Jasarat News:
2025-08-16@23:03:27 GMT

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ میں اسرائیل کی بدترین دہشت گردی جاری ہے، پناہ گاہوں اور امدادی قافلوں پر بمباری کے نتیجے میں روزانہ ستر، اسی افراد شہید ہورہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی اسرائیلی بمباری سے 68 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ عرب میڈیا کے مطابق خان یونس میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر بھی فضائی حملے کیے گئے، اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں ایک پناہ گزین اسکول پر بمباری کی گئی، دیر البلاح میں الاقصیٰ شہدا اسپتال پر حملے میں درجنوں فلسطینی زخمی ہو گئے۔ دوسری جانب بچوں میں گردن توڑ بخار کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 35 ہوگئی ہے، نومولود بچے دودھ کے لیے بلبلا رہے ہیں، شیر خوار بچوں کی جان بچانے کے لیے انہیں دودھ کے بجائے دال کا شوربہ پلایا جارہا ہے، ایندھن کی بندش سے متعدد اسپتالوں میں ڈائیلائسز کی سہولت ختم ہوگئی، غذائی قلت کی وجہ سے اب تک 70 بچے شہید ہوچکے ہیں، غذائی قلت انسانی بحران کی شکل اختیار کر رہی ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق غذائی قلت سے شہید ہونے والے زیادہ تر پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہیں، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر فوری امداد نہ پہنچائی گئی تو آئندہ مہینوں میں 71 ہزار سے زائد بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے، قوامِ متحدہ کی رپورٹس میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ غزہ کی تقریباً 50 فی صد آبادی قحط زدہ حالات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یونیسف، ڈبلیو ایچ او اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ اگر انسانی امداد کے راستے فوری طور پر نہ کھولے گئے تو یہ صورتحال نہ صرف مزید جانیں لے سکتی ہے بلکہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس وقت غزہ کے اسپتال غذائی قلت سے متاثرہ بچوں سے بھرے ہوئے ہیں، جبکہ سرحد پر کھڑی امدادی گاڑیاں اسرائیل کی فوجی رکاوٹوں کے باعث اندر داخل نہیں ہو پا رہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ کا یہ بحران اب صرف انسانی ہمدردی کا معاملہ نہیں، بلکہ عالمی ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔ المناک صورتحال یہ ہے کہ غزہ میں انسانی المیہ رونما ہورہا ہے اور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی فوج نے ایران سے جنگ بندی کے بعد غزہ میں بڑے آپریشن کی تیاری شروع کر دی، صہیونی فوج نے شمالی غزہ کے گنجان آباد علاقوں کو فوری خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں آپریشن مکمل کرنے کے بعد وسطی علاقوں تک پھیلانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے وائٹ ہائوس کے سینئر حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کے اعلیٰ حکام رون دیرمر پر زور دیں گے کہ وہ غزہ پر حملے ختم کرنے اور باقی اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے معاہدے پر آمادہ ہوں۔ دوسری جانب مصر کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ کے لیے ایک نئے معاہدے پر کام کر رہا ہے، جس میں 60 روزہ جنگ بندی کے بدلے کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور محصور علاقے میں انسانی امداد کی فوری فراہمی شامل ہے۔ مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے مقامی ٹی وی چینل ’آن ٹی وی‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’ہم ایک پائیدار حل اور مستقل جنگ بندی کی طرف بڑھنے کے لیے کام کر رہے ہیں، دریں اثناء جنگ بندی کے حوالے سے حماس نے ایک جامع منصوبہ پیش کیا ہے، حماس کے سینئر رہنما اسامہ حمدان کا کہنا ہے کہ حماس نے ایک جامع منصوبہ پیش کیا ہے، جس کا مقصد غزہ پر جاری حملے رکوانا، سرحدی راستے کھولنا اور علاقے میں تعمیر ِ نو کا آغاز کرنا ہے۔ تاہم، ان کے مطابق اسرائیل کی ہٹ دھرمی اس معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اسامہ حمدان نے انکشاف کیا کہ نیتن یاہو نے چار ہفتے قبل ایک امن فارمولہ مسترد کر دیا، جو ثالثوں کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ اس فارمولے میں 60 دن کے لیے جنگ بندی اور اس کے بعد مستقل سیز فائر اور انسانی امداد کی بحالی کا منصوبہ شامل تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کا قیامت خیز منظر، عالمی برادری اور عالمی اداروں کے دامن پر ایک بد نماداغ ہے، انسانیت اور انسانی حقوق کے دعوؤں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے، پوری دنیا کے احتجاج، جنگ بندی کے مطالبوں اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے باوجود اسرائیلی جارحیت کے سد ِ باب کے لیے اگر اقدامات نہیں کیے جاتے تو اس کا صاف مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نسل کشی میں یہ سب برابر کے شریک ہیں، ایسے دوہرے معیارات کے ساتھ دنیا میں امن کے قیام کو خواب کبھی اور کسی طور شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، مغرب کی اسی روش کے نتیجے میں جب رد عمل پیدا ہوتا ہے تو اس کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جنگ بندی کے اسرائیل کی غذائی قلت کے مطابق کے لیے کیا ہے غزہ کے

پڑھیں:

