بیجنگ:چین میں پاکستان کے سفیر خلیل ہاشمی نے آج شمالی سنکیانگ میں خورگوس فری ٹریڈ زون کا تفصیلی دورہ کیا۔ یہ زون چین کی مصروف ترین خشک بندرگاہ، سرحدی گیٹ اور تعاون مرکز کے طور پر فوائد کی منفرد تین رخی خدمات پیش کرتا ہے جو چین اور قازقستان کے درمیان سامان اور لوگوں کے آزادانہ بہاؤ کے لیے ایک مثالی پل کے طور پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے مقامی قیادت سے بھی ملاقات کی اور اس پر تبادلہ خیال کیا کہ کس طرح یہ ڈرائی پورٹ لوگوں اور سامان کے لیے چھٹی نسل کے کراسنگ پوائنٹ میں تبدیل ہوا۔ دونوں اطراف نے پاکستان اور چین کے درمیان خنجراب ڈرائی پورٹ میں اس کے ممکنہ استعمال کے لیے خورگوس ڈرائی پورٹ کے اچھے طریقوں کو بروئے کار لانے کے لیے تبادلے اور تعاون کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ سفیر اس وقت سرکاری دورے پر چین کے شہر سنکیانگ میں ہیں۔
ڈرائی پورٹ کے دورے کے دوران، سفیر ہاشمی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ کسٹم اور امیگریشن حکام کے خورگوس میں ٹیکنالوجی پر مبنی آپریشنز لوگوں اور سامان کی موثر، بلاتعطل نقل و حرکت کا باعث بنے ہیں دیگر امور کے علاوہ، بتایا گیا کہ ٹیکنالوجی کے انضمام کی وجہ سے کارگو ٹرکوں کو 25-30 منٹ میں کسٹم کلیئر کیا جا سکتا ہے اور 2025 میں سال بہ سال کی بنیاد پر تجارت کے دو طرفہ حجم میں 46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سفیر کو 5.

8 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ڈیوٹی فری بارڈر مارکیٹ کے کامیاب آپریشن کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی جہاں چین اور قازقستان کے ساتھ ساتھ تیسرے ممالک کے شہری بھی ڈیوٹی فری داخل اور خریداری کر سکتے ہیں۔ سفیر اور مقامی حکام نے تبادلے اور مطالعاتی دوروں کو فروغ دینے کے لیے رابطہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان کی سرحدی منڈیوں کے لیے اس کامیاب ماڈل کو اپنے دوست ہمسایہ ممالک کے ساتھ ڈھالنے
کے امکانات کا پتہ لگایا جا سکے۔
سفیر کا یہ دورہ حالیہ برسوں میں پاکستان اور چین کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان زمینی سرحدی انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے کیے گئے متعدد اقدامات کے تناظر میں آیا ہے۔ دسمبر 2024 میں، دونوں اطراف نے خنجراب پاس کا سال بھر آپریشن شروع کیا ہے۔ گزشتہ سال جون میں سفیر ہاشمی نے خنجراب پورٹ اور پاک چین زمینی سرحد کا دورہ کیا تھا۔ انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ، زرعی مصنوعات کے لیے گرین چینل کے قیام سمیت دیگر کے لیے تجاویز کومضبوط کیاجا رہا ہے۔

Post Views: 4

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ڈرائی پورٹ کے لیے

پڑھیں:

امن کا سفیر، ایک سچا فنکار … عنایت حسین بھٹی

کسی بھی فنکار کے فن کی بات کریں تو اُس کی صلاحیتیں معاشرے میں انسان کی شخصیت کا تعین کرتی ہیں۔ فنکار چاہے زندگی کے جس شعبہ سے وابستہ ہو، حوصلہ افزائی اُس کے کام کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ ایک دانشور نے لکھا کہ ’’ جس طرح ایک پنچھی تنکا تنکا جمع کر کے نفاست سے گھونسلہ بناتا ہے اسی طرح ایک فنکار اپنے کام سے اس ثقافت کی بنیاد رکھتا ہے جس کی بنیادیں متوازن معاشرے سے جا ملتی ہیں۔‘‘

پنجاب کی دھرتی کا ایک ایسا ہی فنکار جسے دنیا آج بھی عنایت حسین بھٹی کے نام سے جانتی ہے، جو دریائے چناب کنارے آباد سوہنی کے شہرگجرات میں 12 جنوری 1928کو پیدا ہُوا۔ یہ چناب کے بہتے پانیوں کی تاثیرکا اثر تھا یا وطن کی محبت۔ جو وکالت کا ایک طالبعلم فن کے دریا میں یوں غوطہ زن ہوتا ہُوا پنجاب کے لوک روایت کا معتبر ترین حوالہ بن گیا۔عنایت حسین بھٹی کی فلمی زندگی کا آغاز بطورگلوکار ہُوا اور فلم ہیر، پھیرے، لارے اور شمی وغیرہ میں ان کے گائے ہوئے نغمات بے حد مقبول ہوئے۔

