بنگلہ دیش: شیخ حسینہ واجد کو توہین عدالت پر 6 ماہ قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
بنگلہ دیش میں انٹرنیشنل کرائم ٹربیونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو عدالت کی توہین کے جرم میں 6 ماہ قید کی سزا سنا دی ہے، جبکہ گائبندھا سے تعلق رکھنے والے شکیل اکند بلبُل کو 2 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ فیصلہ بدھ کے روز جسٹس محمد غلام مرتضی مجمدر کی سربراہی میں 3 رکنی ٹربیونل نے سنایا۔
معاملے کی نوعیتیہ کیس 25 اکتوبر 2024 کو سامنے آنے والی ایک لیکڈ آڈیو کال پر مبنی ہے جس میں شیخ حسینہ واجد کو مبینہ طور پر 227 افراد کو قتل کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے سنا گیا۔ انہوں نے مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ ان کے پاس ‘227 افراد کو مارنے کا لائسنس’ ہے۔
یہ بھی پڑھیے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے شیخ حسینہ واجد سمیت 10 افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے
اس آڈیو کے منظرعام پر آنے کے بعد پراسیکیوشن نے باقاعدہ کیس درج کیا، اور ٹربیونل نمبر 1 میں آڈیو کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
عدالتی ریمارکسعدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ شیخ حسینہ واجد کے ریمارکس عدالت کے لیے براہ راست خطرہ تھے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ان کے پاس 227 افراد کو قتل کرنے کا لائسنس ہے۔ یہ بیان نہ صرف ریاستی اداروں بلکہ عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ ہے۔
عدم موجودگی میں ٹرائلشیخ حسینہ واجد اس وقت ملک سے فرار ہیں اور عدالت میں پیش نہیں ہوئیں۔ تاہم عدالت نے منصفانہ ٹرائل کے اصول کے تحت انہیں ریاست کی جانب سے سرکاری وکیل فراہم کیا۔
یہ بھی پڑھیے حاضر ہو یا غائب، حسینہ واجد کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا، ڈاکٹر یونس
واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی 15 سالہ حکمرانی کے خاتمے کے بعد وہ 5 اگست 2024 کو بھارتی فوجی طیارے کے ذریعے فرار ہوئیں اور اس کے بعد سے وہ بھارت میں کسی نامعلوم مقام پر روپوش ہیں۔
شریک ملزم شکیل اکند کی سزاشیخ حسینہ واجد کے ساتھ ساتھ گائبندھا کے رہائشی شکیل اکند بلبُل کو بھی عدالت کے خلاف تحقیر آمیز بیانات دینے پر 2 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
قانونی ماہرین کی رائےقانونی ماہرین اس فیصلے کو عدلیہ کی خودمختاری کی بحالی کی جانب اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ ایک واضح پیغام ہے کہ عدالت کو دھمکانے یا اس کی توہین کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی، چاہے وہ ملک کا کوئی بھی سابق حکمران ہو۔
یہ بھی پڑھیے بھارت قتل عام پر مقدمات میں مطلوب حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے، بی این پی
عدالتی ذرائع کے مطابق اگر شیخ حسینہ رضاکارانہ طور پر پیش نہیں ہوتیں تو بین الاقوامی سطح پر ان کی گرفتاری کے لیے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش توہین عدالت شیخ حسینہ واجد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش توہین عدالت شیخ حسینہ واجد شیخ حسینہ واجد ماہ قید کی سزا حسینہ واجد کو بنگلہ دیش یہ بھی
پڑھیں:
آمرانہ حکمرانی سے سزائے موت تک، شیخ حسینہ کا سیاسی سفر کیسا رہا؟
بنگلہ دیش کی برطرف سابق وزیراعظم شیخ حسینہ، جو کئی دہائیوں تک ملک کی سیاست پر چھائی رہیں، کو آج سزائے موت سنا دی گئی ہے۔
