data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر کی زیرِ صدارت الیکٹرک وہیکل فنانسنگ اسکیم سے متعلق اہم اجلاس ہوا جس میں انشورنس اور مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں بیٹری چوری، انشورنس لاگت اور اینٹی تھیفٹ ٹیکنالوجی جیسے اہم پہلوؤں پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے جدید ٹریکنگ سسٹمز، لاکس اور محفوظ بیٹری حل متعارف کرا دیے گئے ہیں، جبکہ لیتھیئم آئن بیٹریاں پاکستانی موسم کے لیے سب سے زیادہ موزوں تصور کی جاتی ہیں۔ ہارون اختر نے کہا کہ الیکٹرک وہیکل مینوفیکچررز نے بیٹری چوری جیسے خدشات کافی حد تک کم کر دیے ہیں، اور اب انشورنس کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ منگل تک حکومت کو انشورنس ریٹس کی تجاویز پیش کریں، جو عوام کے مفاد میں ہوں اور مناسب قیمتوں پر ہوں۔

انہوں نے واضح کیا کہ وزیراعظم کے ویژن کے مطابق پاکستان میں ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے فروغ پر تیزی سے کام جاری ہے۔

یاد رہے کہ حکومت نے رواں سال جنوری میں الیکٹرک گاڑیوں کے چارجنگ اسٹیشنز کے لیے بجلی سستی کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ چارجنگ ٹیرف 71.

10 روپے سے کم کرکے 39.70 روپے کر دیا گیا ہے۔ وزیر توانائی سردار اویس لغاری نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ شہری روایتی ایندھن سے ہٹ کر الیکٹرک ٹرانسپورٹ کی طرف منتقل ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ چارجنگ اسٹیشن لگانے کی اجازت صرف 15 دن میں حاصل کی جا سکتی ہے اور کوئی بھی شہری 18 سے 20 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری سے اپنا اسٹیشن لگا سکتا ہے، یہاں تک کہ محلّوں میں چھوٹے اسٹیشنز بھی ممکن ہیں۔ ان کے مطابق ٹیرف میں 45 فیصد کمی کی گئی ہے اور الیکٹرک موٹر سائیکل استعمال کرنے کی صورت میں خرچہ 100 روپے سے بھی کم رہ جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق 800 سی سی گاڑی پر ماہانہ 600 روپے کی بچت ممکن ہو سکتی ہے۔

وزارتِ توانائی کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں کمی کا باعث بنیں گے بلکہ عام شہری کو معاشی ریلیف بھی فراہم کریں گے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

پنشن میں بڑی تبدیلی، وزارت خزانہ نے نئے شراکتی قواعد نافذ کر دیے

حکومت نے کچھ اختیاری تبدیلیوں کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ وفاقی ملازمین کو اپنی پنشن کے لیے تنخواہ کا 10 فیصد حصہ جمع کرانا ہوگا، تاکہ وہ عوامی خزانے کی جانب سے 12 فیصد وصول کرنے کے لیے اہل بن سکیں، یہ عمل نئے متعارف کرائے گئے ’کنٹری بیوٹری پنشن فنڈ اسکیم‘ کے تحت ہوگا، یوں کل مشترکہ حصہ 22 فیصد ہوگا، جو نئے شامل ہونے والے ملازمین کے لیے پرانے پنشن نظام کی جگہ لے گا۔

نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ (ایم او ایف) نے فیڈرل گورنمنٹ ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن (ایف جی ڈی سی) پنشن فنڈ اسکیم رولز 2024 جاری کر دیے ہیں، جو پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت بنائے گئے ہیں۔

یہ اسکیم والنٹری پنشن سسٹم رولز 2005 اور نان بینکنگ فنانس کمپنیز اینڈ نوٹیفائیڈ اینٹیٹیز ریگولیشنز 2008 کے مطابق ریگولیٹ کی جائے گی، یہ قواعد اگست 2024 کے اُس حکم نامے کی جگہ لیں گے جس میں حکومت کا حصہ 20 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔

20 اگست 2024 کو وزارتِ خزانہ نے پہلی بار سول حکومت اور مسلح افواج کے نئے بھرتی ہونے والے ملازمین کے لیے کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔

اُس وقت ملازمین کو اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد جمع کرانا تھا، جب کہ حکومت 20 فیصد حصہ ڈالنے کی پابند تھی، نئی اسکیم کا اطلاق اُن سول ملازمین پر ہوگا جو یکم جولائی 2024 یا اس کے بعد بھرتی ہوئے ہوں گے، جن میں سول ڈیفنس کے ملازمین بھی شامل ہیں، جب کہ مسلح افواج کے اہلکاروں پر یہ یکم جولائی 2025 سے نافذ ہوگا (جس کا نفاذ ابھی زیرِ التوا ہے)۔
حکومت نے 25-2024 کے بجٹ میں اس پنشن فنڈ کے لیے 10 ارب روپے اور 26-2025 کے لیے 4 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے ہیں تاکہ اس نئے نظام کو سہارا دیا جا سکے۔

