ٹرمپ کا ویزہ وار۔۔ مودی کی سفارتی شکست
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
آپریشن سندور کی ناکامی نے بھارت کی سفارت کاری اور معیشت کو تباہ کر دیا ہے ۔دنیا کی طاقتور ترین معیشت جب اپنی امیگریشن یا ورک ویزا پالیسی میں کوئی تبدیلی کرتی ہے تو اس کے اثرات براہِ راست کئی ممالک پر پڑتے ہیں۔ خاص طور پر بھارت پر، جہاں لاکھوں نوجوان ہر سال امریکہ جانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایچ ون بی ورکر ویزے کے لیے سالانہ ایک لاکھ ڈالر فیس مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ فیصلہ بجلی بن کر بھارتی معاشرے ، آئی ٹی انڈسٹری اور حکومت پر گرا ہے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ اثر بھارتی پروفیشنل کلاس پر پڑے گا جو بڑی تعداد میں امریکہ میں ملازمت اختیار کرنے کے لیے اس ویزے پر انحصار کرتی ہے ۔ یہ محض ایک مالی رکاوٹ نہیں بلکہ ایک ایسا قدم ہے جس کے معاشی، سماجی اور سیاسی مضمرات بھارت کے مستقبل پر گہرے اثرات ڈالیں گے۔
ایچ ون بی ویزا امریکی معیشت کے لیے ایک اہم انجن سمجھا جاتا ہے جو ہنر مند ورکرز کو امریکہ لے کر آتا ہے ۔ بھارت اس پروگرام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہے کیونکہ امریکہ میں موجود تقریباً 70 فیصد ایچ ون بی ویزا ہولڈرز بھارتی شہری ہیں۔ حیدرآباد، بنگلور، پونے اور دہلی جیسے شہروں سے ہر سال ہزاروں نوجوان آئی ٹی اور انجینئرنگ کے شعبوں سے فارغ التحصیل ہو کر امریکہ جاتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کے اس نئے اقدام کے بعد یہ خواب عام بھارتی نوجوان کے لیے تقریباً ناممکن ہو جائے گا کیونکہ 100,000 ڈالر کی سالانہ فیس ایک ایسی رکاوٹ ہے جسے صرف بڑی کمپنیاں یا انتہائی امیر افراد ہی عبور کر سکیں گے ۔ اس فیصلے کے فوری اثرات بھارتی آئی ٹی سیکٹر پر نظر آئیں گے ۔
انفو سس، ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز اور وپرو جیسی بڑی کمپنیوں کا کاروباری ماڈل اس بنیاد پر قائم ہے کہ وہ ہنر مند افراد کو امریکی کمپنیوں میں بھیج سکیں۔ اب یہ فیس ان پر بھاری پڑے گی، جس کے باعث یا تو ان کی سرگرمیاں محدود ہوں گی یا امریکی طلب کو پورا کرنے میں مشکلات آئیں گی۔ اس کا براہِ راست نقصان بھارتی معیشت کو ہوگا جو پہلے ہی بے روزگاری اور مہنگائی کے دباؤ میں ہے ۔یہ صورتحال اپوزیشن کے لیے مودی حکومت پر تنقید کا موقع بھی بن گئی ہے ۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ بھارتی عوام کے لیے بڑا دھچکا ہے اور مودی حکومت اس پر موثر حکمتِ عملی بنانے میں ناکام رہی ہے ۔ ان کے مطابق بھارت بار بار امریکہ کی خوشنودی کے لیے اپنی پالیسیوں کو جھکاتا رہا ہے لیکن جب بھارتی شہریوں کے مستقبل کی بات آئی تو وزیراعظم بے بس دکھائی دیے ۔ یہ مودی کی عالمی سطح پر کمزوری کا ثبوت ہے ۔مودی نے اپنے دور میں امریکہ سے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کئی کوششیں کیں۔ "ہاؤڈی مودی” جیسے شوز اور امریکی قیادت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو بھارتی میڈیا نے کامیابی کے طور پر پیش کیا۔ لیکن ٹرمپ کا یہ فیصلہ ان تمام بیانیوں پر سوالیہ نشان ہے ۔ اگر واقعی تعلقات اتنے قریبی تھے تو پھر بھارت کو ایسے سخت فیصلے سے پہلے اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا؟ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کی عالمی حیثیت کے دعوے زیادہ تر دکھاوے تک محدود ہیں۔معاشی پہلو کے ساتھ یہ مسئلہ سماجی بھی ہے ۔ بھارت میں لاکھوں خاندان اپنے بچوں کو امریکہ بھیجنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے یہ محض ملازمت نہیں بلکہ بہتر مستقبل کی امید ہے ۔ لیکن اب جب یہ دروازہ بند ہوتا جا رہا ہے تو بھارتی متوسط طبقے میں مایوسی پھیل رہی ہے ۔ یہی مایوسی سیاسی دباؤ میں تبدیل ہو کر بی جے پی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے ۔اس فیصلے کے عالمی اثرات بھی نمایاں ہیں۔ اگر امریکہ نے سخت شرائط برقرار رکھیں تو یورپ، کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ممالک اس خلا کو پر کرنے کے لیے بھارتی پروفیشنلز کو اپنی طرف راغب کریں گے ۔ یہ بھارت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ اس سے "برین ڈرین” مزید تیز ہو جائے گی۔ بھارتی نوجوان جو امریکہ کو منزل سمجھتے تھے اب متبادل راستے تلاش کریں گے لیکن اس عمل میں بھارتی معیشت کو نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کی سب سے بڑی مارکیٹ سکڑ رہی ہے ۔
راہول گاندھی نے درست کہا کہ بھارت اگر خودمختار بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مودی حکومت اس قابل ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک ایسی حکمتِ عملی اپنائے جو عوام کے مفاد میں ہو؟ اب تک کے تجربات بتاتے ہیں کہ زیادہ تر اقدامات محض نمائشی ہیں جبکہ معیشت اور نوجوان طبقہ مغربی ممالک کی پالیسیوں پر انحصار کرتے ہیں۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ امریکہ کا یہ قدم صرف بھارت کے خلاف نہیں بلکہ امریکی داخلی سیاست کا حصہ ہے ۔ ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ امریکی ملازمتوں کو امریکی شہریوں کے لیے محفوظ بنائیں گے ۔ ان کے مطابق غیر ملکی ورکرز امریکی نوجوانوں کی نوکریاں چھین لیتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ فیصلہ مقامی ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے ہے ، لیکن سب سے زیادہ قیمت بھارتی نوجوان ادا کریں گے ۔آنے والے دنوں میں بھارت کے سامنے کئی بڑے سوال کھڑے ہوں گے ۔ کیا وہ اپنی آئی ٹی انڈسٹری کے لیے متبادل مارکیٹیں تلاش کر پائے گا؟ کیا وہ اپنے نوجوانوں کو اندرونِ ملک بہتر مواقع فراہم کر سکے گا؟ اور کیا وہ عالمی سطح پر اپنی سفارت کاری کو مضبوط بنا سکے گا تاکہ ایسے جھٹکوں کا مقابلہ کیا جا سکے ؟ یہ سوالات مودی حکومت کے لیے کڑی آزمائش ہیں۔آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے لیے یہ وقت امتحان کا ہے ۔ اگر واقعی مودی ایک طاقتور لیڈر ہیں تو انہیں اس چیلنج کو موقع میں بدلنا ہوگا۔ فی الحال صورت حال یہ ہے کہ ٹرمپ کے ایک فیصلے نے بھارتی معیشت اور سیاست دونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ بھارت کو خوابوں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ امریکہ پر انحصار کم کر کے اپنی اندرونی پالیسیوں کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے کے بجائے اپنے ملک میں ہی مواقع مل سکیں۔
اقدامات کے طور پر بھارت کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی تعلیمی اور صنعتی پالیسی کو عالمی معیار کے مطابق بنائے تاکہ نوجوانوں کو معیاری مواقع مل سکیں۔ دوسرا، حکومت کو سفارتی سطح پر امریکہ سے بات کرنی چاہیے تاکہ فیس میں کمی یا رعایت کے امکانات پیدا کیے جا سکیں۔ تیسرا، یورپ، کینیڈا اور مشرقِ وسطیٰ جیسے متبادل بازاروں کو بھارتی ورکرز کے لیے کھولنا ہوگا۔ چوتھا، اندرونِ ملک آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی کے لیے ٹیکس مراعات اور بہتر انفراسٹرکچر مہیا کرنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو بیرونِ ملک جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ پانچواں، عوام کو یہ
