کراچی:

سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ عمران خان اپنے ہی لوگوں کی سیاست کے باعث جیل میں ہیں۔

وزیر اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ سندھ شرجیل انعام میمن نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ محرم الحرام کے لیے وزیراعلیٰ سندھ نے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ نے علمائے کرام سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جلوسوں کے لیے سندھ بھر میں 49 ہزار سے زائد پولیس اہلکار ڈیوٹی دیں گے۔ امن و امان قائم رکھنے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائیں جائیں گے۔چنگ چی رکشہ ایسوسی ایشن نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔حکومت سندھ نے قانون کے تحت 11 شاہراہوں پر چنگ چی رکشہ پر پابندی لگائی تھی۔انتظامی معاملات چلانا سندھ حکومت کی ذمے داری ہے۔ چنگ چی رکشوں  کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل سامنے آرہے تھے۔

شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ  محکمہ تعلیم نے 93 ہزار 118 اساتذہ کو بھرتی کیا ہے۔ بھرتی کا عمل شفاف تھا، ایک بھی بھرتی سفارش پر نہیں ہوئی۔ لاکھوں روزگار دینے والوں نے صرف نعرے لگائے اور عمل پیپلز پارٹی نے کیا۔ 93 ہزار خاندانوں کو روزگار بھی ملا ہے۔ 5 ہزار بند اسکول دوبارہ کھل چکے ہیں جب کہ 55 لاکھ بچے سرکاری اسکولوں اور 40 لاکھ بچے نجی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ پہلے 55 بچوں پر ایک ٹیچر کا ریشو تھا، اب 35 بچوں کے لیے ایک استاد میسر ہوگا۔ اساتذہ کی قلت اب ختم ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت بہترین طبی اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کررہی ہے۔ روزگار کی فراہمی میں بھی سندھ حکومت سب سے آگے ہے۔ 2100 افراد اقلیتوں کے کوٹے پر بھرتی ہوئے، 1330 خصوصی افراد کو بھی بھرتی کیا گیا۔ سوشل سیکٹر اور انفرااسٹرکچر کی بہتری میں بھی سندھ حکومت آگے ہے۔

شرجیل انعام میمن کا مزید کہنا تھا کہ جنہوں نے ملک و قوم کے لیے کچھ نہیں کیا، وہی الزامات کی سیاست کررہے ہیں۔ ایک سابق وفاقی وزیر جو کئی پارٹیوں میں رہ چکے ہیں وہ سیلاب کے وقت کے اعداد و شمار دے رہے ہیں۔ سیلاب کے بعد اسکولوں کی حالت بہتر کرنے میں وفاقی حکومت سے وہ مدد نہیں ملی جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔

کراچی میں ٹاؤنز سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر ٹاؤن کی الگ الگ کہانی ہے، ، ہر ٹاؤن نے غلط کام نہیں کیا۔ کچھ ٹاؤنز نے پیسے آتے ہی روڈ بنانے کا کام بروقت کرلیا مگر کچھ ایسا نہیں کر سکے۔ جہاں جہاں جس کی غلطی ہے اس پر احتساب ہونا چاہیے سیاست نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ کابینہ کے فیصلے کے تحت پارکنگ فیس ختم کردی گئی ہے۔ مزید کوئی چارجڈ پارکنگ نہیں ہوگی۔

سینئر صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کا کام صرف منفی سیاست اور تنقید ہے۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ فتنے والی سیاست کی ہے۔ ایم کیو ایم کو بہت درد ہے تو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے لیتے۔ ہم بانی پی ٹی آئی کی طرح کسی کو گالی نہیں دیں گے۔علی امین گنڈا پور کو اپوزیشن کی ضرورت نہیں ہے، پی ٹی آئی کو کسی اور سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی اپنے ہی لوگوں کی سیاست کی وجہ سے جیل میں ہیں۔

شرجیل میمن نے کہا کہ خیبرپختونخوا امن و امان کی بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے اور وہ اسے بہتر کرنے کے بجائے اسلام آباد پر چڑھائی کی باتیں  کرتے ہیں۔ احتجاج کا سب کو حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سڑکیں بند کردی جائیں۔ ریڈ زون کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سندھ حکومت کی سیاست انہوں نے نے کہا کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟

2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔

اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔

اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔

اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔

نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشنز کا منصوبہ
  • ن لیگ نے کبھی صوبائیت یا ڈیم کارڈ نہیں کھیلا، ہم قومی سوچ کی جماعت ہیں، عظمیٰ بخاری
  • الیکٹرک گاڑیوں کیلئے چارجنگ اسٹیشنز کے قیام پر اے ای آٹو کمپنی حکام کی سندھ کے وزراء سے ملاقات
  • الیکٹرک گاڑیوں کیلیے چارجنگ اسٹیشنز کا قیام، شرجیل میمن کی چینی کمپنی کے حکام سے ملاقات
  • ن لیگ نے صوبائیت اورڈیم کارڈ کبھی نہیں کھیلا، عظمیٰ بخاری کا شرجیل میمن کے بیان پر ردعمل
  • ن لیگ نے صوبائیت اور ڈیم کارڈ کبھی نہیں کھیلا، عظمیٰ بخاری کا شرجیل میمن کے بیان پر ردعمل
  • پنجاب حکومت کی جانب سے رضوان رضی کی حمایت میں مہم افسوسناک ہے، شرجیل میمن
  • شرجیل میمن اور ناصر شاہ کی یوٹونگ بس کمپنی کو سندھ میں سرمایہ کاری کی دعوت
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