سال 2022 میں دنیا بھر میں تقریباً 6 کروڑ 20 لاکھ ٹن الیکٹرانک کچرا (ای ویسٹ) پیدا ہوا — جو کہ 15 لاکھ سے زائد کچرا ٹرکوں کو بھرنے کے لیے کافی ہے۔ 2010 کے مقابلے میں یہ شرح 82 فیصد زیادہ ہے، اور اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ مقدار 8 کروڑ 20 لاکھ ٹن تک پہنچ جائے گی۔

یہ ای ویسٹ پرانے لیپ ٹاپس، موبائل فونز اور دیگر برقی آلات پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں قیمتی دھاتیں جیسے سونا (Gold) بھی شامل ہوتی ہیں۔ تاہم اس کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہی مناسب طریقے سے اکٹھا اور ری سائیکل کیا جاتا ہے۔

اب ایک بین الاقوامی ٹیم نے ایسا نیا اور محفوظ طریقہ دریافت کیا ہے جس کی مدد سے ای ویسٹ سے ماحول دوست طریقے سے سونا نکالا جا سکتا ہے۔ یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے ”نیچر سسٹین ایبلیٹی“ میں شائع ہوئی ہے۔

سونے کی بڑھتی عالمی مانگ اور ماحولیاتی مسائل
صدیوں سے سونا کرنسی، زیورات اور صنعت کا اہم جزو رہا ہے۔ موجودہ دور میں یہ الیکٹرانکس، کیمیکل انڈسٹری اور ایرو اسپیس جیسے جدید شعبوں میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

لیکن سونے کی مانگ جتنی بڑھتی جا رہی ہے، اس کی روایتی کان کنی (Mining) اتنی ہی ماحولیاتی تباہی کا باعث بن رہی ہے۔

بڑی کان کنی میں سائینائیڈ جیسے زہریلے کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں، جبکہ چھوٹے اور غیر رسمی کان کن پارے (Mercury) کا استعمال کرتے ہیں، جو نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔

سائنسدانوں کی انقلابی دریافت: محفوظ متبادل
سائنسدانوں نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے جو سونا نکالنے کے لیے زہریلے کیمیکلز کا متبادل بن سکتا ہے۔

یہ طریقہ دو بنیادی مراحل پر مشتمل ہے:

1.

لیچنگ (Leaching)

اس عمل میں سونے کو ایک خاص کیمیکل کے ذریعے محلول میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل ٹریکلورواسوسیانورک ایسڈ ہے، جو عام طور پر پانی صاف کرنے یا سوئمنگ پولز میں استعمال ہوتا ہے۔ نمکین پانی کے ساتھ ردعمل کے بعد یہ سونے کو پانی میں گھلا دیتا ہے۔

2. ری کورنگ (Recovery)

محلول سے سونا نکالنے کے لیے ایک سلفر پر مبنی پولیمر تیار کیا گیا ہے، جو سونے کو باقی دھاتوں سے الگ کر کے جذب کر لیتا ہے۔ یہ پولیمر پیٹرولیم صنعت سے حاصل ہونے والے فاضل سلفر سے بنایا گیا ہے، جو کہ کم قیمت اور وافر مقدار میں دستیاب ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ طریقہ نہ صرف مؤثر ہے بلکہ ری سائیکل ایبل بھی ہے — یعنی استعمال شدہ کیمیکل اور پولیمر دوبارہ قابل استعمال بنائے جا سکتے ہیں، جو کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے بڑی کامیابی ہے۔

مستقبل کا روڈ میپ
تحقیقاتی ٹیم اب اس تکنیک کو عملی طور پر اپنانے کے لیے مختلف صنعتوں، حکومتوں اور فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی تیاری کر رہی ہے، تاکہ چھوٹے پیمانے پر سونے کی کان کنی میں استعمال ہونے والے زہریلے مرکبات کا خاتمہ کیا جا سکے۔

ٹیم کا مقصد نہ صرف ای ویسٹ سے سونا نکالنے کو محفوظ بنانا ہے بلکہ دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں چھوٹے کان کنوں کے روزگار کو بھی تحفظ دینا ہے، جو اس وقت پارے جیسے خطرناک مواد پر انحصار کرتے ہیں۔

اگر یہ نیا طریقہ عالمی سطح پر اپنایا گیا تو یہ سونے کی کان کنی سے جڑے ماحولیاتی اور انسانی صحت کے خطرات کو کم کر سکتا ہے، اور ساتھ ہی ای ویسٹ جیسے بڑھتے مسئلے کو بھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے — جو کہ ایک سرکلر اکانومی (Circular Economy) کی جانب ایک بڑا قدم ہوگا۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سکتا ہے سونے کی کان کنی کے لیے

