اسرائیل کا حماس کے بانی رہنما اور حزب اللہ کے سینئر کمانڈر کو شہید کرنے کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
اسرائیل کا حماس کے بانی رہنما اور حزب اللہ کے سینئر کمانڈر کو شہید کرنے کا دعویٰ WhatsAppFacebookTwitter 0 29 June, 2025 سب نیوز
اسرائیلی فوج نے حماس کے بانی رہنما حکم محمد عیسیٰ العیسیٰ اور حزب اللہ کے کمانڈر عباس الحسن وہبی کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے غزہ سٹی میں جھڑپوں کے دوران حماس کے ایک سینئر رہنما حکم محمد عیسیٰ العیسیٰ کو ہلاک کر دیا ہے۔
فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’حکم محمد عیسیٰ العیسیٰ حماس کے عسکری ونگ کے ایک سینئر رہنما تھے اور تنظیم کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں عیسیٰ نے غزہ کی پٹی میں حماس کی عسکری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اہم کردار ادا کیا، وہ اس کے عسکری ونگ کے بانیوں میں شامل تھے، تربیتی ہیڈکوارٹر کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے اور حماس کی جنرل سیکیورٹی کونسل کے رکن بھی تھے۔
فوج نے دعویٰ کیا کہ عیسیٰ نے 7 اکتوبر کے حملوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں بھی نمایاں کردار ادا کیا، تاہم حماس کی جانب سے ان دعووں پر تاحال کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا
دریں اثنا، اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان کے علاقے محرونا میں کیے گئے ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے ایک کمانڈر کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ’آج صبح اسرائیلی فوج نے ایک کارروائی میں عباس الحسن وہبی کو شہید کیا ہے، جو حزب اللہ کی ’رضوان فورس‘ بٹالین کے انٹیلیجنس چیف تھے۔
بیان میں عباس الحسن وہبی پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ حزب اللہ کو دوبارہ فعال کرنے اور اسلحہ منتقل کرنے کی کوششوں میں ملوث تھے، جو اسرائیل اور لبنان کے درمیان طے پانے والی مفاہمت کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل نے گزشتہ سال کے آخر سے لے کر اب تک حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر خلاف ورزیاں کی ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسب سے زیادہ افزودہ یورینییم رکھنے والی ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بنکر بسٹر استعمال نہیں کیے، اعلیٰ امریکی جنرل کے انکشافات سب سے زیادہ افزودہ یورینییم رکھنے والی ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بنکر بسٹر استعمال نہیں کیے، اعلیٰ امریکی جنرل کے انکشافات دبئی کے ولی عہد کھانا کھانے ریسٹورنٹ پہنچے اور جاتے ہوئے تمام افراد کا بل ادا کر کے سب کو حیران کر دیا ‘فلسطین کو آزاد کرو’ برطانیہ میں کنسرٹ کے دوران گلوکاروں نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل مخالف نعرے لگادیے محبت کی شادی پھر طلاق، تیونس سے آئی لڑکی کو سفارخانے نے اسلام آباد پہنچا دیا چین، ایک ماہ میں 93 ہزار میگاواٹ کے سولر پینلز لگانے کا نیا ریکارڈ قائم ہائبرڈ نظام نے ملک کی پاسپورٹ اور کریڈٹ رینکنگ بہتر کی: خواجہ آصفCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کو شہید کرنے کا دعوی اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے حماس کے کیا ہے
پڑھیں:
سید مقاومت۔۔۔۔۔ مکین قلوب