خود ان کی اپنی قائم کردہ خصوصی عدالت کے 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے مظاہروں سے متعلقہ 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنا دی۔
یہ بھی پڑھیے: انسانیت کیخلاف جرائم: بنگلہ دیشی عدالت نے حسینہ واجد کو سزائے موت سنا دی
شیخ حسینہ واجد نے 1996 سے 2001 تک اور پھر 2009 سے 2024 تک مسلسل 4 مرتبہ بطور وزیراعظم خدمات انجام دیں۔ ان کی 5ویں مدت، جو جنوری 2024 کے متنازع انتخابات کے بعد شروع ہوئی تھی، اُن کی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کے باعث مختصر رہ گئی، اور بالآخر انہیں استعفیٰ دے کر ملک چھوڑنا پڑا۔
ابتدائی زندگیحسینہ واجد بنگلہ دیش کے بانی رہنما اور پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے معمار شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہیں۔ 1947 میں پیدا ہونے والی حسینہ واجد 1960 کی دہائی کے اواخر میں جامعہ ڈھاکا میں تعلیم کے دوران وہ سیاست میں سرگرم رہیں اور اپنے والد کی جانب سے، ان کی پاکستانی حکومت کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران، سیاسی رابطہ کار کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔
1971 میں جنگ کے دوران بغاوت میں حصہ لینے پر انہیں اور ان کے خاندان کو مختصر مدت کے لیے حراست میں بھی رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: حسینہ واجد کیخلاف عدالت کا فیصلہ، سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے حامیوں کو کیا پیغام دیا؟
15 اگست 1975 کو، ان کے والد شیج مجیب، جو چند ماہ قبل بنگلہ دیش کے صدر بنے تھے، والدہ اور 3 بھائیوں کو چند فوجی افسران نے اُن کے گھر میں قتل کر دیا۔ اُس وقت حسینہ ملک سے باہر تھیں۔ وہ بعد میں 6 سال جلاوطنی میں رہیں، جس دوران انہیں عوامی لیگ کی قیادت کے لیے منتخب کیا گیا، جو وقت کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی۔
سیاست میں عروج1981 میں وطن واپسی پر وہ جمہوریت کی مضبوط وکیل بن کر ابھریں، جس کے باعث انہیں متعدد بار نظربند کیا گیا۔ وہ بالآخر پارلیمان میں قائدِ حزبِ اختلاف بنیں اور فوجی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھائی۔ حسینہ کی جانب سے دیے گئے الٹی میٹم اور عوامی دباؤ نے دسمبر 1990 میں فوجی حکمران لیفٹنینٹ جنرل حسین محمد ارشاد کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔
اقتدار1991 میں 16 سال بعد ہونے والے پہلے آزادانہ عام انتخابات میں حسینہ اکثریت حاصل نہ کر سکیں اور حکومت خالدہ ضیا اور ان کی جماعت، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)، کو مل گئی۔ حسینہ نے انتخابی دھاندلی کا الزام عائد کیا اور عوامی لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمان کا بائیکاٹ کیا، جس سے ملک میں شدید سیاسی بحران پیدا ہوا۔
بالآخر خالدہ ضیا نے نگران حکومت کے مطالبے کے آگے سر جھکا دیا، جس کے بعد جون 1996 میں ہونے والے انتخابات میں حسینہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیے: اگر پابندی نہیں ہٹی تو بنگلہ دیش میں الیکشن نہیں ہونے دیں گے، حسینہ واجد کے بیٹے کی دھمکی
اپنی پہلی مدت میں معاشی ترقی کے باوجود سیاسی ماحول شدید انتشار کا شکار رہا۔ 2001 میں وہ بنگلہ دیش کی پہلی وزیراعظم بنیں جنہوں نے 5 سالہ مدت مکمل کی، لیکن انتخابات میں انہیں شکست ہوئی، جسے انہوں نے دھاندلی قرار دیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