انسانی سمگلنگ میں کھیل اور کھلاڑیوں کے استعمال کی روک تھام کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 اگست 2025ء) صومالیہ سے تعلق رکھنے والی سیدو کینیا کے کاکوما پناہ گزین کیمپ میں آئیں تو انہیں وہاں باسکٹ بال کھیلنے کا موقع ملا جو ان کے لیے مقامی لوگوں تک رسائی اور اعتماد پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوا۔

سیدو کہتی ہیں کہ کھیل نے انہیں اپنی شخصیت کی اہمیت کا احساس دیا۔ جب وہ کھیلتی ہیں تو اس سے ان کے کھیل کے حق کی توثیق ہوتی ہے اور انہیں بہت سے مواقع دکھائی دیتے ہیں۔

Tweet URL

دنیا بھر میں نوجوانوں کو کھیلوں سے یہی فائدہ ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

تاہم عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) کے تعاون سے شروع کردہ نئی مہم میں کھیلوں کی اربوں ڈالر کی صنعت کے ایک تاریک پہلو کو سامنے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کھیل کی دنیا میں بچوں کی سمگلنگ کا مسئلہ ہے اور 'آئی او ایم' اس کا خاتمہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔استحصال کی راہ

'آئی او ایم' کی نائب ڈائریکٹر جنرل یوگوچی ڈینیئلز کہتی ہیں کہ کھیلوں کو استحصال کا راستہ بننے کے بجائے خوشی اور کامیابی کا ذریعہ ہونا چاہیے۔

تاہم انسانی سمگلر نوجوان کھلاڑیوں کے عزائم کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے انہیں جھوٹے وعدے دلا کر بدسلوکی اور دھوکہ دہی پر مبنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انسانی سمگلنگ سے متعلقہ بدسلوکی کا سامنا کرنے والے دنیا بھر کے 50 ملین لوگوں میں سے 38 فیصد تعداد بچوں کی ہے۔ ان میں 11 فیصد بچوں کو جھوٹے وعدوں کے ذریعے سمگل کیا جاتا ہے۔

کھیلوں کی صنعت میں یہ دھوکہ کئی طرح کا ہوتا ہے جس میں بچوں کو کھیلوں کی جعلی اکیڈمیوں میں داخلے کا لالچ دے کر یا بناوٹی پیشہ وارانہ معاہدوں کے ذریعے پھانس کر سمگل کیا جاتا ہے۔

خواب اور جھوٹے وعدے

سیدو جیسے بہت سے نوجوانوں کے لیے کھیل اپنے غریبانہ پس منظر سے نکلنے کا راستہ ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سیدو کھیلوں کے بین الاقوامی پیشہ وارانہ مقابلوں میں مزید صومالی اور پناہ گزین خواتین کو شرکت کرتا دیکھنا چاہتی ہیں۔

وہ چاہتی ہیں کہ کاکوما میں باسکٹ بال کی کوئی اکیڈمی صومالی اور دیگر لڑکیوں سے بھری ہو۔ وہ صومالی لڑکیوں کو ڈبلیو این بی اے سطح پر باسکٹ بال کھیلتا دیکھنے کی خواہش مند ہیں جو امریکہ میں خواتین کے لیے اس کھیل کا سب سے بڑا مقابلہ ہے۔

تاہم، مہم کے مطابق، یہ خواب اور ان کھلاڑیوں کا پس منظر انہیں انسانی سمگلروں کے جھوٹے وعدوں کا شکار بھی بنا دیتا ہے۔

کھلاڑیوں کے تحفظ کی مہم

'آئی او ایم' نوجوان کھلاڑیوں کے استحصال کو روکنے کے لیے کام کرنے والے ادارے 'مشن 89' کے اشتراک سے یہ مہم چلا رہا ہے۔ اس میں 1.2 ٹریلین ڈالر مالیتی کھیلوں کی صنعت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو تحفظ دینے کے طریقہ کار کو مضبوط بنائے۔ اس میں کھلاڑیوں کو بھرتی کرنے کے طریقہ ہائے کار میں اصلاحات لانا اور پوری صنعت کو انسانی سمگلنگ کے خطرات اور نقصانات سے آگاہی دینا بھی شامل ہے۔

اس مہم کے تحت کھیلوں کی صنعت کے رہنماؤں کو انسانی سمگلنگ کی لعنت برداشت نہ کرنے کے وعدے کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔

مہم کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ کھیلوں کے ذریعے اچھے مستقبل کا خواب دیکھنے والے بچوں کو استحصال سے بچایا جائے اور انہیں اپنے مقصد کے حصول میں مدد فراہم کی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سیلابی ریلے سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع دالخراش اورافسوسناک سانحہ ہے ‘ نوازشریف
  • نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے: سپریم کورٹ
  • نظام انصاف میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کیا جائے، سپریم کورٹ
  • بلوچستان: اعتماد کا بحران
  • جائیداد نیلامی کیس، 14 سال زیر التوا، درخواست خارج کی جاتی ہے، سپریم کورٹ
  • پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کر دی
  • ’یہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ ظلم ہے‘، شہریوں کی چیتے کو گھسیٹنے کی ویڈیو وائرل
  • (سندھ بھر میں جشنِ آزادی )عمران خان کی رہائی کیلئے تحریک انصاف کی ریلیاں
  • انسانی سمگلنگ میں کھیل اور کھلاڑیوں کے استعمال کی روک تھام کا مطالبہ
  • سبز چین نے انسانی ترقی کے اہم سوال  کا جواب  دیا ہے، سی جی ٹی این سروے