلاف حکمرانوں کی لڑائیاں باربار ہوا کرتی تھیں۔ متحدہ مہمات اور اتحاد کے مظاہرے، جیسے بیت المقدس کو مسلمانوں سے اپنے قبضے میں لینے کے لئے صلیبی لڑائیں استثنائی صورتیں تھیں۔قرون وسطی میں شہروں کی تعداد کم تھی، اکثر امرا ء اپنی جاگیروں میں رہا کرتے تھے، جو انہیں دوسرے بڑے امیروں یا بادشاہوں سے ملی تھیں۔ جاگیر کے عوض انہیں جو خدمات انجام دینی پڑتی تھیں جوزیادہ تر سیاسی و معاشرتی نوعیت کی ہوتی تھیں لیکن وہ بادشاہوں ،وزیر و مشیروںکی خوشنودی کے لئے دوسروںکی جاسوسی اور مخبری بھی کرنے گریز نہیں کرتے تھے۔ اس جاگیرداری نظام کے تحت بادشاہ مطلق العنان حکمران نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ سب سے زیادہ اہم امیر کی حیثیت رکھتا تھا۔ اکثر اوقات کمتر درجہ کے امیر خود اس عہدے کے منتظر ہو جاتے تھے اور بادشاہ کا اختیار صرف اس جاگیر پر چلتا تھا جس پر اس کی شخصی حکمرانی ہوا کرتی تھی۔ اس دور میں یورپ کے مختلف ممالک کی نشوونما مختلف طریقوں سے ہوتی رہی۔ انگلستان میں ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آیا جس میں شخصی حقوق کے تحفظ کی ضمانت 1215 ء کے منشوراعظم (The Magna Carta) کے ذریعہ دی گئی۔ وہاں ایک پارلیمنٹ قائم ہوئی جو اس قدر طاقت ور تھی کہ بادشاہ کو قابو میں رکھ سکے۔ا سپین میں متعدد چھوٹی چھوٹی شاہی حکومتیں نمودار ہوئیں۔ مسلمانوں کو جنوب کی غرناطہ کے پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا گیا اور آخر میں یہ ریاستیں فرڈی ننڈ اور ازابیلا کے تحت ایک مضبوط شاہی حکومت میں متحد ہو گئیں۔ یہ وہی فرڈی ننڈ اور ازابیلا ہیں جنہوں نے کولمبس کے مشہور بحری سفر کی کفالت کی تھی۔ فرانس میں بادشاہوں کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم رہا جن میں بہت سے ممتاز لوگ گزرے ہیں اور جنہوں نے اپنی عملداری کو وادی پیرس سے لے کر سارے ملک پر پھیلا دیا تھا اور جنگ صد سالہ میں انگریزوں کو شکست دے کر ملک سے نکال باہر کیا تھا۔ اطالیہ میں اس کے برخلاف بغیر کسی واحد مستحکم مرکزی حکومت کے متعدد چھوٹی ریاستیں وجود میں آئیں۔ الپس (The Alps) کی پہاڑی وادیوں میں رہنے والے، جو سینٹ گوتھارڈ کے شمال جنوب کی سب سے زیادہ اہم شاہراہوں پر قابض تھے، نے 1292 میں ہاپسبرگ شہنشاہوں اور ان کے نمائندوں سے لڑنے کے لیے متحدہ کارروائی کی اور کامیاب ہو گئے۔ جھیل لوسیرین کے اطراف کی ریاستوں نے مل کر پہلی سوئس ریاست بنائی۔ آہستہ آہستہ یہ وفاقی ریاست پھیلتی گئی یہاں تک کہ 1648 ء میں اس کی آزادی اور 1815 ء میں اس کی غیر جانبداری کو تسلیم کر لیا گیا۔ 1453 ء میں عثمانی ترکوں نے قسطنطنیہ کو تسخیر کر لیا اور جلد ہی اپنی حکمرانی کو جنوبی یورپ اور شمالی افریقہ تک پھیلا دیا اس واقعہ سے قرون وسطی کا خاتمہ اور یورپ کی جدید تاریخ کا آغاز ہوا۔ ویسے تو استنبول کو یورپ کا دروازہ کہاجاسکتاہے لیکن مذہبی تعصب اور خلافتِ عثمانیہ کی فتوحات کے باعث اسے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب آیا صوفیاء کی حیثیت بحال کرکے مسجد بنادیا گیاہے جس پر یورپین ممالک بہت سیخ پا ہیں ،اس میں صدیوںکے عروج و زوال کی کئی کہانیاں تاریخ کے سینے میں دفن ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: متعدد چھوٹی شاہی حکومت میں یورپ یورپ کے دیا گیا کا قیام دنیا کی رہا ہے کے بعد

پڑھیں:

