اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 جون2025ء) مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر ن لیگ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ " الحمدللّٰہ دو تہائی!"۔ جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے مخصوص نشستوں بارے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ جاری بیان میں وزیراعظم نے قانونی ٹیم کو مبارکباد دیتے ہوئے ان کی انتھک محنت پر پذیرائی کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ فیصلے سے آئین و قانون کی بالادستی قائم ہوئی اور قانون کی درست تشریح ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ آئے اور حکومت کے ساتھ مل کر ملکی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے نظرثانی کیس کے فیصلے پر شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہمارا وطن، جسے کبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا تھا، آج مکمل طور پر بے آئین، بے انصاف اور ریاستی استبداد کا نمونہ بن چکا ہے،آج ایک بار پھر عدالتی بینچ کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف کے آئینی حق پر ڈاکہ ڈال دیا گیا ہے۔(جاری ہے)
ترجمان تحریک انصاف کا ردعمل میں کہنا تھا کہ ہم وہی پاکستان تحریک انصاف ہیں جس کا ماضی میں اسی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت مخصوص نشستوں کا آئینی استحقاق تسلیم کیا گیا تھا۔یہ وہ وقت تھا جب عدالت نے آئین کی روشنی میں فیصلہ دیا، اور سچائی و انصاف عدالت کے کمرے سے جھلکی۔مگر آج، اسی عدالت سے اس فیصلے کا انہدام کر دیا گیا۔آج ایک ایسا فیصلہ آیا ہے جس نے نہ صرف انصاف کی روح کو کچلا ہے، بلکہ عوام کے ووٹ، نمائندگی اور اعتماد کو بھی روند ڈالا ہے۔یہ نظرثانی کیس مہینوں عدالتوں میں چلتا رہا، اور تحریک انصاف نے ہر قانونی دروازہ کھٹکھٹایا، ہر دلیل پیش کی، ہر آئینی نکتہ اٹھایا۔لیکن ثابت ہوا کہ یہ عدالتیں تحریک انصاف کے لیے نہیں، صرف اشرافیہ کی سہولت کے لیے بنی ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ آج جس دیدہ دلیری سے تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کو چھینا گیا اور "مالِ غنیمت" کی طرح ان جماعتوں میں بانٹا گیا جنہیں عوام نے مسترد کیا وہ جمہوریت اور ووٹ کے حق کا قتل ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کی آئینی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن ہے۔تحریک انصاف کو کچلنے کی ریاستی پالیسی کا یہ ایک اور سنگین باب ہے۔پہلے الیکشن چوری کیے گئے، بلے کا نشان چھینا گیا، کارکنوں کو اغوا کیا گیا، کاغذات داخل کرانے سے پہلے تائید و تجویز کنندگان کو لاپتہ کیا گیا، میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا، اور عمران خان کو دو سال سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ اب عوامی مینڈیٹ کو صرف اس لیے رد کیا گیا کہ یہ مینڈیٹ عمران خان کے نام پر تھا۔ آج ہم کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ ریاست اب عوامی، آئینی یا جمہوری نہیں رہی۔ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جہاں سچ بولنا جرم ہے، حق مانگنا بغاوت ہے اور ووٹ دینا ناقابلِ معافی گناہ بن چکا ہے، اگر وہ ووٹ عمران خان کو دیا جائے۔تحریک انصاف کے ووٹرز، کارکنان اور حامیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔انہیں بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ہر دروازہ بند کر دیا گیا ہے سوائے جیل اور قبرستان کے۔لیکن ہماری ایک امید باقی ہے، اور وہ ہے عمران احمد خان نیازی! یہ ملک اگر کسی ایک شخص کے کردار، قربانی، سچائی اور عوامی طاقت سے دوبارہ آئین، انصاف اور جمہوریت کی طرف پلٹ سکتا ہے، تو وہ صرف اور صرف عمران خان ہیں۔ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پر جبر کی انتہا کی گئی ہے، مگر سچ بولنے کا حوصلہ چھینا نہیں جا سکا۔ہم پر ہر دروازہ بند کیا گیا، مگر ہمارے دل اور زبان پر تالے نہیں لگائے جا سکتے۔ ہمیں زنجیروں میں ضرور جکڑا گیا ہے لیکن ہم اس فسطائیت والی زنجیر کی چابی بنا کر رہیں گے۔ ہم زخمی ضرور ہیں، لیکن عمران خان کے نظریئے کی مرہم ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم عدالتوں سے ناامید ہو چکے ہیں، لیکن عوام سے نہیں۔اور ہم جانتے ہیں کہ آخری فتح انشائ اللہ حق، آئین، اور عمران خان کی ہو گی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مخصوص نشستوں تحریک انصاف کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کیا گیا گیا ہے
پڑھیں:
غیرت کے نام پر قتل: انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں ہوتے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوششوں اور حکومتی اقدامات کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اگرچہ کچھ کیسز میں گرفتاریاں ہوئیں لیکن ملزمان کی رہائی کے واقعات انصاف کے نظام پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
حالیہ کیس: بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہحال ہی میں بلوچستان ہائی کورٹ نے سردار شیر باز خان ستکزئی کو ضمانت دی، جو کوئٹہ کے علاقے دگاری میں ایک خاتون اور مرد کے قتل کے الزام میں گرفتار تھے۔
یہ قتل مقامی جرگے کے فیصلے پر کیا گیا تھا اور اس کی ویڈیو وائرل ہونے سے قانون کی حکمرانی پر بحث چھڑ گئی تھی۔قبل ازیں ایک ماتحت عدالت نے ضمانت مسترد کی تھی لیکن ہائی کورٹ نے پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض شیر باز خان کو رہائی دی۔
(جاری ہے)
اس کیس میں پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کیا تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں ضمانت کو ملزموں کے حق میں سمجھتی ہیں۔
نمایاں کیسز اور عدالتی فیصلےقندیل بلوچ کیس: 2016 میں سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے بھائی محمد وسیم نے ان کا قتل کیا۔ سن 2019 میں انہیں عمر قید کی سزا ہوئی لیکن 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے والدین کی معافی اور اعتراف جرم پر قانونی سقم کی بنیاد پر محمد وسیم کو بری کر دیا۔ اس فیصلے کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل،' خواتین کو انصاف کب ملے گا؟
کوہاٹ کیس: سن 2022 میں شریف اللہ کو بیٹی کے قتل کے الزام میں سزا ہوئی لیکن 2023 میں کمزور شواہد کی بنا پر انہیں بری کر دیا گیا۔ اسی طرح 2017 میں سپریم کورٹ نے حافظ آباد کے 2005 کے ایک کیس میں تین افراد کو رہا کیا اور 2021 میں پشاور ہائی کورٹ نے دوہرے قتل کے کیس میں ملزم کو بری کر دیا۔
عدالتی فیصلوں کے حامی کہتے ہیں کہ یہ فیصلے شواہد پر مبنی ہوتے ہیں اور ملزمان کا منصفانہ ٹرائل ان کا حق ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کمزور تفتیش اور خاندانی دباؤ انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
قانونی فریم ورک اور اس کی حدودسن 2016 میں پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل معافی جرم قرار دیا، جس کے تحت قاتل کو لازمی عمر قید کی سزا ہوتی ہے۔
سن 2005 میں وہ شق ختم کی گئی، جس کے تحت قاتل خود کو وارث قرار دے کر معافی مانگ سکتا تھا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین موثر ہیں لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ خاندان کیس کی نوعیت بدل کر 'غیرت کے نام پر قتل‘ کو عام قتل کا رنگ دے دیتے ہیں، جس سے معافی ممکن ہو جاتی ہے۔ کمزور استغاثہ اور تفتیشی خامیاں بھی ملزمان کی رہائی کا باعث بنتی ہیں۔ 'خاندان شواہد چھپاتے ہیں‘انسانی حقوق کی کارکن منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ خاندان شواہد چھپاتے ہیں یا کیس کی نوعیت ہی بدل دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''خاندان غیرت کے قتل کو عام قتل بنا دیتے ہیں، جس سے معافی کا راستہ کھل جاتا ہے۔‘‘ ان کی والدہ عاصمہ جہانگیر کا موقف تھا کہ ''ہر خاتون کے قتل کو غیرت کا قتل‘‘ سمجھا جائے تاکہ ریاست ذمہ داری لے۔
پاکستان، غیرت کے نام پر باپ کے ہاتھوں پندرہ سالہ لڑکی کا قتل
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے سکریٹری جنرل حارث خلیق کہتے ہیں کہ معاشرے کے کچھ حصے پرانی روایات میں جکڑے ہوئے ہیں جبکہ ریاست کو اس جرم کو بغاوت سمجھ کر نمٹنا چاہیے۔ دوسری طرف قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شواہد کی بنیاد پر فیصلے ضروری ہیں تاکہ غلط سزائیں نہ ہوں۔
غیرت کے نام پر قتل، اصل تعداد کہیں زیادہایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سن 2024 کے دوران پاکستان میں تقریباً 500 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ سب سے زیادہ واقعات پنجاب (178)، سندھ (134)، خیبر پختونخوا (124)، بلوچستان (33) اور گلگت بلتستان (18) میں رپورٹ ہوئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
سماجی ماہرین کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ پاکستان کے قانونی اور معاشرتی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ تفتیش مضبوط کی جائے، جرگوں پر پابندی لگے اور عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ یہ ظلم ختم ہو۔