پڑھیں:

سائنسدانوں کی مصنوعی انسانی ’ڈی این اے‘ بنانے کی کوشش، بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا

انسانی ڈی این اے کو مکمل طور پر مصنوعی طریقے سے بنانے کے سائنسدانوں کے منصوبے نے بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا۔

دنیا کے سب سے بڑے طبی خیراتی ادارے ویلکم ٹرسٹ (Wellcome Trust) نے انسانی ڈی این اے کو شروع سے بنانے کے متنازعہ منصوبے کے آغاز کے لیے 10 ملین پاؤنڈ (تقریباً 117 کروڑ روپے) کی مالی امداد فراہم کی ہے۔ اس منصوبے میں آکسفورڈ، کیمبرج اور امپیریل کالج سمیت برطانیہ کی ممتاز جامعات کے سائنسدان شامل ہیں۔

ڈی این اے کو انسانی زندگی کی بنیادی اکائی سمجھا جاتا ہے، جو نیوکلیوٹائیڈز (nucleotides) نامی اکائیوں سے بنتا ہے اور یہی وہ معلومات رکھتا ہے جو جسمانی طور پر ہمیں وہ بناتی ہے جو ہم ہیں۔

سنتھیٹک ہیومن جینوم پروجیکٹ (Synthetic Human Genome Project) کے سائنسدان اب ثبوت کے طور پر انسانی ڈی این اے کے تقریباً دو فیصد حصے پر مشتمل ایک مکمل مصنوعی کروموسوم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حتمی ہدف یہ ہے کہ ایک دن مکمل انسانی جینوم کو ابتدا سے تیار کیا جا سکے۔

کیمبرج کے ایم آر سی لیبارٹری آف مالیکیولر بایولوجی سے وابستہ سائنسدان ڈاکٹر جولیئن سیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم ایسی تھیراپیز پر کام کر رہے ہیں جو لوگوں کی زندگیوں کو عمر رسیدگی کے ساتھ بہتر بنائیں، تاکہ بڑھتی عمر میں بیماریاں کم ہوں اور صحت مند زندگی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے بیماریوں سے محفوظ خلیے تیار کرنا چاہتے ہیں، جنہیں جگر، دل یا حتیٰ کہ مدافعتی نظام جیسے متاثرہ اعضا میں دوبارہ آبادکاری کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

ویلکم سانگر انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر میتھیو ہرلز کے مطابق یہ سمجھنا کہ جینز اور ڈی این اے ہمارے جسم کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں، ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتا ہے کہ یہ کب اور کیسے بگڑتے ہیں، جس سے ہم بہتر علاج دریافت کر سکتے ہیں۔

پروفیسر ہرلز نے مزید کہا کہ ڈی این اے کو شروع سے تیار کرنا ہمیں یہ جانچنے کی اجازت دیتا ہے کہ ڈی این اے دراصل کیسے کام کرتا ہے اور ہم نئی نظریات کو آزما سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت ہم صرف موجودہ حیاتیاتی نظاموں میں موجود ڈی این اے میں تبدیلی کر کے ہی ایسا کر سکتے ہیں۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • تہران :اسرائیلی حملوں میں شہید سائنسدانوں، فوجی کمانڈرز کی نماز جنازہ ادا کردی گئی
  • سائنسدانوں کی مصنوعی انسانی ’ڈی این اے‘ بنانے کی کوشش، بڑا تنازعہ کھڑا ہوگیا
  • پاکستانی طلبا نے ’اے آئی ٹیکنالوجی کے موثر استعمال‘ پر عالمی اعزاز اپنے نام کرلیا
  • برطانوی سائنسدانوں کا بڑا اقدام: بار بار اسقاطِ حمل کی وجوہات جانچنے والا نیا ٹیسٹ تیار
  • وزیراعلی مریم نواز کے ’’ایکو فرینڈلی پنجاب ویژن‘‘کو آگے بڑھانے کا فیصلہ
  • سونے کی فی تولہ قیمت میں ایک مرتبہ پھر بڑا اضافہ
  • کچرے کے ڈھیر سے نکلا خزانہ، جانیں اس حیران کن کہانی کی تفصیل
  • خیبر پختونخوا پولیس نے جدید اینٹی ڈرون سسٹم حاصل کرلیا
  • پشاور: خیبرپختونخوا پولیس نے جدید اینٹی ڈرون سسٹم حاصل کرلیا