معاشرے کی بنیاد صرف مادی ترقی یا تکنیکی اختراعات پر نہیں رکھی جا سکتی۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، سائنس دان، بینکرز عسکری ادارے اور سیاست دان معاشرے کو چلانے کا ذریعہ ہیں۔ لیکن شاعر، ادیب، فن کار، اساتذہ اور جدید دور میں سوشل میڈیا کے تخلیق کار اس کی روح کو تشکیل دیتے ہیں۔
یہ تخلیقی قوتیں الفاظ، خیالات، تصاویر اور موسیقی کے ذریعے انسانی شعور، جذبات اور اخلاقیات کو جلا بخشتی ہیں۔ تاہم، جب یہی قوتیں نفرت، خوف، یا تعصب کو فروغ دیتی ہیں، تو معاشرہ اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔
آج کے دور میں جب شدت پسندی اور عدم برداشت ہمارے اجتماعی شعور کو کمزور کر رہی ہے۔ ادب، فنون لطیفہ، تعلیم، اور سوشل میڈیا کو امن، برداشت اور انسانی اقدار کے فروغ کے لیے استعمال کرنا ناگزیر ہے۔
شاعر اپنے کلام سے، ادیب اپنی تحریروں سے، موسیقار اپنی دھنوں سے، مصور اپنی تصاویر سے اور اساتذہ تعلیم سے معاشرے کی سوچ کو بدل سکتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنگوں اور تنازعات کے ادوار میں تخلیقی ذہنوں نے امن کی آواز بلند کی۔ مثال کے طور پر، جنگ عظیم اول کے دوران آئرش شاعر ولیم بٹلر ییٹس نے اپنی نظم “An Irish Airman Foresees His Death” میں جنگ کے بے معنی پن کو اجاگر کیا۔
ہسپانوی خانہ جنگی میں پابلو پکاسو کی پینٹنگ “Guernica” نے جنگ کی تباہ کاریوں کو دکھا کر امن کی تحریکوں کو تقویت دی۔
پاکستانی شاعر فیض احمد فیض نے ’ہم دیکھیں گے‘ جیسے کلام سے ظلم کے خلاف مزاحمت اور پرامن معاشرے کا پیغام دیا۔ اسی طرح، ساحر لدھیانوی کی نظم ’اے شریف انسانو‘ تقسیم ہند کے بعد کے سماجی زخموں کو بیان کرتی ہے اور انسانیت سے خطاب کرتے ہوئے نفرت کے بجائے محبت اور امن کی اپیل کرتی ہے، جو آج بھی ہم آہنگی کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
لوک ادب، صوفی شاعری اور موسیقی ایسی تخلیقی قوتیں ہیں جو زبان، مذہب، اور طبقاتی تقسیم سے ماورا ہو کر لوگوں کے دلوں کو جوڑتی ہیں۔
جنوبی ایشیا، بالخصوص پاکستان، کی ثقافتی وراثت میں یہ عناصر صدیوں سے معاشرتی ہم آہنگی اور امن کے فروغ کا ذریعہ رہے ہیں۔
لوک ادب کی سادہ کہانیاں اور صوفی شاعری کے عمیق پیغامات عام لوگوں کے جذبات کو چھوتے ہیں، جبکہ موسیقی ان پیغامات کو ایک عالمگیر زبان میں ڈھالتی ہے۔
لوک رومانی داستانیں، جیسے کہ پنجابی، سندھی، پختون یا بلوچی ثقافتوں میں سنائی جانے والی محبت اور قربانی کی کہانیاں، انسانی رشتوں کی اہمیت اور سماجی بندھنوں کی عکاسی کرتی ہیں۔
یہ داستانیں محبت، رواداری اور قربانی کے پیغامات کے ذریعے مختلف مذاہب اور طبقات کے لوگوں کو ایک مشترکہ ثقافتی وراثت کے تحت جوڑتی ہیں۔
مثال کے طور پر امریتا پریتم کا ناول ’پنجر‘ جو لوک رومانی داستانوں سے متاثر ہے، تقسیم ہند کے زخموں کو بیان کرتا ہے اور انسانی تکلیف، محبت، اور مفاہمت کے ذریعے امن کا پیغام دیتا ہے۔
اس ناول کی مرکزی کردار پُورو کی کہانی لوک داستانوں کی طرح سماجی ہم آہنگی اور انسانی اقدار کو اجاگر کرتی ہے، جو نفرت اور تقسیمِ ہند کے مقابلے میں محبت اور اتحاد کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔
اسی طرح، پاکستان اور بھارت کے دیہاتوں میں زبانی روایات کے ذریعے سنائی جانے والی لوک داستانیں لوگوں کو فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں۔ یہ داستانیں نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور باہمی احترام کا سبق بھی سکھاتی ہیں۔
صوفی شاعر جیسے بلھے شاہ، شاہ حسین، بابا فرید، رحمان بابا اور شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں محبت، انسانیت، اور روحانی ہم آہنگی کا پیغام دیا۔
بلھے شاہ کا کلام، جیسے ’بلھا کی جاناں میں کون‘، ذات پات اور مذہبی تعصبات سے آزاد ایک ایسی دنیا کی ترغیب دیتا ہے جہاں سب انسان برابر ہیں۔