بعد کے برسوں میں سیاسی ماحول بدستور کشیدہ رہا۔ 2004 میں ایک جلسے میں ان پر دستی بم حملہ ہوا۔ 2007 میں ایمرجنسی کے دوران انہیں اور خالدہ ضیا دونوں کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ 2008 میں رہائی کے بعد انتخابات ہوئے جن میں عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی۔
وَن پارٹی حکمرانی
2009 میں وہ دوبارہ وزیراعظم بنیں۔ اسی مدت میں ان کے والد کے قاتلوں کو پھانسی دی گئی اور جنگی جرائم کے مقدمات کی پہلی خصوصی عدالت قائم ہوئی، جنہیں اپوزیشن نے سیاسی قرار دیا۔ واضح رہے کہ آج اسی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنا دی ہے۔
2017 میں روہنگیا پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر آمد پر بنگلہ دیش نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد فراہم کی، جسے عالمی سطح پر سراہا گیا۔ دوسری جانب اپوزیشن پر کریک ڈاؤن، گرفتاریوں، اظہارِ رائے کی پابندی اور جماعتِ اسلامی پر پابندی جیسے اقدامات پر سخت تنقید ہوئی۔ 2014 کے انتخابات بی این پی نے بائیکاٹ کیے جبکہ 2018 میں اسے بدترین شکست ہوئی، جسے حسینہ نے بی این پی کی کمزور قیادت کا نتیجہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے: شیخ حسینہ کے خلاف متوقع فیصلے سے قبل ڈھاکا سمیت 3 اضلاع میں فوجی دستے تعینات
جنوری 2024 کے انتخابات سے قبل اپوزیشن نے دعویٰ کیا کہ ان کے 20 ہزار سے زائد کارکن گرفتار کیے گئے۔ بی این پی نے نگران حکومت کے مطالبے کی عدم منظوری پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا، لیکن حسینہ نے انتخابات کو آزاد و منصفانہ قرار دیا اور عوامی لیگ نے 222 نشستیں جیت لیں، جس سے مبصرین نے ان کے دور کو عملی طور پر ‘ایک جماعتی نظام’ قرار دیا۔
زوالسیاسی بے چینی کا آغاز گزشتہ سال طلبا کے اُن مظاہروں سے ہوا جن میں سول سروس ملازمتوں کے انتخابی معیار میں اصلاحات، کوٹہ نظام کے خاتمے اور مکمل میرٹ پر مبنی نظام کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اگرچہ ان مطالبات کو بعد کی ہفتوں میں بڑی حد تک تسلیم کر لیا گیا، لیکن یہ احتجاج حکومت مخالف تحریک میں بدل گئے، جس کے نتیجے میں اگست کے اوائل تک حسینہ کے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
5 اگست کو بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ نے حسینہ کے استعفے کی تصدیق کی اور اعلان کیا کہ جلد ہی عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی۔ 5 بار وزیراعظم رہنے والی حسینہ واجد پرتشدد مظاہروں کے درمیان ایک ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ملک سے فرار ہوکر بھارت چلی گئیں۔
یہ بھی پڑھیے: شیخ حسینہ کو اپنے ہی قائم کردہ عدالت نے سزائے موت سنا دی
ان پر مظاہروں سے طاقت کے ذریعے نمٹنے اور مظاہرین کی ہلاکت سے متعلق مقدمات بنائے گئے۔ آج 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے انہیں 5 الزامات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنا دی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حسینہ واجد کو ڈھاکا میں 6 مظاہرین اور اشولیا میں 6 طلبا کے قتل میں ملوث پایا گیا، ان جرائم پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔
اس کے علاوہ مظاہرین پر مہلک ہتھیاروں جیسے ڈرونز اور ہیلی کاپٹرز کے استعمال کی اجازت دینے اور اشتعال انگیز بیانات دینے پر انہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ ان کے وکیل نے ان تمام الزامات کے رد کردیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
1971 کی جنگ shaikh hasina wajid Shaikh Mujee ur Rehman بنگلہ دیش ڈھاکا شیخ حسینہ واجد شیخ مجیب الرحمان