اسرائیل کے سابق ڈپٹی وزیراعظم کیجانب سے غزہ میں بھی "لبنان ماڈل" دہرانے کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
غاصب صیہونی رژیم کے روسی نژاد سابق نائب وزیر اعظم و سربراہ سیاسی جماعت نے غزہ کی پٹی میں جاری صیہونی رژیم کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگااتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ہمیں غزہ میں بھی وہی کچھ کرنا چاہیئے جو ہم نے لبنان میں کیا ہے اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی رژیم کی سیاسی جماعت "اسرائیل ہمارا گھر" کے سربراہ اور سابق ڈپٹی وزیر اعظم، ایویگڈور لائبرمین نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی سے تمام اسرائیلی قیدیوں کو بیک وقت واپس لایا جانا چاہیئے، چاہے یہ جنگ ختم کرنے کی قیمت ہی کیوں نہ ہو! ایویگڈور لائبرمین نے دعوی کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ کی پٹی میں جو امداد بھیج رہے ہیں، اس کے بدولت ہی حماس اب تک "زندہ" ہے۔ انتہاء پسند اسرائیلی سیاستدان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ غزہ میں ہماری حکمت عملی کیا ہے اور ابھی تک ہم وہاں کیا کر رہے ہیں! لائبرمین نے مزید کہا کہ ہمیں غزہ میں سمجھوتہ کر لینا چاہیئے اور غزہ میں بھی اسی طرح سے عمل کرنا چاہیئے کہ جس طرح سے ہم لبنان میں کر رہے ہیں!
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کیا ہے
پڑھیں:
سائنسدانوں نے لیبارٹری میں ننھا مگر مکمل ’انسانی دماغ‘ تیار کر لیا
دماغی تحقیق کی دنیا میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ امریکا کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک ایسا چھوٹا سا ’انسانی دماغ‘ لیبارٹری میں بنایا ہے جو نہ صرف دماغ کے کئی اہم حصوں سے جڑا ہوا ہے بلکہ اس میں ابتدائی خون کی نالیاں اور فعال اعصابی نیٹ ورک بھی موجود ہیں—بالکل ویسے جیسے انسانی جنین کے دماغ میں آغاز میں بنتے ہیں۔
یہ ماڈل سائنسدانوں کو آٹزم، شیزوفرینیا، الزائمر اور دیگر دماغی بیماریوں کو پہلے سے کہیں بہتر انداز میں سمجھنے اور ان کے علاج کی تلاش میں مدد دے سکتا ہے۔
کامیابی کے پیچھے کون ہے؟
اس منصوبے کی قیادت ڈاکٹر اینی کتھوریا نے کی، جو جانز ہاپکنز کے ڈپارٹمنٹ آف بایومیڈیکل انجینئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ دماغ کی نشوونما اور ذہنی امراض پر تحقیق کرتی ہیں۔
عام طور پر لیبارٹری میں بنائے جانے والے برین آرگنوئیڈز صرف دماغ کے ایک حصے پر مشتمل ہوتے ہیں، لیکن ڈاکٹر کتھوریا اور ان کی ٹیم نے ایک نیا ماڈل تیار کیا ہے—ملٹی ریجن برین آرگنوئیڈ (MRBO)—جس میں دماغ کے تمام بڑے حصے موجود ہیں اور آپس میں جُڑے بھی ہیں۔
یہ کیسے بنایا گیا؟
سب سے پہلے دماغ کے مختلف حصوں کے اعصابی خلیے اور باریک خون کی نالیاں الگ الگ پلیٹوں میں اُگائی گئیں۔ پھر ایک خاص بایولوجیکل گلو سے انہیں جوڑ دیا گیا۔ وقت کے ساتھ یہ حصے آپس میں مل گئے اور برقی سگنلز پیدا کرنے لگے، جیسے اصل دماغ میں ہوتا ہے۔
اصلی دماغ سے کتنی مشابہت ہے؟
اس ماڈل میں وہ تمام خلیے موجود ہیں جو ایک 40 دن کے انسانی جنین کے دماغ میں پائے جاتے ہیں، البتہ تعداد میں فرق ہے۔ حقیقی دماغ میں کھربوں نیورونز ہوتے ہیں جبکہ اس آرگنوئیڈ میں تقریباً 60 سے 70 لاکھ ہیں۔ اس میں ابتدائی ’بلڈ-برین بیریئر‘ بھی موجود ہے جو دماغ کو نقصان دہ مادوں سے بچاتا ہے۔
یہ تحقیق کیوں اہم ہے؟
ڈاکٹر کتھوریا کے مطابق انسانی دماغ کی اندرونی ترقی کو براہِ راست دیکھنا ممکن نہیں، لیکن یہ ماڈل ہمیں بیماریوں کے آغاز اور ان کے پھیلاؤ کو حقیقی وقت میں سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔
دماغی امراض کی دواؤں میں ناکامی کی شرح بہت زیادہ ہے—تقریباً 96 فیصد—کیونکہ زیادہ تر تحقیق جانوروں پر کی جاتی ہے، اور ان کا دماغ انسانی دماغ سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ یہ نیا ماڈل اس فرق کو کم کر سکتا ہے۔
مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے؟
اس ملٹی ریجن برین آرگنوئیڈ کی مدد سے:
دماغی بیماریوں کے ابتدائی مراحل کو سمجھنا ممکن ہوگا۔
نئی دواؤں کو ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
علاج کو مریض کی ضرورت کے مطابق ڈھالنا آسان ہو جائے گا۔
ڈاکٹر کتھوریا کا کہنا ہے کہ شیزوفرینیا، آٹزم اور الزائمر جیسے امراض دماغ کے ایک حصے کو نہیں بلکہ پورے دماغ کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ جان لیں کہ مسئلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے، تو بہتر علاج ممکن ہے۔
یہ ایجاد صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں، بلکہ دماغی امراض کی تحقیق اور علاج میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ دواؤں کے ٹرائلز کو تیز، سستا اور کامیاب بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
Post Views: 5