امریکی صدر ٹرمپ کا ’بگ بیوٹی فل بل‘ کیا ہے؟ 55 فیصد امریکی کیوں مخالف ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ’بگ بیوٹی فل بل‘ ایوانِ نمائندگان سے منظور ہو گیا ہے۔ ممکنہ طور پر آج 4 جولائی کو منعقدہ ایک تقریب میں ٹرمپ اس بل پر دستخط کریں گے۔
ریپبلکن پارٹی کے اندرونی اختلافات، سوشل پروگرامز میں کٹوتیوں اور اخراجات کے حوالے سے تنازع کے باوجود بل منظور کر لیا گیا۔ امریکی سینیٹ میں بل کی منظوری کے دوران نائب صدر جے ڈی وینس کو فیصلہ کن ووٹ ڈالنا پڑا۔
’بگ بیوٹی فل بل‘ پر امریکا میں خوب تنازعہ دیکھنے میں آیا۔55 فیصد امریکی اس بل کے خلاف تھے۔ آخر اس بل میں ایسا کیا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت اس بل کی مخالفت کر رہی ہے؟ انہیں کیا خوف لاحق ہے؟
کانگریشنل بجٹ آفس کے مطابق یہ قانون اگلی دہائی میں وفاقی خسارے میں 3.
بل میں صدر ٹرمپ کے پہلے دور کے ٹیکس قوانین کو مستقل کرنے کی شق شامل ہے۔ ان کٹوتیوں کا فائدہ زیادہ تر کارپوریشنز اور امیر طبقے کو پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ تنہا اور شادی شدہ افراد کے لیے اسٹینڈرڈ ڈیڈکشن میں بالترتیب $1,000 اور $2,000 کا اضافہ کیا گیا ہے، جو 2028 تک نافذ رہے گا۔
میڈیکیڈ میں سخت کٹوتیاںمیڈیکیڈ پروگرام میں سخت تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، جن میں افراد کے لیے کم از کم 80 گھنٹے کام کی شرط شامل ہے۔ اس کے علاوہ، دوبارہ اندراج کا عمل ہر سال کے بجائے ہر 6 ماہ بعد ہوگا۔ اس پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کو اضافی آمدنی اور رہائش کے ثبوت بھی درکار ہوں گے۔ ان اقدامات سے تقریباً 1.2 کروڑ افراد صحت کی سہولت سے محروم ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ میڈیکیڈ پروگرام ایک سرکاری ہیلتھ انشورنس پروگرام ہے جو امریکا میں کم آمدنی والے افراد اور خاندانوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے ہے۔ یہ پروگرام وفاقی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے اشتراک سے چلایا جاتا ہے اور ہر ریاست میں اس کے قواعد و ضوابط قدرے مختلف ہیں۔
میڈیکیڈ ان افراد اور خاندانوں کے لیے ہوتا ہے۔ ان میں کم آمدنی والے افراد، بزرگ (65 سال یا اس سے زائد عمر)، معذور افراد، حاملہ خواتین، بچے اور نابالغ، بعض صورتوں میں کم آمدنی والے بالغ افراد( چاہے ان کے بچے نہ ہوں) شامل ہوتے ہیں۔
میڈیکیڈ کے تحت درج ذیل طبی خدمات فراہم کی جاتی ہیں:
ڈاکٹر سے معائنہ اور علاج، اسپتال میں داخلہ اور علاج، زچگی اور بچوں کی پیدائش کی خدمات، دوائیں (prescription drugs)، لیبارٹری اور ایکسرے ٹیسٹ ذہنی صحت اور بحالی خدمات، معذوری کی صورت میں طویل مدتی نگہداشت، بچوں کے لیے حفاظتی ٹیکے اور چیک اپس۔
یاد رہے کہ امریکا میں تقریباً 80 ملین افراد میڈیکیڈ کے ذریعے علاج حاصل کرتے ہیں۔
اب ٹرمپ کے منظور کردہ قانون کے تحت اس پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کو کچھ گھنٹے کام کرنا ہوگا یا پھر کچھ رضاکارانہ خدمات سرانجام دینا ہوں گی۔ ناقدین کہتے ہیں کہ نئے قانون سے لاکھوں افراد کا علاج متاثر ہو سکتا ہے۔
سوشل سیکیورٹی پر ٹیکس میں نرمیٹرمپ نے انتخابی مہم میں سوشل سیکیورٹی آمدنی پر ٹیکس ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جو مکمل طور پر پورا نہیں کیا گیا۔ تاہم، 65 سال سے زائد افراد کے لیے $4,000 تک کی ڈیڈکشن کی عارضی سہولت دی گئی ہے۔ سینیٹ نے $6,000 کی ڈیڈکشن کی بھی منظوری دی ہے، جو مخصوص آمدنی تک محدود ہو گی۔
ریاستی اور مقامی ٹیکس (Salt) میں نرمیسینیٹ نے ریاستی و مقامی ٹیکس کٹوتی کی حد کو $10,000 سے بڑھا کر $40,000 کر دیا ہے، تاہم یہ 5 سال بعد دوبارہ کم ہو جائے گی۔ ہاؤس میں اس پر اختلافات موجود نظر آئے، خاص طور پر شہری علاقوں کے ریپبلکن ارکان کی جانب سے۔
غذائی امدادی پروگرام (Snap) میں اصلاحاتSnap پروگرام کے لیے ریاستوں کو بھی اخراجات میں حصہ ڈالنے کی شرط شامل کی گئی ہے۔ ان ریاستوں پر 5% سے 15% تک بوجھ ڈالا جائے گا، جن کی ادائیگی میں غلطیوں کی شرح 6% سے زیادہ ہو گی۔
اوورٹائم اور ٹِپس پر ٹیکس میں نرمیبل میں ’ٹِپس پر کوئی ٹیکس نہیں‘ کی شق شامل ہے، جس کا صدر ٹرمپ نے اپنی مہم میں وعدہ کیا تھا۔ یہ سہولت ایک خاص حد تک کی آمدنی تک محدود ہو گی اور 2028 میں ختم ہو جائے گی۔
صاف توانائی مراعات میں کمیبل میں بائیڈن دور کے کلین انرجی ٹیکس کریڈٹس کو ختم کرنے کی شق شامل ہے، مگر سینیٹ نے ان کا خاتمہ بتدریج کرنے کی تجویز دی ہے۔ 2028 تک یہ مراعات مکمل طور پر ختم کر دی جائیں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا بِگ بیوٹی فل بل ڈونلڈ ٹرمپذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ب گ بیوٹی فل بل ڈونلڈ ٹرمپ شامل ہے کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔
دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔
حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔
جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔
ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔
لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔
امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟
کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔
ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔
امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔
سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