کواڈ گروپ کی پہلگام حملے کی مذمت‘ ذمہ داروں کو بلا تاخیر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے. اعلامیہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔02 جولائی ۔2025 )امریکا، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ گروپ نے بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس دہشت گرد حملے کے ذمہ داروں کو بلا تاخیر انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے.
(جاری ہے)
اس حملے کے بعد دو ایٹمی طاقتیں بھارت اور پاکستان ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں آ گئے تھے، بھارت نے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا تاہم پاکستان نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا واشنگٹن میں ہونے والے اجلاس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کواڈ وزرائے خارجہ کا ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے جس میں پاکستان کا نام لیے بغیر دہشت گردی کی مذمت کی گئی.
بیان میں کہا گیا ہے کہ کواڈ دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کی تمام اقسام اور تمام صورتوں بشمول سرحد پار دہشت گردی کی بلاامتیاز مذمت کرتا ہے وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اس گھناﺅنے جرم کے مرتکب افراد اس کے منتظمین اور مالی معاونین کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور اس عمل میں کوئی تاخیر نہ کی جائے واضح رہے کہ بھارت امریکا کے لیے ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف ایک اہم شراکت دار بنتا جا رہا ہے جبکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا کلیدی اتحادی ہے. 7 مئی کو پاکستان نے پاکستانی سرزمین پر دہشت گردی کے نام نہاد مراکز پر حملے میں ملوث 6 بھارتی طیارے مار گرائے تھے اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان فضائی، میزائل، ڈرون اور آرٹلری حملوں کا تبادلہ ہوا تھا، جس میں دونوں جانب درجنوں افراد لقمہ اجل بنے تھے بعدازاں 10 مئی کو جنگ بندی ہوگئی تھی. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ممالک سے بات چیت اور تجارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکیوں کے بعد جنگ بندی ممکن ہوئی تاہم بھارت نے صدر ٹرمپ کے دعوے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی ان کی مداخلت کا نتیجہ نہیں تھی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے واشنگٹن میں کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ پاکستان اور بھارت کو اپنے مسائل کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر خود اور براہِ راست حل کرنا چاہئیں. انہوں نے کہاکہ تعلقات میں مسائل ہوتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہو اور مجموعی رجحان مثبت سمت میں گامزن رہے‘ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے دفاع کا اجلاس کسی مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے بغیر ختم ہو گیا تھا کیونکہ بھارت نے پہلگام حملے کا ذکر نہ ہونے پر اس بیان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کرتے ہوئے کے بعد
پڑھیں:
شمع جونیجو: وزارت خارجہ کٹہرے میں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251004-03-3
قاسم جمال
وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کے حالیہ دورہ امریکا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفد کے ساتھ اسرائیل کی حمایتی خاتون شمع جونیجو کی شمولیت نے پاکستان کی سیاست میں ایک نیا تہلکہ مچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر پر سیاسی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ سب کس کے اشارے پر ہوا ہے؟ ایک ایسے نازک موقع پر جب فلسطین کے حق میں دنیا بھر میں آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں پاکستانی وفد میں اسرائیل کی حمایتی خاتون کا وزیر داخلہ کے انتہائی قریب موجود ہونا ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ اس واقعہ نے پاکستان کی حکومت بالخصوص وزارت خارجہ کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے عوام یہ بات بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ واقعہ محض انتظامی غلطی تھی یا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نئے رخ کا عندیہ؟ متنازع شہرت کی حامل شمع جونیجو جو کہ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے لیے بے چین رہتی تھی۔ 19 اگست 2022 کو شمع جونیجو کا ٹویٹ موجود ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ اگر وہ اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگئی تو ان کے ساتھ اپنی تصویر میں اپنی ڈی پی میں لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں کروں گی اور یہ میرے لیے ایک اعزاز ہوگا۔ شمع جونیجو جو اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کا اعزاز تو نہیں مل سکا لیکن پاکستانی وفد میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا اعزاز انہیں ضرور مل گیا ہے۔ لوگوں نے جب شمع جونیجو کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی تحقیق کی تو علم ہوا کہ اس کے اسرائیل سے اتنے گہرے تعلقات ہیں کہ اسرائیلی وزارت خارجہ کا آفیشل ہیڈل جو بڑے بڑے امریکی سینیٹرکو بھی لفٹ نہیں کراتا وہ شمع جونیجو کی صحت یابی پر اسے مبارک باد دے رہا ہے۔
