دائیں جانب پیپلزپارٹی کے رہنما جاوید ناگوری، بائیں طرف ان کے بھائی عبداللّٰہ ناگوری —فائل فوٹوز

کراچی میں کرنٹ لگنے سے پیپلز پارٹی کے رہنما جاوید ناگوری کے بھائی انتقال کر گئے۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سٹی عارف عزیز کے مطابق عبداللّٰہ ناگوری اتوار کی دوپہر اپنی اوطاق میں بجلی کا کوئی کام کر رہے تھے کہ اس دوران انہیں کرنٹ لگ گیا جس سے وہ موقع پر ہی چل بسے۔

انہیں فوری طور پر قریبی اسپتال بھی لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد ان کی موت کی تصدیق کر دی، پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد لاش ورثاء کے حوالے کر دی۔

ایس ایس پی عارف عزیز نے بتایا ہے کہ عبداللّٰہ ناگوری پیپلز پارٹی کے رہنما جاوید ناگوری کے بھائی تھے۔

واقعے کے بعد پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ نے جاوید ناگوری سے ان کے بھائی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار بھی کیا ہے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کے بھائی

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کی تضاد پر مبنی سیاست

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں حکومت کا حصہ بھی ہے اور حزب اختلاف کی سیاست بھی وہ خود سے کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف آصف علی زرداری بطور صدر اور بلاول زرداری پارٹی کی سربراہی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کے کھیل کا بھی حصہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی پیپلز پارٹی ایک ہی ٹکٹ میں حکومت، حزب اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرکے اقتدار کی بندر بانٹ میں اپنے پتے کھیلنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ حکومت کے بیش تر معاملات پر سخت تنقید بھی کرتے ہیں مگر جب ان کی حمایت یا ووٹ دینے کی باری آتی ہے تو پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آکر ان کو مکمل سہولت کاری کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ کھیل کا منصوبہ ہے جہاں پیپلز پارٹی کے ہر صورت میں حکومت کا ساتھ دینا ہے اور اسی شرط کی بنیاد پر موجودہ حکومت کا سیاسی بندوبست کیا گیا تھا اور پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف لاکھ شور کرے اسے کرنا وہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور حکومت یا پیپلز پارٹی کے درمیان طے شدہ کھیل کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایک بار پہلے بجٹ پر خوب تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے ہمیں اتحادی جماعت ہونے کے ناتے کہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا مگر بعد میں اپنی جماعت کے حق میں ترقیاتی فنڈ کے نام پر سیاسی بارگینگ کرکے بجٹ پر حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی پہلے اپنی سیاسی مجبوریوں کے باعث اکڑ جاتی ہے اور بعد میں حکومت کے سامنے لیٹ کر وہی کچھ کرتی ہے جو ان کے حصہ کا کھیل ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان سیاسی رومانس یا سیاسی آنکھ مچولی کا کھیل 2008 کی سیاست سے ہی جاری ہے اور یہ دونوں جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے ایک دوسرے کی اتحادی ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے اہم راہنمائوں کا گلہ ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کی سیاست نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست کو سیاسی طور پر دفن کردیا ہے اور خود مسلم لیگ ن سے سمجھوتا کرکے پارٹی کو پنجاب میں غیر اہم کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے خود کو سندھ کی سیاست تک محدود کرلیا ہے اور آصف علی زرداری سمیت بلاول زرداری کی سیاسی تقریریں بھی سندھ کی سیاست تک محدود ہوگئی ہیں۔ اگرچہ اس وقت بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے مگر سب جانتے ہیں کہ وہاں کس کی حکومت ہے اور وزیر اعلیٰ کس کی حمایت سے بنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حیثیت بلوچستان میں محض نمائشی ہے اور اصل اختیارات کسی اور کے پاس ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے اور چاروں صوبوں کی پیپلز پارٹی آج صوبائی سیاست تک محدود نظر آتی ہے۔ اصل میں آصف علی زرداری نے ایک بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ پاکستان میں طاقت کا اصل محور اسٹیبلشمنٹ ہے اور عوامی سیاست کی کوئی حیثیت نہیں اور اسی بنیاد پر پیپلزپارٹی اب ماضی کی پارٹی سے باہر نکل کر ایک نئی جماعت یعنی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ جماعت بن گئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر بلیک میل کرتی ہے اور حکومت کے مشکل وقت میں یا حکومت پر ہونے والی تنقید کا سیاسی بوجھ کسی بھی صورت میں اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس لیے مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی یہ آوازیں اٹھتی ہیں کہ ہمیں پیپلز پارٹی کی سیاسی سطح کی بلیک میلنگ سے باہر نکلنا چاہیے۔ لیکن ان کی مجبوری بھی یہ ہے کہ ان کی جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان باہمی اتفاق رائے اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ ہے۔ اس وقت بلاول زرداری خود کو ایک متبادل وزیراعظم کے طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے پیش کررہا ہے اور اس کے بقول وہ اسٹیبلشمنٹ کی خدمت شہباز شریف سے زیادہ بہتر کرسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاک بھارت کشیدگی میں غیر ممالک کی سطح پر پارلیمانی گروپ کی قیادت بھی بلاول زرداری کو اسٹیبلشمنٹ کی خاص ہدایت پر دی گئی تھی تاکہ ان کا سیاسی قدکاٹھ بڑھ سکے۔ بلاول زرداری کی کوشش ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے خود کو وزیراعظم کے طور پر اپنی قبولیت کو ممکن بناسکے۔ اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی اور عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی حمایت درکار ہے جو وہ ہر صورت میں پیش کرکے خود کو عملاً زیادہ وفادار کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی بھی سیاسی دشمن پی ٹی آئی ہے اور اسی بنیاد پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کا جو جمہوری تشخص تھا اب وہ ختم ہوگیا ہے اور اب پارٹی کے اہم راہنما رضا ربانی او ردیگر سرکردہ نظریاتی ساتھیوں کو بھی پارٹی قیادت نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت دیوار سے لگادیا ہے۔ اس لیے اب پیپلز پارٹی کی سیاست کو محض طاقت اور اقتدار کی سیاست کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر بھی دیکھا جائے تو پارٹی کا اصل چہرہ سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔ آصف زرداری نے بھی بلاول زرداری کو سمجھادیا ہے کہ نظریاتی سیاست ختم اور اقتدار کی سیاست کا کھیل عروج پر ہے اور اسی کھیل میں ہم کو اپنے اقتدار کا حصہ طاقت ور طبقہ سے حاصل کرنا ہے۔ ان کے نزدیک جمہوریت کا اصل درس ہی اقتدار کا ہی حصول ہوتا ہے اور چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز۔ پیپلز پارٹی سندھ اس لحاظ سے خوش ہے کہ آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کے باعث ہم اب اقتدار کے لازمی کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف سندھ اور بلوچستان کی وزارت اعلیٰ تو دوسری طرف چیرمین سینیٹ سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنر شپ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سمیت کئی حصوں میں پیپلز پارٹی اقتدار کے کھیل میں حصہ دار بن کر مسلم لیگ ن کے مقابلے میں بہتر کھیل کھیل رہی ہے اور یہ ہی اس کے مستقبل کی سیاست کی جھلک بھی ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی یقینی طور پر اقتدار کے کھیل میں انجوائے کررہی ہے مگر اپنا سیاسی اور جمہوری مقدمہ وہ ہار گئی ہے اور اگر سندھ میں شفاف انتخابات ہوں تو پیپلزپارٹی کی سیاسی پوزیشن یہ نہ ہوگی جو اس وقت پارٹی کو حاصل ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ کو پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے اور کل یہ ضرورت اسے نہیں رہے گی کیونکہ اس کے کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں اور اس وقت پیپلز پارٹی کو احساس ہوگا کہ وہ سیاسی طور پر تنہا ہوگئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں کو سوچنا ہوگا کہ پارٹی سیاست کس طرف جا رہی ہے اور کیا پارٹی اپنا عوامی تشخص خراب کرنے کی سیاست کا تو حصہ نہیں بن گئی۔ اگر پیپلز پارٹی کو اپنا سیاسی اور جمہوری تشخص بحال کرنا ہے تو انہیں موجودہ اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے باہر نکل کر کسی نئے کردار کو تلاش کرنا ہوگا وگرنہ پیپلز پارٹی بھی ایک گم نام سیاست کا شکار ہو سکتی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • کراچی: فائرنگ، کرنٹ لگنے، ڈوبنے سے 5 افراد جاں بحق، 4 زخمی
  • وزیر اعظم کی پارٹی کے سابق سینئر رہنما چوہدری نثار کے گھر آمد
  • کراچی: بارش کے دوران 2 دن میں 8 افراد جاں بحق
  • منعم ظفر خان و دیگر کا جاوید اصغر چودھری کے والد کے انتقال پر اظہارافسوس
  • منگھوپیر میں کے الیکٹرک کی غفلت نے 2 گدھوں کی جان لے لی
  • کراچی میں بارش کے دوران7افراد زندگی کی بازی ہار گئے
  • کراچی، منگھو پیر میں کرنٹ لگنے سے دو گدھے مرگئے
  • پیپلز پارٹی کی تضاد پر مبنی سیاست