اسلام ٹائمز: سید مقاومت، شہید مقاومت، سردار عرب و عجم سید حسن نصراللہ ہر غیرت مند، ہر دردمند، ہر مظلوم، ہر مقاوم، ہر مزاحمت کار، ہر ولائی، ہر حسینی، ہر کربلائی کے دل میں مکین ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والوں کو ان دلوں سے نکالنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ شہادت پا کر فتح مند ہیں۔ وہ ٹنوں کے حساب سے بارود جھیل کر بھی زندہ ہیں۔ ان کی فکر زندہ ہے، ان کا نظریہ زندہ ہے، ان کا راستہ زندہ ہے، ان کا ہدف زندہ ہے، ان کا رہبر زندہ ہے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيۡهِۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ قَضٰى نَحۡبَهٗ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِيۡلًا ۞ "مومنوں میں کچھ ایسے (ہمت والے) مرد ہیں، جنہوں نے اس عہد کو سچا کر دکھایا، جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا۔ سو ان میں سے بعض نے (شہید ہوکر) اپنی نذر پوری کردی اور ان میں سے بعض منتظر ہیں اور انہوں نے (اپنے وعدہ میں) کوئی تبدیلی نہیں کی۔" وہ جب گفتگو کرتے تو ایسا لگتا کہ وارث منبر سلونی کی صدا ہے، جو دل میں اترتی جا رہی ہے۔ ان کے الفاظ، ان کا انداز، ان کی حرکیات، ان کے گفتگو کے اشارے ہر ایک تو بغور دیکھے، سمجھے جاتے اور ان کے مطالب نکالے جاتے، ان کی تشریحات کی جاتیں، ان کی ہر ایک بات، ہر ایک جملہ کی تفسیریں کی جاتیں۔۔۔ کبھی ایسا ہوتا کہ وہ سید الشہداءؑ کے مصائب بیان کرتے ہوئے گریہ کی کیفیت میں دکھائی دیتے، جبکہ ایک جہادی تنظیم کے سربراہ کے طور پر ان کا آنسو بہانا شاید بہت سوں کے نزدیک دشمن کو خوش کرنے کا موقع دینا سمجھا جاتا ہے، مگر یہ ان کی فکر باطل ہے، اس لیے کہ وہ جن کو اپنا رہبر و پیشوا مانتے تھے، وہ خود کئی ایک بار شہدائے کربلا کا تذکرہ گریہ کیساتھ کرتے اور سنتے ہیں۔
ان کی شخصیت کا اس سے بڑا اثر اور کیا ہو کہ وہ دنیا میں رہبر معظم امام خامنہ ای کے بعد دوسری شخصیت تھے، جن کے الفاظ کی قدر، ان کی منزلت، ان کی ارزش، ان کی اہمیت اور اثر پذیری تھی۔ ایسی ہی اثرپذیری و صداقت و سچائی جیسی ولی امر المسلمین کے الفاظ کی ہے، وہ ولی امر المسلمین کی طرح ایک آس تھے، ایک امید تھے، ایک اعتماد تھے، ایک آسرا تھے۔۔۔ جن لوگوں نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی۔۔۔ کیساتھ کام کیا ہے، ان سے وابستہ رہے ہیں، وہ اس دور کو یاد کریں تو میری اس بات کو بخوبی سمجھ اور درک کرسکتے ہیں۔ شہید مقاومت کی شخصیت پوری دنیا کے مقاومین کیلئے ایک اعتماد، ایک قرار، ایک امید، ایک یقین کی مانند تھی۔ اللہ نے انہیں جو عزت و شرف عطا کیا تھا، وہ کسی اور کے حصہ میں شاید ہی آئے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ۔۔ "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ" ﴿۲۹﴾انفال "اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔"
سید حسن نصراللہ نے اپنا عہد نبھایا، وہ عہد نبھانے والوں میں سے تھے، ان کا خالص ہونا، وہ تقویٰ کی اس منزل پہ فائز تھے، جہاں پر اللہ کریم اپنے متقی بندوں کو فرقان عطا کرتا ہے۔ فرقان یعنی حق و باطل میں تمیز، یعنی غلط و صحیح کا ادراک۔ لوگ ساری عمر گزار دیتے ہیں اور انہیں حق کے رستے کی پہچان و معرفت نہیں ہوتی، وہ اس راستے کی نا فقط معرفت رکھتے تھے بلکہ اس پر گامزن تھے اور اسی کے داعی تھے۔ ان کی ہر گفتگو، ہر تقریر، ہر خطاب میں ولایت فقیہ کا درس، اس سے تمسک، اس سے توسل اور اس سے برملا مرتبط ہونا ظاہر ہوتا تھا، جبکہ ہمارے ہاں لوگ اس کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں بلکہ ولی فقیہ کے اختیارات، ان کے مختلف ایشوز پر انہیں مشورے دے رہے ہوتے ہیں۔ سید مقاومت ایسے نا تھے، وہ ولی امر المسلمین کے مطیع تھے۔ انہوں نے اپنی جماعت اور لبنانی قوم کو جس مقام پر پہنچایا، اس کی بدولت انہیں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