ان کا پیغام آج بھی پنجاب کے صوفی میلوں اور درباروں میں گونجتا ہے، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت و احترام کا رشتہ استوار کرتے ہیں۔ صوفی شاعری نے ہمیشہ سے نفرت اور تقسیم کے مقابلے میں اتحاد اور امن کو فروغ دیا ہے۔
صوفی موسیقی، جیسے کہ قوالی، مختلف طبقات کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ نصرت فتح علی خان کی قوالیوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں لوگوں کو ایک روحانی اور جذباتی سطح پر جوڑا۔
ان کی قوالی ’دم مست قلندر‘ مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے لوگوں کو ایک ہی دھن پر جھومنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اسی طرح مقامی لوک موسیقی اور شاعری جیسے پنجاب میں ٹپے اور ماہیے، سندھ میں سُر اور وائی، پختون ثقافت میں ٹپہ اور بلوچی میں لیوا، ثقافتی تقریبات میں مختلف گروہوں کوایک دوسرے کےقریب لاتے ہوئے سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔
لوک ادب، صوفی شاعری، اور موسیقی کی یہ طاقت معاشرے میں امن کو فروغ دینے کا ایک منفرد ذریعہ ہے، کیونکہ یہ عام لوگوں کی زبان ہے جو دلوں کو چھو جاتی ہے۔
اسی طرح اساتذہ بھی معاشرے کے معمار ہیں جو نئی نسل کی ذہنی، اخلاقی، اور سماجی تربیت کرتے ہیں۔ ایک ایسا نصاب جو معاشرتی اقدار جیسے رواداری، انصاف، اور انسانیت سے ہم آہنگ ہو، امن کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
بدقسمتی سے، ہمارے خطے میں تعلیم کو اکثر مخصوص نظریاتی بیانیوں کے لیے استعمال کیا گیا، جس نے تنقیدی سوچ کو محدود کیا۔ اس کے برعکس، اگر نصاب میں لوک رومانی داستانیں، صوفی شاعری، اور متنوع مذہبی و ثقافتی روایات شامل کی جائیں، تو طلبہ میں مختلف طبقات کے لیے احترام اور مشترکہ انسانی اقدار کا شعور پیدا ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر نصاب میں صوفی شاعری یا لوک داستانوں کے پیغامات شامل کیے جائیں، تو طلبہ محبت، رواداری، اور ہم آہنگی کاسبق سیکھ سکتے ہیں۔
اساتذہ کا کردار یہ ہے کہ وہ ایسی تعلیم دیں جو طلبہ کو تنقیدی سوچ، ہمدردی، اور سماجی ہم آہنگی کی طرف راغب کرے، نہ کہ تعصب یا تقسیم کو فروغ دے۔
آج کے ڈیجیٹل دور میں، سوشل میڈیا ایک ایسی تخلیقی قوت بن چکا ہے جو لمحوں میں لاکھوں دلوں تک پہنچ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، یہ پلیٹ فارم اکثر نفرت، تعصب، اور غلط معلومات پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2020 میں بھارت میں دہلی فسادات کے دوران سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد نے کشیدگی کو ہوا دی۔
اسی طرح، ہمارے خطے میں سیاسی یا مذہبی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا غلط استعمال عام ہے۔
تاہم، سوشل میڈیا کو امن کے فروغ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، خاص طور پرامن پسند اور لوک ادب اور صوفی شاعری اور موسیقی کو عام کرنے کے لیے۔
مثال کے طور پر، نصرت فتح علی خان کی قوالیوں، سائیں ظہور اور عابدہ پروین کے کلام کو یوٹیوب اور فیس بُک پر لاکھوں لوگوں نے سنا اور شیئر کیا، جس سے پاکستان کی ثقافتی تنوع اور ہم آہنگی کا پیغام پھیلا۔
ملالہ یوسفزئی نے سوشل میڈیا کا استعمال کر کے تعلیم اور امن کا پیغام دنیا بھر میں پہنچایا اور نوبل انعام کی حقدار ٹھہری۔
امن اور محبت کے فروغ کے لیے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیسے کیا جائے: لوک اور صوفی مواد کا فروغ:شاعر اور فنکار لوک داستانیں، صوفی شاعری، اور موسیقی کو سوشل میڈیا پر شیئر کریں تاکہ نئی نسل اپنی ثقافتی جڑوں سے جڑے اور رواداری سیکھے۔
تنقیدی سوچ کی ترغیب:اساتذہ اور تخلیق کار ایسی پوسٹس شیئر کریں جو لوگوں کو حقائق کی جانچ پڑتال اور تنقیدی سوچ کی طرف راغب کریں۔
تعمیری مکالمہ:نفرت انگیز تبصروں کے جواب میں، تخلیق کار تعمیری مکالمے کو فروغ دیں جو اختلاف رائے کو احترام سے حل کرے۔
