Daily Mumtaz:
2025-08-13@15:27:42 GMT

جاوید شیخ کا نادیہ خان اور عمر عدیل کو منہ توڑ جواب

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

جاوید شیخ کا نادیہ خان اور عمر عدیل کو منہ توڑ جواب

پاکستانی فلم اور ٹی وی انڈسٹری کے معتبر ترین اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر جاوید شیخ نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں نادیہ خان اور عمر عدیل جیسے نقادوں کی غیر منصفانہ تنقید کا دندان شکن جواب دیا ہے۔

وکی پیڈیا پوڈکاسٹ میں انٹرویو دیتے ہوئے جاوید شیخ نے ان تمام نام نہاد نقادوں کو للکارا جو اپنے مفروضوں پر مبنی رائے سے پروجیکٹس کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پوڈکاسٹ کے میزبان کے سوال کے جواب میں جاوید شیخ نے واضح کیا کہ ’’فیصل قریشی نے راجہ رانی میں کوئی میک اپ استعمال نہیں کیا، میں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’تنقید برائے تنقید کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ عزت اور شہرت اللہ کی طرف سے ملتی ہے – اگر اللہ کسی کو دینا چاہے تو کوئی چھین نہیں سکتا۔‘‘

جاوید شیخ نے لاہور کے ایک ڈاکٹر کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اس نے ’لو گرو‘ فلم، ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کے خلاف زہر اگلا تھا، حتیٰ کہ عمر کے حوالے سے توہین آمیز تبصرے کیے تھے۔ لیکن اس کی غیر منصفانہ تنقید کا کیا نتیجہ نکلا؟ فلم نے 60 ملین سے زائد کمائی کر لی۔ بعد میں پتہ چلا کہ ڈاکٹر کو ڈائریکٹر سے ذاتی نفرت تھی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’’راجہ رانی فیصل قریشی کا پروجیکٹ ہے، نادیہ خان جو چاہے کہتی رہے۔ اصل نقاد تو ناظرین ہوتے ہیں۔ یہی لوگ کسی پروجیکٹ کو پاس یا فیل کراتے ہیں۔‘‘

جاوید شیخ نے کہا کہ یہ ٹی وی ریویو کرنے والے جو اداکاروں کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کا کوئی حقیقی اثر نہیں ہوتا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جن چینلز پر یہ ظاہر ہوتے ہیں، وہ انہی اداکاروں کا مذاق اڑانے والے مواد سے چلتے اور کماتے ہیں۔

جاوید شیخ جنہیں زندگی گلزار ہے، چیف صاحب، طیفا اِن ٹربل اور نامعلوم افراد جیسی کامیاب فلموں اور ڈراموں پر عوام کی بے پناہ محبت حاصل ہے، فی الحال اپنی نئی پروڈکشنز راجہ رانی اور میری تنہائی کے لیے بھی تعریفیں سمیٹ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اچھا فنکار اپنے کام سے خود کو منواتا ہے، نہ کہ نقادوں کے تبصروں سے۔

یہ انٹرویو ناظرین کے درمیان کافی مقبول ہوا ہے جن کا ماننا ہے کہ صنعت کو اس قسم کے تجربہ کار فنکاروں کی رہنمائی کی ضرورت ہے جو غیر معیاری تنقید کا مقابلہ کر سکیں۔ جاوید شیخ کے الفاظ نے نہ صرف نادیہ خان اور عمر عدیل کی تنقید کو بے بنیاد ثابت کیا ہے بلکہ ان تمام نام نہاد نقادوں کے لیے بھی واضح پیغام ہے جو فنکاروں کی محنت کو کم تر دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: جاوید شیخ نے نادیہ خان خان اور

پڑھیں:

کورنگی انڈسٹریل ایریا؛ ایک طویل سڑک، کئی سوالات

کچھ عرصہ پہلے میرا دفتر شارع فیصل پر تھا اور رہائش ملیر میں، لیکن اب دفتر ڈیفنس فیز 8 منتقل ہوچکا ہے، اور میرا روزانہ کا راستہ کورنگی انڈسٹریل ایریا سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ وہ طویل، مصروف اور اہم سڑک ہے جو قیوم آباد، جام صادق پل سے شروع ہوتی ہے اور داؤد چورنگی تک جاتی ہے۔

کراچی کا کورنگی انڈسٹریل ایریا ایک اہم صنعتی زون ہے جہاں ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے قائم ہیں۔ روزانہ لاکھوں افراد اسی علاقے کا رخ کرتے ہیں، چاہے ملازمت کےلیے ہوں یا کاروباری مقاصد کے تحت۔ لیکن اس صنعتی ترقی کے سائے میں ایک ایسا بحران پنپ رہا ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور وہ ہے ٹریفک کا سنگین مسئلہ۔

کورنگی انڈسٹریل ایریا کی مرکزی شاہراہ ایک طویل، چوڑی تین رویہ سڑک ہے جو قیوم آباد، جام صادق پل سے شروع ہو کر مرتضیٰ چورنگی اور پھر داؤد چورنگی تک جاتی ہے۔ اس راستے میں بروکس، شان، ویٹا، بلال، سنگر اور مرتضیٰ چورنگیاں واقع ہیں۔ ان تمام چورنگیوں پر دن بھر ٹریفک کا شدید دباؤ رہتا ہے۔