آئین میں27ویں ترمیم کیا ہے؛مکمل تفصیل سامنےآگئی

    سٹی42: پاکستان کے آئین میں مجوزہ ستائیس ویں ترمیم کے اہم نکات میں سر فہرست آئینی عدالت کا قیام، آرٹیکل (3) 184 کے تحت سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا متنازعہ ہو جانے والا اختیار ختم کرنا، صدرِ مملکت کو فوجداری مقدمہ سے تاحیات استثنا حاصل ہونا اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا سیریمونیل عہدہ ختم کر کے پاکستان آرمی کے چیف کو "چیف آف ڈیفینس فورسز" کی ذمہ داری سونپنا  شامل ہیں۔

موٹر سائیکل سوار کا 21 لاکھ روپے کا چالان، ایک قومے(،) نے کیا سے کیا کردیا

 وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی
مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائےگی۔وفاقی آئینی عدالت میں ہر صوبے سے برابر تعداد میں جج مقرر کئے جائیں گے۔   

سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتیں آئینی عدالت کے فیصلوں کی پابند

وفاقی آئینی کورٹ کے فیصلےکی سپریم کورٹ سمیت پاکستان کی تمام عدالتیں پابند ہوں گی۔

ون ڈے سیریز میں بڑی فتح، وزیراعظم اور محسن نقوی کی قومی ٹیم کو مبارکباد

سپریم کورٹ کا کوئی جج وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے سے انکار کرے گا تو ریٹائر تصور ہوگا۔

آئینی عدالت کے جج کون ہوں گے

چیف جسٹس آف پاکستان آئینی کورٹ اور ججوں کا تقرر صدر کریں گے۔

 وفاقی آئینی عدالت کے جج 68 سال کی عمر تک عہدے پر کام کریں گے۔

 آئینی عدالت کے چیف جسٹس کا تقرر تین سال کےلئےہوگا۔

بابراعظم نے انٹرنیشنل کرکٹ میں 15000 رنز مکمل کرلیے

صدر سپریم کورٹ کے ججز میں سے وزیراعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی کورٹ کا پہلا چیف جسٹس تقرر کرے گا۔ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے ججز کا تقرر صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر چیف جسٹس فیڈرل آئینی کورٹ سے مشاورت سے کرےگا۔

آئینی عدالت کے چیف جسٹس اپنی تین سالہ مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔جب بھی ضرورت پڑا کرےگی،  صدر مملکت  آئینی عدالت کے کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا کریں گے۔

سانحہ نو مئی کے مجرم کی نشست مسلم لیگ نون کو مل گئی، بلال فاروق بلامقابلہ ایم این اے

آئینی عدالت کیا کرےگی

صدر مملکت  قانون کی تشریح سے متعلق کوئی معاملہ رائے حاصل کرنے کے لیے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجیں گے۔

 وفاقی آئینی عدالت اپنےکسی فیصلے پر نظرثانی  بھی خود کرے گی۔

ہائی کورٹ کے جج کا تبادلہ کون کرے گا

 ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلوں کا اختیار  جوڈیشل کمیشن کو دیا جائےگا۔ اگرکوئی جج  ٹرانسفر ماننے سے انکار کرےگا تو  وہ ریٹائر تصور کیا جائےگا۔

ہائی کورٹ کا کوئی جج وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ میں تقرری کو قبول نہیں کرے گا تو ریٹائر تصور ہوگا۔ 


ہائی کورٹ کے کیس کا تبادلہ کون کرےگا

 آئینی کورٹ یا سپریم کورٹ کے پاس ہائی کورٹ سے کوئی اپیل یا کیس اپنے پاس یا کسی اور ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کرنےکا اختیار ہوگا۔

از خود نوٹس سے متعلق 184 کا خاتمہ
مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق قانون سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجنے کی شق ختم کر دی گئی ہے از خود نوٹس سے متعلق 184 بھی حذف کر دی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلےکے سوائے آئینی عدالت کے تمام عدالتیں پابند ہوں گی
مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق  سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابندی آئینی عدالت کے سوا تمام عدالتوں پر لازم ہو گی۔

صدر  مملکت کے خلاف کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوگی
 مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد پاکستان کے صدرِ مملکت تاحیات فوجداری مقدمہ سے مستثنیٰ تصور ہوں گے۔کوئی عدالت صدر مملکت  کی گرفتاری یا جیل بھیجنےکے لیےکارروائی نہیں کرسکےگی۔

اب تک قانون کے مطابق کسی صدرِ مملکت کے خلاف  ان کے عہدہ پر فائض رہنے کے دوران کوئی فوجداری مقدمہ نہیں بنتا تاہم عملاً کسی صدر مملکت کے عہدہ سے سبکدوش ہو جانے کے بعد بھی ان کا احترام برقرار رہتا ہے اور ان پر مقدمہ نہیں بنایا جاتا۔ (البتہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا معاملہ مختلف تھا، ان پر آئین شکنی کا مقدمہ بنا تھا اور عدالت نے سزا بھی سنائی تھی جس پر عملدرآمد نہین ہوا تھا۔ عمر بھر کے لیے کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوسکےگی۔)

