بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں میں ’ڈینگی بخار کی تباہی‘
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جون 2025ء) طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے غیر متوقع موسم اور وسیع تر ڈیلٹا علاقے میں، جہاں برہم پترا اور گنگا کا پانی سمندر سے ملتا ہے، صاف پینے کے پانی کی شدید کمی اس اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔
رکیب الاسلام راجن نے بتایا کہ ان کی دو سالہ بیٹی اپنی ماں زرین کو ڈھونڈتی رہتی ہے، جو جون کے شروع میں جنوبی علاقے باریسال میں ڈینگی سے انتقال کر گئی تھیں، ''زرین کو تیز بخار ہوا… ان کا بلڈ پریشر گر گیا اور پھر وہ سانس نہ لے سکیں‘‘۔
31 سالہ راجن کا مزید کہنا تھا، ''ہماری بیٹی ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک اسے ڈھونڈتی رہتی ہے۔‘‘
ڈینگی بخار ہو جائے تو شدید صورتوں میں اس سے اندرونی یا منہ اور ناک سے خون بہنے لگتا ہے۔
(جاری ہے)
انسٹی ٹیوٹ آف ایپیڈیمولوجی، ڈیزیز کنٹرول اینڈ ریسرچ (آئی ای ڈی سی آر) کے مطابق باریسال میں اس سال ملک بھر کے 7,500 ڈینگی کیسز میں سے تقریباً نصف رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس سال باریسال میں پانچ افراد ڈینگی سے ہلاک ہوئے، جبکہ 170 ملین کی آبادی والے اس ملک میں کل 31 اموات ریکارڈ کی گئیں۔
یہ تعداد سن 2023 کے مہلک پھیلاؤ سے اب بھی بہت کم ہے، جب جنوبی ایشیا کے اس ملک میں 17 سو سے زائد افراد ہلاک اور دو لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
باریسال کے برگنا ضلع میں ہسپتال مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔ باریسال کے ہیلتھ چیف شیمول کرشنا مونڈل نے کہا کہ یہ ''بدترین صورت حال ہے، جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
‘‘برگنا کے 250 بستروں والے سرکاری ہسپتال میں 200 سے زائد ڈینگی مریضوں کا علاج ہو رہا ہے۔ کرشنا مونڈل کا مزید کہنا تھا، ''ہم بستر بھی فراہم نہیں کر سکے، مریض فرش پر لیٹ کر علاج کروا رہے ہیں۔‘‘
جہانگیر نگر یونیورسٹی میں بیماریوں کے ماہر کبیرالبشیر نے کہا کہ صاف پانی کی کمی ''ایک بڑی وجہ‘‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ بارش کا پانی کنٹینرز میں ذخیرہ کرتے ہیں، جو مچھروں کے لیے پسندیدہ حالات ہیں، ''پانی کی تقسیم کا نظام تقریباً موجود نہیں ہے۔
‘‘ ماحولیاتی تبدیلیاں اور ڈینگی کا پھیلاؤصاف پانی کی کمی ایک دیرینہ مسئلہ ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی اسے مزید بدتر کر رہی ہے۔ سرکاری سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بڑھتا ہوا سمندری پانی بنگلہ دیش کے نشیبی علاقوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جبکہ طاقتور طوفان سمندری پانی کو اندرون ملک لے جا رہے ہیں، جس سے کنویں اور جھیلوں کا پانی کھارا ہو رہا ہے۔
غیر متوقع بارشوں نے حالات کو مزید مشکل بنا دیا ہے، کیونکہ لوگ، جب بھی ممکن ہو، بارش کا پانی ذخیرہ کرتے ہیں۔آئی ای ڈی سی آر کے مشیر اور صحت عامہ کے ماہر مشتاق حسین کہتے ہیں کہ پانی کے یہ ذخیرہ کرنے والے برتن مچھروں کی افزائش کے لیے بہترین جگہ ہیں، ''ہمیں کہیں بھی پانی جمع ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ یہ بنیادی اصول ہونا چاہیے، لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔
‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''زیادہ گرمی اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے خطرہ بڑھ رہا ہے، جو مچھروں کی افزائش کے لیے سازگار ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش میں 1960 کی دہائی سے ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن سن 2000 میں یہ وباء شدت اختیار کر گئی۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ڈینگی اور دیگر مچھروں سے پھیلنے والے وائرس تیزی سے اور دور تک پھیل رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا کی نصف آبادی اب ڈینگی کے خطرے میں ہے، جس کے ہر سال 100 سے 400 ملین کیس سامنے آتے ہیں۔اپنی بیوی کے غم میں ڈوبے راجن کو ڈر ہے کہ مزید اموات ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے مقامی حکام پر ڈینگی کی روک تھام میں ناکامی کا الزام لگایا، ''ڈینگی نے میری بیوی کو چھین لیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کتنے اور قطار میں ہیں… لیکن میں صفائی کی کافی سرگرمیاں نہیں دیکھ رہا۔‘‘
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا پانی پانی کی رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
ریڈ لائن اور کے فور منصوبے نے یونیورسٹی روڈ پر کاروبار ٹھپ کردیا
کراچی:یونیورسٹی روڈ پر کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہوگئیں، ریڈ لائن اور کے فور منصوبے نے تمام امور ٹھپ کر کے رکھ دئیے، بیت المکرم مسجد سے اردو سائنس کالج تک سیوریج کا پانی سڑکوں پر الگ جمع ہوگیا، مرکزی سڑک کے ساتھ ساتھ سروس روڈ بھی کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن پروجیکٹ، کے فور منصوبے نے پوری شاہراہ کو کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا، شہریوں کے مطابق منصوبہ مسلسل تاخیرکا شکار ہورہا ہے جبکہ یونی ورسٹی روڈ پر جگہ جگہ گڑھے پڑے ہوئے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوگئی ہے لوگ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں شہری طے کرنے پر مجبور ہیں۔
حسن اسکوائر سے نیپا چورنگی تک جانے والا ٹریک گزشتہ دو ماہ سے گندے پانی میں ڈوبا ہوا ہے، جس کے باعث نہ صرف ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہے بلکہ روزانہ لاکھوں شہری بدترین ٹریفک جام میں پھنس کر شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ یونی ورسٹی روڈ کے اطراف میں کاروباری حضرات انتہائی مشکلات کا شکار ہیں کیونکہ بیت المکرم مسجد سے نیپا چورنگی تک سیوریج کی لائن 2 ماہ سے متاثر ہے جہاں ہر کچھ دن بعد پانی آجاتا ہے، بالخصوص ااشفاق میموریل اسپتال سے اردو سائنس کالج تک سیوریج کا پانی جمع ہوتا ہے جس کی وجہ سے اطراف کی دکانیں بند ہوگئی ہیں اور جو کچھ کھلی ہیں ان کا کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔
دکان داروں نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریڈلائن کی تعمیر نے ہمارے کاروبار کو تباہ کر کے رکھ دیا یہاں گاہک آتے نہیں کیونکہ گاڑی پارک کرنے کی جگہ ہی موجود نہیں، رہی سہی کسر دوماہ سے سیوریج کے پانی نے پوری کردی کیونکہ مرکزی سڑک پر سیوریج کا پانی ہوتا ہے تو سروس روڈ پر گاڑیاں گزرتی ہے جس سے کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔
نجی و سرکاری جامعات، اسپتال اور تجارتی مراکز اسی سڑک پر واقع ہونے کے باعث طلبہ، مریض، ملازمین اور رہائشی سب متاثر ہیں۔