ان کا پہلا گیت ’’ نی سوہے جوڑے والیے‘‘ فلم شمی میں 1950 میں ریلیز ہُوا لیکن ان کی پہلی فلم ’’سچائی ‘‘ تھی۔ فلم ’’ پھیرے‘‘ سے انھیں بریک تھرو ملا یہ فلم اُس زمانے میں پاکستان میں بننے والی پہلی پنجابی فلم تھی جس میں پاکستان کی فلمی تاریخ کی پہلی سپرہٹ نغماتی فلم تھی جس میں پاکستانی فلموں کا پہلا مقبول گیت تھا ’’ جے نئیں سی پیار نبھانا، سانوں دس جا کوئی ٹھکانا۔‘‘ ان کی ایک اور فلم ’’ماہی منڈا‘‘ سے ایک عوامی گیت شدت سے یاد آ رہا ہے کہ ’’ رنا والیاں دے پکن پرونٹھے۔‘‘ اسی طرح 1953  میں فلم ’’ شہری بابو‘‘ میں ایک فقیر منش سائیں کا کردار ادا کیا جس پر انھی کا گایا ہُوا نغمہ ’’ بھاگاں والیو نام جپو مولا ‘‘ نام فلم بند ہُوا اور پھر یہی نغمہ ان کی زندگی بھر کے لیے شناخت بن گیا۔ فلم ’’ شہری بابو‘‘ ان کے کیریئر میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس فلم کی کہانی بابا عالم سیاہ پوش اور موسیقی رشید عطرے کی تھی۔ ان کے فلمی کیریئر میں اگلی فلم ’’شباب‘‘ اور پھر ’’جلن‘‘ تھی جس میں انھوں نے ہیرو کا کردار ادا کیا، ان کی اسی سال ریلیز ہونے والی فلم ’’ہیر‘‘ میں انھوں نے ’’ رانجھے‘‘ کا کردار اس خوبصورتی سے نبھایا جو ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔

اس فلم ’’ہیر‘‘ کے بعد انھوں نے بے شمار ہٹ گانے گائے۔ جن میں چن میرے مکھناں، جند آکھاں کہ جان سجناں، دنیا مطلب دی او یار، دم عشق دا بھرنا پے گیا جیسے لاتعداد گیت شامل ہیں۔عنایت حسین بھٹی کی وطن سے محبت کا اندازہ ہمیں 1965 کی جب جنگ کا آغاز ہُوا تو ریڈیو پاکستان عوام کے جذبوں کو گرمانے کے لیے گیت نشر کر رہا تھا ایسے میں ان دنوں عنایت حسین بھٹی کی منفرد اور گرج دار آواز میں ایک ترانہ گونجا۔ ’’ اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا۔‘‘

اس جنگی ترانے کے خالق پاکستان کے معروف شاعر طفیل ہوشیار پوری مرحوم تھے۔ یہ جنگی ترانہ پاکستان میں قومی موسیقی کا نقطہ آغاز ثابت ہُوا۔ یہ ترانہ ان کی فلم ’’چنگیز خان‘‘ میں بھی شامل ہے۔عنایت حسین بھٹی نے جب عروج سے زوال کا وقت دیکھا تو انھوں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے پنجاب کے عوامی میلوں کا رُخ کیا، جہاں وہ ’’ بھٹی تھیٹر‘‘ کے نام سے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے، لیکن یہاں بھی مقابلہ بہت سخت تھا عالم لوہار، طفیل نیازی، بالی جٹی، عاشق جٹ اور منظور جھلا وجیسے دیگر بڑے لوک فنکار عوامی میلوں کی جان ہوتے تھے۔

ہمیں اس بات پر حیران بھی ہوتے ہیں کہ ایک کامیاب گلوکار اور اداکارکا میلوں ٹھیلوں میں کیا کام؟ یاد رکھے کہ اس عہد کے تمام بڑے لوک گلوکار انھی میلوں ٹھیلوں سے مقبولیت کی اُس معراج پر پہنچے جس کا تصورکرنا بھی مشکل ہوگا۔ عنایت حسین بھٹی وہ واحد لوک گلوکار تھے جنھوں نے پنجاب کے صوفی شعرا وارث شاہ، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید اور میاں محمد بخش سے والہانہ عقیدت رکھنے اور وطن سے محبت کے اظہار کی روایت کی سرِ عام بنیاد رکھی جسے وہ زندگی بھر لے کر چلتے رہے یعنی دوستی اور امن کی روایت۔ لیاقت علی جتوئی لکھتے ہیں کہ ’’ عنایت حسین بھٹی فن کے اس مقام پر پہنچے جس کو حاصل کرنے کے لیے لوگ ترستے ہیں، اگر وہ رانجھا بنے تو جھنگ کے جنگل میں بھینس پالنے والے نظر آئے، اگر جوگی بنے تو ہیر کے در سے جوگ لینے کے لیے انوکھا روپ دھارا۔ اگر چوکیدار بنے تو عزت اور غیرت کا پورا پہرہ دیا، اگر انھوں نے وارث شاہ کا روپ دھارا تو اس کردار کو ایسے اُجاگر کیا جو فلم وارث شاہ کی شکل میں امر ہوا۔‘‘

