بینک دولت پاکستان نے مالی سال 25ء کی تیسری سہ ماہی کے لیے ادائیگی کے نظام کا جائزہ جاری کر دیا ہے، جس میں نظامِ ادائیگی کے خلاصے کے ساتھ ملک میں ڈجیٹل ادائیگیوں کے منظرنامے میں قابل ذکر تبدیلیوں کو پیش کیا گیا ہے۔

ملک کی ڈجیٹل ادائیگیوں میں مالی سال 25ء کی تیسری سہ ماہی کے دوران اضافے کا رجحان جاری رہا، اور ٹرانزیکشنوں کے حجم اور مالیت میں خاصا اضافہ دیکھا گیا۔ ریٹیل ادائیگی کا حجم 12 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 2,408 ملین ٹرانزیکشنز تک پہنچ گیا، جبکہ ٹرانزیکشنوں کی مجموعی مالیت 8 فیصد نمو کے ساتھ 164 ٹریلین پاکستانی روپے تک پہنچ گئی۔ مجموعی ریٹیل ٹرانزیکشنز میں ڈجیٹل ذرائع سے ٹرانزیکشنز کا حصہ 89 فیصد رہا۔ موبائل بینکاری ایپس، برانچ لیس بینکاری والٹس، اور ای منی والٹس سمیت موبائل ایپ پر مبنی پلیٹ فارموں سے مجموعی طور پر27 ٹریلین روپے مالیت کی 1686 ملین ٹرانزیکشنز کو پروسیس کیا گیا، جو حجم میں 16 فیصد اور مالیت میں 22 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

ڈجیٹل بینکاری خدمات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی مستحکم اضافہ ہوا۔ موبائل بینکاری ایپ کے استعمال کنندگان بڑھ کر 22.

6 ملین ( 7 فیصد اضافہ) ، ای منی اور برانچ لیس بینکاری والٹس کے استعمال کنندگان کی تعداد بالترتیب بڑھ کر 5.3 ملین (12 فیصد اضافہ)، اور 68.5 ملین (6 فیصد اضافہ)، جبکہ انٹرنیٹ بینکاری استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 14.1 ملین (7 فیصد اضافہ) تک پہنچ گئی۔

گذشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں ای کامرس ادائیگیوں کا حجم 40 فیصد اضافے سے بڑھ کر 213 ملین تک پہنچ گیا جن کی مالیت 34 فیصد اضافے سے 258 ارب روپے رہی۔ ای کامرس ادائیگیوں میں ڈجیٹل والٹس کا حصہ سب سے زیادہ تھا جو مالیت کے لحاظ سے 94 فیصد (199.1 ملین) رہا، جبکہ کارڈ پر مبنی آن لائن ادائیگیوں کا حصہ صرف 6 فیصد (13.5 ملین) تھا۔ ان اسٹور خریداریوں میں، 179,383 پوائنٹ آف سیل نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے 140,861 مرچنٹس نے 550 ارب روپے (8 فیصد زائد) مالیت کی 99 ملین (12 فیصد زائد) ٹرانزیکشنوں کو پروسیس کیا۔ مزید برآں، کیو آر کوڈز کے ذریعے ادائیگیوں کو قبول کرنے والے مرچنٹس نے 61 ارب روپے مالیت کی 21.7 ملین ٹرانزیکشنوں کو پروسیس کیا۔

اسٹیٹ بینک کے تحت آپریٹ کیے جانے والے راست (فوری نظامِ ادائیگی) اور آر ٹی جی ایس (ریئل ٹائم گراس سیٹلمنٹ) جیسے ادائیگی کے نظاموں نے ملک میں ڈجیٹل ادئیگیوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔فوری ادائیگی کے نظام راست نے سہ ماہی کے دوران 8.5 ٹریلین روپے مالیت کی 371 ملین ٹرانزیکشنز پروسیس کیں، جس سے ٹرانزیکشنز کا مجموعی حجم راست کے آغاز سے اب تک 1.5 ارب اور اس کی مالیت 34 ٹریلین روپے تک پہنچ چکی ہے۔آر ٹی جی ایس کے ذریعے بڑی مالیت کی 8.5 ملین ادائیگیاں کی گئیں جن کی مالیت 347 ٹریلین روپے بنتی ہے۔

ڈجیٹل معیشت کی جانب منتقلی اسٹیٹ بینک کی حکمت عملی کے اقدامات کا حصہ ہے اور اس میں بینکوں، فن ٹیکس اور ادائیگی کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی مربوط کوششیں بھی شامل ہیں۔جیسے جیسے ڈجیٹل ادائیگیوں میں اضافہ ہورہا ہے، اسٹیٹ بینک مالی شمولیت کے فروغ اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ادائیگیاں مزید بہتر بنانے کے متعلق پرعزم ہے۔