یہ روڈ شہر کے مختلف حصوں سے آنے والے ہزاروں موٹر سائیکل سواروں، رکشہ، چنگچی، بسوں، پرائیویٹ گاڑیوں، اور بھاری ٹرکوں کی گزرگاہ ہے۔ لیکن سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اتنے اہم راستے پر نہ کوئی پیڈسٹرین برج ہے، نہ ٹریفک سگنلز، نہ ٹریفک پولیس کی موجودگی۔ 

عوام اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سڑک پار کرتے ہیں۔

چورنگیاں عمومًا وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں چاروں سمت سے ٹریفک آتا ہے۔ یہاں ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کےلیے خصوصی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کورنگی انڈسٹریل ایریا کی چورنگیاں لاوارث دکھائی دیتی ہیں۔ نہ کوئی سگنل، نہ ٹریفک پولیس، نہ پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی محفوظ راستہ۔ نتیجتاً یہاں حادثات معمول بن چکے ہیں۔

شام کو جب فیکٹریوں سے ورکرز نکلتے ہیں تو صورتحال اور بھی سنگین ہو جاتی ہے۔ فیکٹری کی بسیں سڑک کے کنارے کھڑی ہوجاتی ہیں تاکہ ورکرز ان میں سوار ہوسکیں۔ اس وجہ سے تین رویہ سڑک عملاً دو یا ایک رویہ رہ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بھاری گاڑی درمیان میں رک جائے تو پورا ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ کسی قسم کی ٹریفک مینجمنٹ یا قانون نافذ کرنے والا ادارہ نظر نہیں آتا۔

انڈسٹریز کی بسیں جو سڑک کے ایک طرف قطار میں کھڑی ہوتی ہیں، نہ صرف ٹریفک کا بہاؤ متاثر کرتی ہیں بلکہ حادثات کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔ یہ بسیں اچانک روڈ پر موو کرتی ہیں اور اس عمل سے باقی ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اکثر رکشہ اور چنگچی جیسے چھوٹے موٹرز بیچ میں پھنستے ہیں، اور کبھی کبھار تو جھگڑے تک نوبت آ جاتی ہے۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اربوں روپے کمانے والے صنعتی ادارے اپنی سڑکوں، اپنے ورکرز اور عام شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ وہ اگر چاہیں تو:

ورکرز کی بسوں کے لیے فیکٹری حدود کے اندر پک اینڈ ڈراپ پوائنٹس بنا سکتے ہیں۔

پیڈسٹرین برج تعمیر کروا سکتے ہیں۔

روڈ کو سیل کیا جائے تا کہ کوئی درمیان سے کراس ہی نہ کر سکے؟

چورنگیوں پر سگنلز اور ٹریفک کنٹرول سسٹم نصب کروا سکتے ہیں۔

یہ صرف صنعتی اداروں کی نہیں بلکہ حکومت اور بلدیاتی اداروں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ عوامی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ ٹریفک کنٹرول، پیدل چلنے والوں کے لیے پل، سڑکوں پر روشنی اور ٹریفک پولیس کی مستقل موجودگی بنیادی ضروریات ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

ہم کب جاگیں گے؟ ہمیں اس وقت جاگنا ہوگا جب حادثہ ہوچکا ہوگا؟ یا ہم بطور شہری، ادارے، اور حکومت، آج ہی ان خامیوں کی اصلاح کریں گے؟ شہری زندگی کا تحفظ صرف حکومت کی نہیں، ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔

اگر ہم نے ٹریفک قوانین، پیدل چلنے والوں کی حفاظت، اور سڑکوں کی منظم پلاننگ پر توجہ نہ دی، تو یہ خاموش خطرات ایک دن بہت بلند آواز میں ہمیں جگائیں گے، شاید بہت دیر ہوچکی ہو۔ یہ وقت ہے عملی اقدامات کا، تاکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں جانیں صرف لاپرواہی کی بھینٹ نہ چڑھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت نے دوبارہ کوئی حرکت کی تو ایسا جواب ملے گا کہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا، وزیراعظم شہباز شریف
  • جو آج کاٹ رہے ہیں، وہ کل خود بویا تھا ، عرفان صدیقی کی پی ٹی آئی پر سخت تنقید
  • اعظم سواتی کانام کسی اسٹاپ لسٹ میں نہیں ہے. ایف آئی اے کاپشاور ہائیکورٹ میں جواب
  • اپنے اپنے مفادات کی سیاست
  • میں نے کوئی استعفیٰ نہیں دیا؛ خواجہ آصف
  • ایم کیو ایم اور قیدی 804 میں کوئی فرق نہیں، شرجیل میمن
  • بانی پی ٹی آئی کے گھر کی نیلامی کی خبروں  پر نیب کا ردعمل سامنے آ گیا
  • ایم کیو ایم اور قیدی 804 میں کوئی فرق نہیں، بدمعاشوں کو بدمعاشوں کی طرح جواب ملے گا، شرجیل میمن
  • کورنگی انڈسٹریل ایریا؛ ایک طویل سڑک، کئی سوالات
  • کپڑوں کا بینک