بلا شبہ ان کی قربانی اہل فلسطین کیلئے تھی، وہ ہمیشہ ارض مقدس فلسطین کی ناجائز قابض اسرائیل سے آزادی کے متمنی اور اس کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم رکھتے تھے اور اسی پر گامزن تھے۔ جو شخص اسرائیل، جسے دنیا ایک عالمی طاقتور فوجی ریاست سمجھتی ہے، جس کے سامنے عرب و عجم لیٹ چکے ہوں، اس کی حیثیت مکڑی کے کمزور جالے سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کو عملی طور پر سید نے ثابت بھی کیا۔ کئی ایک ایسے مواقع ان کی زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں، جب انہوں نے اپنے اس خیال و قول کو عملی طور پر ثابت کیا ہے۔ بالخصوص قیدیوں کی رہائی کیلئے کی جانے والی جدوجہد کے وقت تو اسرائیل کی بے بسی کا تماشا بارہا دیکھا گیا۔ سید مقاومت سید حسن نصراللہ کی عجیب شخصیت تھی کہ وہ کسی حکومتی عہدے پر فائز نا تھے، مگر جب ان کا بیروت میں خطاب ہونا ہوتا تو اعلیٰ حکومتی عہدیدار، بعض ممالک کے سفیر، دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہ و سیاسی شخصیات فرنٹ لائن میں تشریف فرما ہوتے۔ در حالی کہ یہ خطاب اکثر اوقات کسی خفیہ مقام سے لائیو ہوتا تھا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہو کس قدر موثر و موثق تھے۔سید حسن نصراللہ شہید جنہیں آج بھی شہید لکھتے ہوئے عجیب سا لگ رہا ہے، عالم جوانی میں جب حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بنائے گئے، تب سے وہ اسرائیل و معاون ممالک و ایجنسیز کے نشانہ پر تھے۔ اللہ نے انہیں بارہا قاتلانہ حملوں اور سازشوں سے محفوظ رکھا۔ اس میں شک نہیں کہ جہاد و شہادت کو اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کیلئے شہادت کا تاج سر پر سجانا ہمیشہ زندگی کا اولین مقصد و خواہش ہوتی ہے۔ اس راہ کے راہی اس کیلئے تڑپتے ہیں، دعا و مناجات کرتے ہیں۔ نا وہ گھبراتے ہیں، نا ڈرتے ہیں، نا راستہ سے پیچھے ہٹتے ہیں۔ اس کے باوجود شخصیات کا چلے جانا تحریکوں، تنظیموں اور انقلابوں کیلئے کسی بھی طور سود مند نہیں ہوتا۔ بعض شخصیات اس مقام و منزلت پر فائز ہوتی ہیں کہ ان کا وجود مبارک ہی بہت سی برکات و الطاف الہیٰ کا باعث ہوتا ہے۔ ان کا نورانی وجود ہر ہر لمحہ تاریک راہوں میں روشن دیئے کی مانند راستہ بھٹکنے سے بچاتا ہے۔
سید حسن نصراللہ شہید کیلئے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم سب راہ استقامت، راہ القدس، راہ مقاومت کے راہی ان کے قدموں کے نشانوں پر چلتے ہوئے تاریک راستوں میں چل رہے تھے کہ ان کے وجود کو ناپید پایا ہے۔ ایک بار تو ہمیں ایسا لگا کہ منزل کھو دینگے، راستہ سے بھٹک جائیں گے، تاریکی اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھ پائوں مارتے مارتے ہمیں قرآن مجید کی آیہ مبارکہ کانوں میں پڑتی ہے۔ فرمان الہیٰ ہے: "یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ" ﴿۳۲﴾ "وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا، مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے، اگرچہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریں۔" اور پھر دوسری آیہ کریمہ۔۔ "وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ"، "اور نہ کمزوری دکھاؤ اور نہ غم کھاؤ، اگر تم کامل مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔" (سورہ آل عمران) اور یہ شعر بھی یاد آرہا ہے۔۔
قتل کرنا سہل سمجھے ہیں مرا صاحب چہ خوش
یہ نہیں سمجھے، دو عالم خوں بہا ہو جائے گا
بھلا کربلا کے اس حقیقی وارث کے جسم پر ٹنوں کے حساب سے بارود ڈالنے سے کیا ان کو دفن کرسکے ہیں، ہرگز نہیں، جس شان کے ساتھ سید کا جنازہ اٹھا، جس عظمت و سربلندی کیساتھ انہیں رخصت کیا گیا، جس محبت کیساتھ ان کی تدفین و تشیع ہوئی، بھلا وہ کسی کو نصیب ہوئی ہے۔
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
سید مقاومت، شہید مقاومت، سردار عرب و عجم سید حسن نصراللہ ہر غیرت مند، ہر دردمند، ہر مظلوم، ہر مقاوم، ہر مزاحمت کار، ہر ولائی، ہر حسینی، ہر کربلائی کے دل میں مکین ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی سوچ رکھنے والوں کو ان دلوں سے نکالنا ناممکن ہے۔ لہذا وہ شہادت پا کر فتح مند ہیں۔ وہ ٹنوں کے حساب سے بارود جھیل کر بھی زندہ ہیں۔ ان کی فکر زندہ ہے، ان کا نظریہ زندہ ہے، ان کا راستہ زندہ ہے، ان کا ہدف زندہ ہے، ان کا رہبر زندہ ہے۔