عنایت حسین بھٹی لوک گلوکار، اداکار، ہدایت کار، فلم ساز،کالم نگار، سیاست دان اور مصنف کے طور پر اپنے ہرکردار میں یکتا تھے۔ وہ ایک ایسے باکمال ور اسٹائل فنکار اور دانشور تھے جن کی زیست کا ہر پہلو انفرادیت لیے ہوئے ہے، وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے جس نے پنجاب کے لوک روایت اور ثقافت کو آگے بڑھانے میں اپنا بھرپورکردار ادا کیا۔ ہندوستان اور پاکستان کی فلمی صنعت میں دو فنکار ہی ایسے گزرے ہیں جنھوں نے اداکاری اور گلوکاری میں ایسے جوہر دکھائے کہ لوگ یہ سوال کرنے پر مجبور ہو گئے کہ عنایت حسین بھٹی ایک بڑے لوک گلوکار تھے یا اداکار؟ یہ سوال آنجہانی گلوکار اور اداکار کشورکمار کے حوالے سے بھی کیا جاتا ہے۔ دونوں فنکاروں کی فنی قامت سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عنایت حسین بھٹی اپنی مٹی، اپنی پنجابی دھرتی سے وفا کی ایسی مثال قائم کی جس نے اس فنکار کو دوسروں سے انفرادیت ادا کی۔

لوحِ رُخسار پہ تقدیر جو لکھ بیٹھا ہے

نازؔ جیسا فنکار کہاں سے لاؤں؟

عنایت حسین بھٹی کے بطور سیاست دان ہونے کی بات کریں تو انھوں نے 1985 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر انتخاب لڑا تھا مگرکامیاب نہ ہو سکے۔ جس پر انھوں نے سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ دیا اور فلمی دنیا میں ’’ بھٹی پروڈکشن‘‘ جیسا ادارہ قائم کر لیا جس کے زیرِ اہتمام پاکستان کو بہت سی کامیاب فلمیں دی۔ ان کی بطور اداکار آخری فلم عشق روگ 1989 میں نمائش پذیر ہوئی۔

انھوں نے 1991 میں پی ٹی وی کے لیے صوفیائے کرام، ان کی درگاہوں اور تعلیمات کے حوالے سے پروگرام ’’ چانن ای چانن‘‘ کی میزبانی شروع کی جو ازاں بعد ’’ اُجالا ‘‘ اور ’’ تجلیوں‘‘ کے نام سے جاری رہا۔ عنایت حسین بھٹی کی ذاکرکے طور پر بھی منفرد پہنچان تھی جب کہ وہ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں بھی تقاریرکیا کرتے تھے۔ پاکستان کے مشہور فلمی اداکار کیفی ان کے بھائی، ٹیلی وژن کے مشہور فن کار وسیم عباس ان کے صاحبزادے اور ٹیلی وژن ہی کے ایک اور اداکار آغا سکندر ان کے داماد تھے۔عنایت حسین بھٹی نے پاکستان کے ایک بڑے فلمی خاندان کی بنیاد رکھی۔

ان کے صاحبزادے وسیم عباس فلم، تھیٹر اور ٹیلی وژن کے کامیاب اداکار ہیں۔ عنایت حسین بھٹی کا اپنی ماں بولی پنجابی سے لگاؤ غیر معمولی تھا، انھوں نے پنجابی زبان و ادب کی ترقی کے لیے ضیا شاہد اور مسعود کھدر پوش کے ساتھ مل کر ہفت روزہ ’’جریدہ‘‘ کہانی شروع کیا جب کہ ایک معروف اخبارکے لیے چیلنج کے نام سے کالم بھی لکھتے رہے۔ دھرتی کا یہ ہمہ جہت فنکار 31  مئی 1999 کو چل بسا مگر انھوں نے پنجاب کی ثقافت کے ہر رنگ کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ان کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • میڈیا وفد کا دورہ چین‘ تاریخی مقامات‘ متعدد اداروں کا وزٹ
  • حیدرآباد چیمبر کے وفد کا کراچی ایکسپو سینٹر کا دورہ
  • امن کا سفیر، ایک سچا فنکار … عنایت حسین بھٹی
  • محسن نقوی کا نادرا میگا سینٹر کا اچانک دورہ، سہولیات پر اطمینان کا اظہار
  • وفاقی وزیرداخلہ کا اسلام آباد میں نادرا میگا سینٹر کا دورہ، عملے کو شاباش!
  • گوہر اعجاز نے بوم بسٹ سائیکل کی غلط فہمی سے متعلق حقائق پیش کر دیے
  • وزیر داخلہ سے امریکی سفیر کی ملاقات، خطے میں قیام امن کیلئے پاکستانی کوششوں کی تعریف
  • وزیر داخلہ سے امریکی سفیر کی ملاقات‘ خطے میں امن کیلئے پاکستانی کوششوں کی تعریف
  • وزیر داخلہ سے امریکی سفیر کی ملاقات؛ خطے میں قیام امن کیلیے پاکستانی کوششوں کی تعریف