اعتماد دینا ضروری ہے کہ بھارت بیرونِ ملک ملازمتوں پر انحصار کرنے والا ملک نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی خود کفیل معیشت ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو بھارت کو حقیقی معنوں میں طاقتور اور خودمختار بنا سکتا ہے۔
٭٭٭
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: نوجوانوں کو مودی حکومت نہیں بلکہ بھارت کے یہ فیصلہ بھارت کو کہ بھارت آئی ٹی کے لیے
پڑھیں:
حالیہ دفاعی معاہدہ سفارتی تعلقات میں اہم سنگِ میل ثابت ہوگا، ڈاکٹرسمیرہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جدہ (سید مسرت خلیل) سعودی میڈیا و بزنس وومن ڈاکٹر سمیرہ عزیز نے کہا کہ یہ حالیہ دفاعی معاہدہ جو سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان طے پایا ہے، خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران سفارتی تعلقات میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوگا، وہ جدہ کی سماجی و صحافتی برادری کی جانب سے مقامی ہوٹل میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ کی خوشی میں منعقد ہوئی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب نے ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کو آگے بڑھانے میں قابلِ تعریف قیادت کا مظاہرہ کیا ہے۔ سعودی عرب کی متوازن اور حقیقت پسندانہ سفارتکاری اس کے تعمیری کردار کو اجاگر کرتی ہے جو خطے میں امن کے فروغ، تعاون کو مضبوط کرنے اور عالمی طاقت کے توازن کو مزید مستحکم بنانے میں معاون ہے۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی حاجی عثمان تھے جبکہ تقریب میں پاکستان اوورسیز میڈیا کے صدر شعیب الطاف، یونائیٹڈ جرنلسٹس فورم کے چیئرمین جہانگیر خان، سینئر صحافی فواد احمد سواتی اور بزنس فورم کے صدر عقیل آرائیں سمیت متعدد شخصیات نے شرکت کی۔ مقررین نے کہا کہ اس معاہدے نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ یونائیٹڈ جرنلسٹس فورم کے چیئرمین جہانگیر خان نے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں برادر ممالک کے درمیان پائیدار تعلقات کی بنیاد کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ پاکستان اوورسیز میڈیا کے صدر شعیب الطاف کا کہنا تھا کہ 78 سال کی دوستی میں یہ سنگ میل انتہائی خوشی کا لمحہ ہے جس سے باہمی اعتماد اور تعاون کو مزید تقویت ملی ہے۔ صحافی محمد عدیل نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف خطے کے امن و استحکام کے لیے اہم ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی روشن بنائے گا۔ بزنس فورم کے صدر عقیل آرائیں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور تجارتی تعاون ایک ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور یہ معاہدہ کاروباری و اقتصادی تعلقات کے لیے بھی خوش آئند ثابت ہوگا۔ تقریب کی ننظامت معروف صحافی محمد عدیل نے کی۔ تقریب میں کیک کاٹا گیا اور مقررین نے کہا کہ پاک سعودی دوستی تاریخ کی ایک مثالی رشتہ ہے، ہم ایک قلب اور دو جانیں ہیں۔ تقریب کے آخر میں کیک کاٹ کر پاک سعودی دوستی کا جشن منایا گیا اوررکاء نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کی برادرانہ محبت ہمیشہ قائم و دائم رہے۔