سپریم کورٹ بار کا پیٹرولیم مصنوعات اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ پر اظہارِ تشویش
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور چینی کی برآمد کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے عام آدمی پر معاشی بوجھ ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے صدر میاں رؤف عطا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی نئی لہر شروع ہو گئی ہے، جس سے عام آدمی براہِ راست متاثر ہوا ہے۔ حکومت فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لے۔
عوام کو بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں ملا: سپریم کورٹ بارمیاں رؤف عطا نے کہا کہ حالیہ وفاقی بجٹ میں مہنگائی کے مارے عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا بلکہ الٹا بنیادی اشیائے ضروریہ مہنگی کر دی گئیں۔
چینی کی برآمد ’غیر دانشمندانہ فیصلہ‘سپریم کورٹ بار نے حکومت کی جانب سے 5 لاکھ ٹن چینی کی برآمد کے فیصلے کو بھی غیر دانشمندانہ اور عوام دشمن قرار دیا۔ میاں رؤف عطا کا کہنا تھا کہ چینی کی درآمد اور پھر برآمد جیسے متضاد فیصلے مہنگائی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ چینی مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے پالیسی فیصلے نہ کیے جائیں۔ ان کی ناجائز خواہشات کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے عوامی مفاد کے خلاف ہیں۔
اسمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات کی ضرورتصدر سپریم کورٹ بار نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ چینی کی اسمگلنگ روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرے تاکہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی دستیابی اور قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔
حکومت سے پالیسی نظرثانی کا مطالبہسپریم کورٹ بار نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور ایسے فیصلے نہ کرے جن سے مہنگائی میں اضافہ اور عام شہری کی زندگی مزید مشکل ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ بار کی قیمتوں میں نے حکومت چینی کی کے لیے
پڑھیں:
مخصوص نشستیں کیس: آئین لکھنے کا اختیار نہیں، پی ٹی آئی کو بغیر فریق بنے ریلیف ملا، برقرار نہیں رہ سکتا: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، جس میں کہا ہے ہے کہ فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا۔ پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی، سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کرتے ہوئے اسے دوبارہ لکھنے کا اختیار نہیں۔ میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بنچ ہی سن سکتا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہو سکتا تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے سنی اتحاد کونسل اور اس کے چیئرمین کا کنڈکٹ قابل ستائش نہیں تھا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دو دن ابتدائی دلائل دئیے اور کیس میں تاخیر پیدا کرنے کیلئے دو درخواستیں دیں۔ پی ٹی آئی کے جن امیدواروں کو ریٹرنگ افسران نے آزاد قرار دیا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہیں نہیں کہا پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدواران نے غلط سمجھا کہ انھیں آزاد قرار دے دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواران سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط سمجھنے کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی ججز کا اقلیتی ججوں کو نکال کر اپنے طور پر خصوصی بنچ تشکیل دینا غیر قانونی ہے۔ ایسی کوئی مثال بھی نہیں ملتی، آئین میں دی ہوئی ٹائم لائن تو پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کر سکتا ہے۔