شمع جونیجو نہ صرف اسرائیل کی لابنگ کرتی رہی ہیں بلکہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد بھی وہ اسرائیل کی حمایت کررہی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیسے پہنچیں؟ وزیر دفاع کے بالکل پیچھے نشست کا اہتمام کس نے کیا تھا؟ شمع جونیجو اگر صحافی کی حیثیت اور کالم کی اشاعت کے لیے اجلاس میں شریک ہوئی تھیں تو انہیں مخصوص پریس گیلری میں نشست فراہم کرنا چاہیے تھی۔ شمع جونیجو جو انتہائی طاقتور خاتون سمجھی جاتی ہیں وہ وزیر اعظم کے خصوصی طیارے میں سفر کرتی ہیں۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ تک ان کی رسائی ہے اور طاقت ور حکمرانوں کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن خواجہ آصف نے صحافیوں کے سوال پر یکدم انہیں پہچاننے سے ہی انکار کردیا۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کا نام اگر شمع جونیجو کے ساتھ جڑ جائے گا تو وہ ساری زندگی اس داغ کو دھو نہیں سکیں گے۔ خواجہ آصف کی جانب سے شمع جونیجو کے بارے میں ہونے والی گھبراہٹ نے کی شمع جونیجو اسکینڈل کا پردہ فاش کیا ہے۔ شمع جونیجو کے بقول وہ پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان کے وزیراعظم کے لیے کام کررہی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے خود انہیں بطور ایڈوائزر اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا حصہ بنایا تھا اور انہیں اپنی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا تھا۔ تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں شمع جونیجو کی شرکت سے ایک سفارتی تنازع پیدا ہوگیا ہے اور شمع جونیجو شہباز شریف حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ وزارت خارجہ نے بھی صاف انکار کردیا ہے کہ شمع جونیجو کی شرکت سرکاری سطح پر ہوئی ہے۔ 24 ستمبر کو اقوام متحدہ کے 80 ویں سلامتی کونسل کے اجلاس میں مصنوعی ذہانت اور عالمی سلامتی کے خطرات کے موضوع پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کو تقریر کرنا تھا لیکن وہ اپنی دیگر اہم مصروفیات کے باعث اس سیشن میں شریک نہ ہوسکے اور ان کی جگہ یہ تقریر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی۔ ان کی بالکل پچھلی نشست پر شمع جونیجو کی موجودگی نے سوشل میڈیا پر ایک بھونچال پیدا کردیا ہے کیونکہ شمع جونیجو نہ پاکستان مشن کی رکن تھیں اور نہ کوئی منتخب عہدیدار ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی صحافیوں کے سوال کرنے پر شمع جونیجو سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ کون خاتون ہے اور ہمارے وفد میں کیوں ہیں۔ جبکہ خارجہ امور کے ذمے داران کا کہنا ہے کہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی منظورکردہ آفیشل لیٹر کی فہرست میں شمع جونیجو کا نام شامل نہیں تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو بھی وفد پاکستان سے جاتا ہے تو اس کی سمری دفتر خارجہ تیار کرتی ہے اور بعد میں وزیراعظم کی منظوری کے بعد وزارت خارجہ یہ نام اقوام متحدہ کو بھیجتی ہے اس کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے ان افراد کے نام سے پاس کیے جاتے ہیں۔ لیکن شمع جونیجو کا نام جب امور خارجہ کی جانب سے دی گئی فہرست میں ہی نہیں تھا تو اس خاتون کی شرکت کیسے ہوگئی ہے۔
بلاشبہ اسرائیل اور اس کے ایجنٹوں نے دنیا بھر کے اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اس کی تازہ مثال شمع جونیجو کی ہے جس کے صدر آصف زرداری، وزیراعظم میاں شہباز شریف، میاں محمد نواز شریف، اسحاق ڈار، خواجہ آصف ودیگر اہم وزراء کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے اور اسرائیل کے ایجنٹوں سے ہوشیار اور دور رہنا چاہیے۔ اسرائیل کے ایجنٹوں کی موجودگی میں اب ہماری سلامتی غیر محفوظ ہوگئی ہے اور عوام میں اضطراب اور بے چینی پھیلتی جا رہی ہے۔ حکمراں جتنا جلد ہوسکے شمع جونیجو جیسی عورتوں سے دور رہے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا ورنہ عوام کا اضطراب اور غصہ انہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا اور تاریخ میں وہ نشان عبرت بن جائیں گے۔