مزید تفصیلات اس لنک پر ملاحظہ فرمائیے: https://www.sbp.org.pk/psd/pdf/PS-Review-Q3FY25.pdf

اشتہار

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: ٹریلین روپے فیصد اضافے فیصد اضافہ اسٹیٹ بینک ادائیگی کے سہ ماہی کے میں ڈجیٹل مالیت کی تک پہنچ کا حصہ بڑھ کر

پڑھیں:

بھارت: امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق میں غیرمعمولی اضافہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارت میں 2000 ء سے 2023 ء کے درمیان بالائی سطح کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی دولت میں 62 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ عالمی عدم مساوات پر ایک نئی رپورٹ کے مطابق پچھلی دہائیوں میں بھارت میں امیروں اور غریبوں کے درمیان دولت کا فرق غیرمعمولی حد تک بڑھ گیا ہے۔ جی 20 ٹاسک فورس کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران بالائی سطح کے ایک فیصد افراد نے اپنی دولت کے حصے میں 62 فیصد اضافہ کیا۔ جنوبی افریقا کی جی20 صدارت میں بنائی گئی اس کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی کل آبادی کے امیر ترین ایک فیصد افراد نے 2000ء کے بعد سے بننے والی نئی دولت کا 41 فیصد حصہ حاصل کیا۔ ورلڈ ان ایکویلٹی لیب کے اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ میں دنیا کی نچلی 50 فیصد آبادی کی دولت میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا دوسرے الفاظ میں، امیر ترین ایک فیصد نے نچلے 50 فیصد کی نسبت 2ہزار 655 گنا زیادہ دولت میں اضافہ کیا۔ ٹاسک فورس نے سفارش کی کہ عدم مساوات پر ایک نیا عالمی پینل تشکیل دیا جائے جو انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمٹ چینج کی طرز پر ہو۔ یہ پینل عدم مساوات کے اسباب اور اثرات کی نگرانی کرے گا اور حکومتوں و پالیسی سازوں کو رہنمائی فراہم کرے گا۔ رپورٹ کے مصنفین نے خبردار کیا کہ جن ممالک میں معاشی عدم مساوات زیادہ ہے، وہاں جمہوری نظام زوال پذیر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات جوزف اسٹگلٹز اور عالمی عدم مساوات پر آزاد ماہرین کی غیر معمولی کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ یہ صرف غیرمنصفانہ نہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی کمزور کرتا ہے۔ یہ ہماری معیشت اور سیاست دونوں کے لیے خطرہ ہے۔یہ کمیٹی جنوبی افریقاکے صدر سیرل رامافوسا کی درخواست پر تشکیل دی گئی تھی۔ رامافوسا نومبر 2025 ء تک جی20 گروپ کی صدارت سنبھالے ہوئے ہیں، جس کے بعد یہ ذمہ داری امریکا کو منتقل کی جائے گی۔ رپورٹ کے مصنفین نے مکمل طوفان کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وبا، یوکرین جنگ، اور تجارتی تنازعات جیسے عالمی بحرانوں نے غربت اور عدم مساوات کو مزید بڑھایا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا میں ہر 4میں سے ایک شخص کو اکثر کھانا چھوڑنا پڑتا ہے، جبکہ ارب پتیوں کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ 2020ء کے بعد سے عالمی سطح پر غربت میں کمی رک گئی ہے اور کچھ علاقوں میں اضافہ ہوا ہے۔مزید برآں 2.3 ارب افراد کو درمیانی یا شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے، جو کہ 2019 ء کے مقابلے میں 33.5 کروڑ زیادہ ہے۔

انٹرنیشنل ڈیسک گلزار

متعلقہ مضامین

  • 2 لاکھ 19 ہزار روپے مالیت کی سیفٹی پن نے انٹرنیٹ پر ہنگامہ مچادیا
  • تاجروں کی ڈیجیٹل ادائیگیوں میں سست روی سے حکومت کا ہدف خطرے میں پڑ گیا
  • 1500روپے مالیت کے پرائز بانڈز کی قرعہ اندازی کی تاریخ کا اعلان
  • موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلیے ہرسال 1 کھرب ڈالر سرمایہ کاری ناگزیر ہوگی‘ ایشیائی ترقیاتی بینک
  • جنوبی کوریا : چینی ماہی گیر وں کی کشتی الٹنے سے 9لاپتا
  • مربوط زری، مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کیا، گورنر اسٹیٹ بینک
  • سول ڈیفنس رضا کاروں کے وظیفے میں اضافہ، نوٹیفکیشن جاری
  • بلوچستان میں بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح میں نمایاں اضافہ
  • امریکا: حکومتی شٹ ڈاؤن سے فضائی نظام مفلوج، تین دن میں دو ہزار پروازیں منسوخ
  • بھارت: امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق میں غیرمعمولی اضافہ