یہ اسکیم بین الاقوامی مالیاتی اداروں، خاص طور پر ورلڈ بینک کی سفارش پر متعارف کرائی گئی ہے تاکہ بڑھتے ہوئے پنشن کے مالی بوجھ پر قابو پایا جا سکے، جسے حکومت نے ایک سنگین مالی خطرہ قرار دیا ہے، یہ نظام موجودہ ملازمین پر نافذ نہیں ہوگا بلکہ مستقبل میں پنشن کے اخراجات کی رفتار کم کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت کا پنشن خرچ 25-2024 میں 10 کھرب 5 ارب روپے ہونے کا تخمینہ ہے، جو 24-2023 کے 821 ارب روپے سے تقریباً 29 فیصد زیادہ ہے۔

مسلح افواج کے پنشن واجبات 26-2025 میں 742 ارب روپے تک پہنچنے کا اندازہ ہے، جو 24-2023 کے 563 ارب روپے میں 32 فیصد اضافہ ہے، سول ملازمین کے پنشن اخراجات موجودہ مالی سال کے لیے 243 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے 228 ارب روپے سے 6.6 فیصد زیادہ ہیں، اس سے اصلاحات کے باعث کچھ بچت ظاہر ہوتی ہے۔

نئے قواعد کے تحت صرف مجاز پنشن فنڈ منیجرز ہی اس فنڈ کو چلائیں گے، حکومت، بطور آجر ملازم کی پنشن کے قابلِ حساب تنخواہ کا 12 فیصد حصہ اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر کے ذریعے جمع کرائے گی، جو ریکارڈ رکھنے اور فنڈز کی منتقلی کی نگرانی بھی کرے گا۔

اکاؤنٹنٹ جنرل پنشن اکاؤنٹس کی تفصیلات کی تصدیق کرے گا، اور تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے ملازم اور آجر دونوں کے حصے ’ایمپلائر پنشن فنڈ‘ میں منتقل کرے گا، ملازمین اپنی تنخواہ سے 10 فیصد حصہ خود جمع کرائیں گے۔

ملازمین ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنی پنشن رقم نہیں نکال سکیں گے، ریٹائرمنٹ پر وہ زیادہ سے زیادہ 25 فیصد رقم نکال سکتے ہیں، جب کہ باقی رقم کو والنٹری پنشن سسٹم رولز 2002 کے تحت کم از کم 20 سال یا 80 سال کی عمر تک سرمایہ کاری میں رکھا جائے گا، جو بھی پہلے آئے۔

ملازمین کی سیلری سلپ میں تفصیلی معلومات شامل ہوں گی، جن میں ملازم کا حصہ، آجر کا حصہ، اور کل جمع شدہ رقم کی تفصیل درج ہوگی۔
وزارتِ خزانہ حکومت کے حصے کے لیے سالانہ بجٹ الاٹ کرے گی اور ایسے پنشن فنڈ منیجرز سے معاہدے کرے گی جو الیکٹرانک ٹرانسفر سسٹم کو سپورٹ کرتے ہوں، ان معاہدوں میں وفات یا معذوری کی صورت میں انشورنس کوریج بھی لازمی ہوگی، جو فنڈ منیجرز کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔

نظام کے نفاذ اور نگرانی کے لیے وزارتِ خزانہ ایک نان بینکنگ فنانس کمپنی (این بی ایف سی) قائم کرے گی، جو باضابطہ قیام تک عبوری طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دے گی۔

ریٹائرمنٹ، برطرفی، استعفے یا قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی صورت میں ملازم کی پنشن کی رقم کا تعین حکومت کے جاری کردہ قواعد کے مطابق کیا جائے گا۔

یہ نئی پنشن فنڈ اسکیم روایتی مقررہ فائدے (ڈیفائنڈ بینیفٹ) نظام سے ایک بڑے مقررہ شراکتی (ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن) ماڈل کی طرف ایک اہم تبدیلی ہے، جس کا مقصد مالیاتی پائیداری کو بہتر بنانا اور مستقبل کے سرکاری ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد تحفظ فراہم کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیوزی لینڈ کا مقامی دفاعی شعبے کو فروغ دینے کا اعلان
  • امریکی ٹیرف: انڈیا واٹس ایپ اور مائیکروسافٹ کے متبادل دیسی ایپس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں
  • پنشن میں بڑی تبدیلی، وزارت خزانہ نے نئے شراکتی قواعد نافذ کر دیے
  • آئی ایم ایف سیلاب کیلئے بجٹ میں 500 ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کو تیار
  • جرمن شہر بون میں افغان قونصل خانے کے عملے کا اجتماعی استعفا
  • ہمارا خطہ مشترکہ انفراسٹرکچر کے ذریعے تعاون اور ترقی کو فروغ دینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے، اسحاق ڈار
  • پنجاب میں وہیکل ایمیشن ٹیسٹنگ کی مفت سہولت ختم کردی گئی
  • پاسپورٹ بنوانے کے خواہشمند افراد ہو جائیں ہوشیار ، جعلسازوں کا نیٹ ورک سرگرم
  • پنجاب میں سیلاب متاثرین کیلیے 1857 ٹیمیں سرگرم، صوبے کی تاریخ کا سب سے بڑا سروے جاری
  • ای بائیکس اسکیم کے تحت قرعہ اندازی، 41 ہزار درخواست گزار کامیاب قرار