اسرائیلی فوج کے غرور کو خاک میں ملا کر غزہ دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ یہاں نہ طاقت کام آئی، نہ ٹیکنالوجی، نہ پروپیگنڈا، صرف عزم، صبر اور ایمان نے دشمن کی طاقت کو بے نقاب کردیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی اخبار "معاریف" کے عسکری نامہ نگار آوی اشکنزی نے موجودہ صورتحال کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگرچہ ہم ایران کے خلاف کامیابی کے نشے میں ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں ہم ایک سنگین مصیبت میں پھنس چکے ہیں۔ نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ سیاسی سطح پر بھی مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔ اشکنزی کا کہنا ہے کہ 629 دنوں کی طویل جنگ کے بعد اب وقت آ چکا ہے کہ ہم سچ کا سامنا کریں اور تسلیم کریں کہ اس جنگ میں ہماری فوج کی حالت نہایت مشکل بلکہ نہایت ہی سنگین ہے۔ غزہ آج بھی اسرائیلی فوج کے غرور کو خاک میں ملا رہی ہے، اور دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ یہاں نہ طاقت کام آئی، نہ ٹیکنالوجی، نہ پروپیگنڈا، صرف عزم، صبر اور ایمان نے دشمن کی طاقت کو بے نقاب کردیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ

اسلام ٹائمز: درحقیقت یہ اقبالؒ کی معنوی عظمت اور روحانی تاثیر ہی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود انکی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ہر گزرتے دن کیساتھ ان پر تحقیق و تحریر کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے اور نت نئے پہلو اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اقبالؒ کا فیضان ایک ہدیۂ الہیٰ ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو انکے آفاقی، الہیٰ اور معنوی پہلوؤں سے سمجھیں اور انکے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود کو جلا بخشیں۔ انکی شاعری کا ہر شعر ہمیں بیداری، عزتِ نفس، خود اعتمادی اور خدا سے تعلق کا سبق دیتا ہے۔ یقیناً یہ عشق و مستی کا سلسلہ رکنے والا نہیں، بلکہ یہ فیضانِ اقبال، دراصل فیضانِ الہیٰ ہے، جو تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ تحریر: محمد حسین بھشتی

علامہ محمد اقبالؒ برصغیر کی تاریخ، فکر اور ادب کا وہ تابناک ستارہ ہیں، جس کی روشنی صدیوں تک نسلِ انسانی کو رہنمائی فراہم کرتی رہے گی۔ اقبالؒ صرف ایک شاعر یا مفکر نہیں بلکہ ایک مصلح، ایک مجاہدِ فکر، ایک روحانی رہنماء اور ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت ہیں، جنہوں نے امتِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ علامہ اقبال کی شخصیت پر مختلف زاویوں سے ہزاروں اہلِ علم و فکر نے تجزیات و تحلیلات پیش کی ہیں۔ ان کے افکار و نظریات سے مزین مضامین اور مقالات نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی تحریر کیے گئے ہیں، جو بلاشبہ ہمارے فکری ورثے کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ میری رائے میں حضرت علامہ اقبال سے متعلق جو علمی و فکری کام انجام پا رہے ہیں، وہ اکثر و بیشتر سرکاری سرپرستی سے ہٹ کر خالص محبت، عقیدت اور اقبال سے روحانی وابستگی کے جذبے کے تحت ہو رہے ہیں۔

یہ عشق و تعلق کا وہ سلسلہ ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید پھیلتا اور گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اگر اقبال سے وابستہ اداروں پر ایک جامع آمار (سروے) کیا جائے تو یقیناً یہ نہ صرف ایک تحقیقی ضرورت ہوگی بلکہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔ تاہم ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض افراد، جو اقبال کی فکری و روحانی گہرائی سے ناواقف ہیں، ان کی شخصیت کو محدود یا مشکوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ اگر وہ اقبال کو ظاہری شہرت سے ہٹ کر روحانی و معنوی زاویے سے دیکھیں تو ان کی سوچ بدل سکتی ہے۔ اقبال کی ذات محض ایک شاعر کی نہیں بلکہ ایک فکرِ قرآنی کے ترجمان، ایک مردِ مومن کے مظہر، اور ایک ملتِ اسلامیہ کے ترجیحی فکری رہنماء کی حیثیت رکھتی ہے۔

اقبالؒ کی زندگی خلوص، عرفانِ ذات اور عشقِ رسولﷺ سے معمور تھی۔ یہی خلوص اور سوز و گداز ان کی شاعری میں جھلکتا ہے اور اسی کے باعث ان کا پیغام دلوں میں اتر جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک طرف عشق و مستی کی سرمستی ہے تو دوسری طرف عمل، حوصلے اور خودی کا پیغام۔ اقبالؒ کے نزدیک مسلمان کا اصل سرمایہ ایمان، خودی، اور عشقِ الہیٰ ہے۔ آج جب ہم اقبالؒ کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں ان کی تعلیمات کو صرف ادبی یا فکری سطح پر نہیں بلکہ عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پیغام صرف ماضی کا حصہ نہیں بلکہ مستقبل کا منشور ہے۔ اگر ہم ان کے افکار کو اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ بنائیں تو امتِ مسلمہ دوبارہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکتی ہے۔

درحقیقت یہ اقبالؒ کی معنوی عظمت اور روحانی تاثیر ہی ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پر تحقیق و تحریر کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے اور نت نئے پہلو اجاگر کیے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ اقبالؒ کا فیضان ایک ہدیۂ الہیٰ ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم علامہ اقبالؒ کے افکار کو ان کے آفاقی، الہیٰ اور معنوی پہلوؤں سے سمجھیں اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود کو جلا بخشیں۔ ان کی شاعری کا ہر شعر ہمیں بیداری، عزتِ نفس، خود اعتمادی اور خدا سے تعلق کا سبق دیتا ہے۔ یقیناً یہ عشق و مستی کا سلسلہ رکنے والا نہیں، بلکہ یہ فیضانِ اقبال، دراصل فیضانِ الہیٰ ہے، جو تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ بقولِ خود علامہ اقبالؒ: یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رفح کی سرنگوں میں حماس فورسز کی موجودگی سے اسرائیل کو لاحق خوف
  • افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی کے ناقابلِ تردید شواہد ایک بار پھر سامنے آگئے
  • پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور
  • پاکستان سب کا ، قومی یکجہتی ہماری اصل طاقت: خواجہ آصف  
  • علامہ اقبال۔۔۔۔۔۔ ایک روشن ستارہ
  • EU کیجانب سے لبنان پر صیہونی حملوں کی مذمت
  • افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، ذبیح اللہ مجاہد
  • حزب اللہ لبنان کسی نئی جنگ کے لیے پوری طرح تیار
  • کتنے شیریں ہیں ترے لب
  • حزب‌ الله کو غیر مسلح کرنا دشوار ہے، فرانس