گورنر کے لئے استثنیٰ

تمام صوبوں کے گورنر وں پر ان کےعہدہ پر کام کرنے کے عرصہ کے دوران کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوگی۔

مسلح افواج کےنظام کےمتعلق ترامیم؛

آئین میں مجوزہ ترامیم کے اس زیر غور مجموعہ میں پاکستان کی مسلح افواج میں کمانڈ کے تصور کو سموتھ کرنے اور  غیر معمولی فوجیوں کو قوم کی جانب سے خاص اعزاز سے نوازنے کی غرض سے کچھ ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

چیف آف آرمی سٹاف/ چیف آف ڈیفینس فورسز کا تقرر
آئین میں مجوزہ ترامیم کے اس مجموعہ میں جسے 27 ویں آئینی ترمیم کا معروف نام دیا گیا ہے یہ وضاحت بھی شامل ہے کہ آرمی چیف کاتقرر وزیراعظم کی ایدوائس سے صدر مملکت کریں گے اور  پاکستان نیوی اور پاکستان ائیرفورس کے چیف کاتقرر صدرِ مملکت چیف آف آرمی سٹاف کی ایڈوائس سے کریں گے۔

جوائنت چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چئیرمین کے سیریمونئیل عہدہ کا خاتمہ

 جوائنت چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چئیرمین کے سیریمونئیل عہدہ کا خاتمہ کر کے 27 ویں آئینی ترمیم میں چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ متعارف کرادیا گیا ہے اور آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔

کمانڈر نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ کا تقرر  

نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ  کے کمانڈر کا تقرر  وزیراعظم  کریں گے اور یہ تقرر کرنے کے لئے ٹیکنیکل مشورہ چیف آف آرمی سٹاف دیں گے۔

اعلیٰ ترین رینک ملنے پر غیرمعمولی فوجی تاحیات یونیفارم میں رہیں گے
  تین مسلح افواج کے اعلی ترین رینک حاصل کرنے والے غیر معمولی فوجی مرتے دم تک یونیفارم میں رہیں گے اور انہیں اعلیٰ ترین رینک کے ساتھ جڑی عزت اور مراعات مرتے دم تک حاصل رہیں گی۔

فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیرفورس اور ایڈمرل آف فلیٹ  تین مسلح افواج کے تین اعلیٰ ترین رینک ہیں۔

ان کی ملازمت کی مدت پوری ہونے  پر  وفاقی حکومت  انہیں  ریاست کے مفاد  میں کوئی ذمہ داری  سونپ سکتی ہے۔

   صدرِ مملکت کی طرح تین مسلح افواج کے اعلیٰ ترین رینک حاصل کرنے والے غیر معمولی فوجیوں کو بھی فوجداری مقدمہ سے استثنا حاصل رہے گا۔

فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیرفورس اور ایڈمرل آف فلیٹ  کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے کوئی سنگین غلطیاں ہو جائیں جن کے سبب ان سے رینک واپس لینا  ہمارےقومی وقار کے تحفظ کے لئے لازم ہو جائے تو ایسا پارلیمنٹ میں مواخذہ کے ذریعہ کیا جا سکے گا۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • سندھ بلڈنگ، محمود آباد کی تنگ گلیوں میں بھی تعمیراتی لاقانونیت عروج پر
  • صدر مملکت کا علامہ محمد اقبالؒ کے یومِ پیدائشِ پر پیغام
  • علامہ اقبالؒ کا فکری ورثہ آنے والی نسلوں کیلئے مشعلِ راہ رہے گا، صدرِ مملکت
  • صدرو وزیر اعظم کو فوجداری مقدمات سے استثنیٰ کی ترمیم پیش
  • صدر مملکت آصف علی زرداری سےمولانا فضل الرحمان کی ملاقات
  • آئینی ترمیم، مولانا فضل الرحمان کی صدر مملکت اور بلاول بھٹو سے اہم ملاقات
  • آئین میں27ویں ترمیم کیا ہے؛مکمل تفصیل سامنےآگئی
  • صدر مملکت کے خلاف تاحیات نہ کوئی کیس بن سکے گا نہ گرفتار کیا جا سکے گا، نئی ترمیم شامل
  • یورپ کے ایک دورافتادہ غار سے عالمی سطح پر سب سے بڑا مکڑی کا جال برآمد
  • کراچی:صوبائی دفتر میں منعقدہ تعزیتی اجتماع میں سینئر رہنما جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو کی بھابھی کی وفات پر دعائے مغفرت کی جارہی ہے۔ چھوٹی تصویر میں امیر صوبہ کاشف سعید شیخ ان سے تعزیت کر رہے ہیں