اسی ٹریک پر قائم دکان کے ایک مالک نے روتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارے کاروبار کی یہ صورتحال ہے کہ ملازمین کی تنخواہیں دینے تک کی رقم نہیں ہے ہم کس سے شکایت کریں؟ ہم اس وقت بہت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں اور ترقیاتی کام ہمیں اپنی زندگی میں پورے ہوتے نظر نہیں آرہے، ناقص منصوبہ بندی نے شہر کی انتہائی اہم شاہراہ یونی روسٹی روڈ کو تہس نہس کر رکھ دیا، ہم ریڈ لائن انتظامیہ کو شکایت کرتے ہیں تو وہ واٹر کارپوریشن پر ڈال دیتے ہے، واٹر کارپوریشن سے رابطہ کیا جاتا ہے تو ریڈ لائن یا کے فور منصوبے کی انتطامیہ کو مورد الزام ٹھہرادیا جاتا ہے۔
علاقے کے دکان داروں کے مطابق ترقیاتی کاموں اور نکاسی آب کے ناقص انتظام نے کاروبار مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، کبھی مین روڈ بند اور کبھی سروس روڈ پر ٹریفک منتقل کردیا جاتا ہے جس سے حادثات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ایک رئیل اسٹیٹ ایجنسی کے مالک نے بتایا کہ یہاں روز کبھی سڑک کھود دی جاتی ہے، کبھی بند کر دی جاتی ہے ہماری دکانیں خالی پڑی ہیں، کرایہ دینا مشکل ہو گیا ہے خریدار یا کلائنٹ آ ہی نہیں سکتے نہ رینٹ ہو رہا ہے نہ ہی سیل ہوتی ہے بس ہم مئیرکراچی سے مطالبہ کرسکتے ہے کہ خدارا ہم پر رحم کریں ہمارا کاروبار بند ہونے کی پوزیشن پر آگیا ہے ہم بہت کرب میں ہیں ہماری مدد کی جائے اور ہمیں ریڈ لائن کے عذاب سے نجات دلائی جائے۔
ایک شہری نے ایکسپریس سے گفتگو میں کہا کہ پہلے ہی ترقیاتی کاموں کی وجہ سے 20 منٹ کا سفر ایک گھنٹے میں طے کرتے تھے، اب گندے پانی نے حالات مزید خراب کر دیے ہیں، رکشا اور گاڑیوں کے کرائے بڑھ گئے ہیں، سڑک پر کٹ نہ ہونے کی وجہ سے روڈ کراس کرنا ناممکن ہوگیا ہے، حکام مکمل طور پر لاپروائی دکھا رہے ہیں پیدل چلنے والوں کے لیے ایک بھی پیڈسٹرین برج نہیں، جس کی وجہ سے انہیں اذیت کا سامنا ہے، گندے پانی کے باعث تعفن پھیل چکا ہے اور وبائی امراض کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
شہری نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا چاند پر جا رہی ہے اور ہم ایک پل نہیں بنا سکے، ہماری نسلیں بھی آجائیں تو شاید یہ منصوبہ مکمل نہ ہو، کراچی جو ملک کا معاشی حب ہے، اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہو رہا ہے؟
ایک کلینک کے مالک نے شکایت کی کہ ان کا کاروبار مکمل طور پر بند ہونے کے قریب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے کلینک کے سامنے مٹی کے بڑے بڑے ٹیلے بنادیے گئے ہیں، مریض آنہیں پاتے، بارہا درخواست کے باوجود مٹی ہٹائی نہیں جا رہی، دن کے صرف چند گھنٹے کام ہوتا ہے، کبھی مشین خراب، کبھی ڈیزل ختم اگر دن رات کام کیا جائے تو یہ منصوبہ دو ماہ میں مکمل ہوسکتا ہے، عملہ 12 بجے آتا ہے شام کو چلا جاتا ہے لاپرواہی نے سب کو پریشان کر رکھا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے نہ کوئی مانیٹرنگ ہو رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مین روڈ پر گندے سیوریج کے پانی نے الگ پریشان کر رکھا ہے خواتین، بچوں اور نمازیوں کے لیے یہ گندا پانی سخت اذیت کا باعث ہے۔ یہ پانی ناپاکی پھیلا رہا ہے، نماز کے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں، لوگ آنے سے کتراتے ہیں۔ بینک، کلینکس اور شاپس سب بند ہونے کے قریب ہیں۔ بینک والوں کی تو مجبوری ہے مگر لائن سے تمام دکاندار تالے لگا کر جا چکے ہیں میں بھی تنگ آگیا ہوں۔
علاقہ مکینوں اور دکانداروں نے منتظمِ شہر مرتضیٰ وہاب اور متعلقہ حکام سے اپیل کی ہے کہ یونیورسٹی روڈ اور ملحقہ علاقوں میں فوری طور پر صفائی اور نکاسی آب کا کام شروع کیا جائے تاکہ شہریوں اور کاروباری طبقے کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے، موجودہ صورتحال نے شہریوں کی روزمرہ زندگی مفلوج کر دی ہے۔