مقامی مسائل پر توجہ:مقامی فنکار اپنے خطے کے مسائل، جیسے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، کو ادب اور موسیقی کے ذریعے اجاگر کریں۔
جب تخلیقی قوتیں، چاہے وہ روایتی ادب ہو، لوک فنون ہوں، تعلیم ہو، یا سوشل میڈیا، نفرت اور تعصب کو فروغ دیتی ہیں، تو معاشرے کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں۔ پروپیگنڈے کے لیے فنون لطیفہ کا استعمال ہو یا آج کے سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا پھیلاؤ، دونوں صورتوں میں تخلیقی قوتوں کا غلط استعمال معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
شدت پسندی کے اس دور میں، شاعروں، ادیبوں، فنکاروں، اساتذہ، اور سوشل میڈیا تخلیق کاروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو انسانیت، برداشت، اور امن کے فروغ کے لیے استعمال کریں۔
لوک داستانیں، امن پسند شاعری، اور موسیقی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اجاگر کر کے مختلف طبقات کو جوڑا جا سکتا ہے۔ اساتذہ ایک ایسا نصاب اور رویہ اپنائیں جو معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ ہو اور طلبہ میں تنقیدی سوچ اور ہمدردی پیدا کرے۔
اگر شاعر اپنے کلام میں محبت، ادیب اپنی تحریروں میں انصاف، مصور اپنی تصاویر میں خوبصورتی، اساتذہ اپنی تعلیم میں رواداری اور سوشل میڈیا تخلیق کار اپنی پوسٹوں میں ہم آہنگی کو فروغ دیں، تو معاشرہ نہ صرف مادی ترقی کرے گا بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط ہوگا۔
آج کے دور میں، جب نفرت اور شدت پسندی ہمارے اجتماعی شعور کو کمزور کر رہی ہے۔ امن پسند ادب، لوک رومانی داستانیں اور صوفی موسیقی کی عالمگیر زبان، معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ تعلیم، اور سوشل میڈیا کی طاقت کے ذریعے مختلف طبقات کو جوڑ کر ایک پرامن معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
آئیے، ہم سب مل کر ایسی تخلیقات کی آبیاری کریں جو معاشرے کو امن کی راہ پر گامزن کریں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اور سوشل میڈیا کے فروغ کے لیے مثال کے طور پر مختلف طبقات امن کے فروغ تنقیدی سوچ لوک رومانی اور انسانی صوفی شاعری اور موسیقی صوفی شاعر معاشرے کی تخلیق کار کا ذریعہ کے ذریعے اور صوفی ہم آہنگی لوگوں کو نفرت اور کا پیغام اجاگر کر سکتا ہے لوک ادب اور امن کو فروغ کرتی ہے امن کی کے دور کو ایک
پڑھیں:
سردار جی 3 کی اداکارہ نیرو باجوہ نے ہانیہ عامر کو اَن فالو کردیا
بھارتی پنجابی اداکارہ نیرو باجوہ نے اپنی نئی فلم ’سردار جی 3‘ میں ساتھ کام کرنے والی اداکارہ ہانیہ عامر کو سوشل میڈیا پر اَن فالو کردیا ہے۔
یہی نہیں بلکہ نیرو باجوہ نے اپنے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل سے سردار جی 3 کی تمام پروموشنل پوسٹ بھی حذف کردی ہیں جس سے صارفین میں تشویش کی ایک لہر دوڑ اُٹھی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ نیرو باجوہ کو انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے پاکستانی اداکارہ ہانیہ عامر کو سوشل میڈیا سے بھی ان فالو کر دیا اور فلم سے متعلق تمام پوسٹ بھی ڈیلیٹ کردیں۔
https://www.instagram.com/p/DLXvwdPtY8X/یاد رہے کہ سردار جی 3 کی شوٹنگ پاک بھارت جنگ اور کشیدگی سے قبل ہوئی تھی جبکہ جنگ کے بعد بھارتی انتہا پسندوں نے فلم میکرز سے مطالبہ کیا کہ یا اس فلم سے ہانیہ عامر کو نکال دیں یا پھر یہ فلم کا بائیکاٹ برداشت کریں۔
تاہم میکرز نے فلم کو بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا جو آج 27 جون کو ریلیز ہورہی ہے۔ اس حوالے سے فلم کے مرکزی اداکار دلجیت دوسانجھ نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ اگر میکرز فلم کو بیرون ملک ریلیز کرنا چاہتے ہیں تو میں ان کیساتھ ہوں کیونکہ اس فلم میں انہوں نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