ملک بھر میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کھولنے پر پابندی عائد
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت میں صدر پی ایم ڈی سی نے کہا کہ ملک بھر میں تین برسوں کے لیے نئے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کھولنے پر پابندی لگا دی گئی ہے جبکہ 5 اکتوبر کو ایم ڈی کیٹ پورے ملک میں ہوگا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کا اجلاس عامر ولیدالدین کی زیر صدارت منعقد ہوا، جہاں سینٹر ہمایوں مہمند نے پی ایم اینڈ ڈی سی ترمیمی بل پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ باقی بورڈز کی طرح پارلیمینٹیرئینز بھی پی ایم اینڈ ڈی سی بورڈ کا حصہ ہونے چاہئیں۔
پی ایم ڈی سی صدر نے کہا کہ پارلینٹیرئینزپی ایم اینڈ ڈی سی بورڈ کا حصہ نہیں بن سکتے اور پہلے بھی حصہ نہیں رہے ہیں، جس پر چئیرمین کمیٹی نے جواب دیا آپ غلط کہہ رہے ہیں پہلے اراکین پارلیمنٹ کئی بار بورڈ ممبر رہ چکے ہیں۔
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ہمارے جمہوری حالات اچھے نہیں ہیں کہ اراکین پارلیمینٹ کو بورڈ کا رکن بنایا جائے، میں بھی پی ایم اینڈ ڈی سی بورڈ کا حصہ نہیں ہوں، جہاں غلط ہوا ہے اسے پہلے ٹھیک کر لیں وہ زیادہ بہتر ہے، اگر پہلے یہ روایت رہی ہے تو اب اس کو بدل دینا چاہیے۔
چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ اس سے پہلے ایک رکن قومی اسمبلی اور ایک سینٹر بورڈ کا رکن ہوتا تھا۔
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ پاکستان میں میڈیکل کی فیلڈ اور ڈاکٹر پوری دنیا میں آج بھی اچھے سمجھے جاتے ہیں، 10 سال کے لیے نیشنل ایکریڈیشن ملی ہے، اس بورڈ میں سیاسی اثرات اور اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر پارٹی کا ممبر پی ایم ڈی سی بورڈ میں ڈالنا ممکن نہیں، میڈیکل کالجز میں ہر طرف سے دباؤ اور سفارشیں آتی ہیں، یہ بہت مشکل کام ہے، پی ایم ڈی سی میں پولیٹیکل ان پٹ کا اوور ڈوز ہو چکا ہے، ازراہ تفنن پر بات کر رہا ہوں لیکن سیاسی مداخلت بیش بہا رہی ہے اور اس کمیٹی میں رکن کے طور پر میں بھی شامل نہیں ہوں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ایسا نہیں سمجھتا کہ اگر کسی ادارے میں سیاسی لوگ شامل ہوں تو اسٹرکچر بدل جاتا ہے، پی ایم ڈی سی میں اگر سیاسی ان پٹ ہوتا تو یہ حالات نہ ہوتے، داخلوں کے مسائل، میڈیکل کالجوں کے ایشوز اور امتحانات کے معاملات سب ایسے نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ اس بل کو زیادہ جامع اور با مقصد بنانے کے لیے ایک موقع اور دیا جائے اور آئندہ کمیٹی تک مؤخر کیا جائے، مل بیٹھ کر پی ایم ڈی سی کے تحفظات دیکھے جائیں۔
ڈپٹی رجسٹرار ڈاکٹر امداد خشک نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ پی ایم ڈی سی کے مجموعی طور پر 15 اراکین ہیں، اس کمیٹی میں اب سینیٹر اور ایم این اے شامل نہیں ہیں۔
ایم ڈی کیٹ پر بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ ساڑھے تین گھنٹوں پر مشتمل 200 سوالات کا پیپر تھا، والدین کے اعتراضات کے بعد 180 سوال اور اب وقت تین گھنٹے کر دیا ہے، گزشتہ سال آوٹ آف سلیبس سوالات آنے کا مسئلہ آیا تھا، اس دفعہ 10 ہزار ایم سی کیوز کا پول ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ 5 اکتوبر کو ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ پورے ملک میں منعقد ہوگا۔
صدر پی ایم ڈی سی ڈاکٹر رضوان تاج نے کمیٹی کو بتایا کہ بہت زیادہ میڈیکل کالجز کھل رہے ہیں، فیکلٹی کی بھی کمی ہے اس لیے تین برس کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ابھی مزید کالجز نہیں کھولے جائیں گے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پی ایم اینڈ ڈی سی پی ایم ڈی سی ڈی سی بورڈ نے کہا کہ بورڈ کا کے لیے
پڑھیں:
قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا کا قانون نافذ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔آستانہ : قازقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے خلاف سخت قانون نافذ کرتے ہوئے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قازقستان نے خواتین اور کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، منگل کے روز نافذ ہونے والے ایک نئے قانون کے تحت اب زبردستی شادی پر مجبور کرنے والوں کو 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قازق پولیس کے مطابق یہ قانون خواتین اور نوجوانوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے اور جبری شادیوں جیسے غیر انسانی رواج کو روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے، اب اغوا کاروں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا، چاہے وہ متاثرہ کو رہا کریں یا نہ کریں۔
پولیس نے واضح کیا کہ ماضی میں دلہن کے اغوا کے واقعات میں ملزم اگر متاثرہ کو اپنی مرضی سے رہا کر دیتا تھا تو وہ قانونی کارروائی سے بچ سکتا تھا، لیکن اب اس قانون نے ایسی تمام رعایتوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، قازقستان میں جبری شادیوں سے متعلق درست اعداد و شمار کا فقدان ہے کیونکہ ملکی فوجداری قانون میں اس جرم کے لیے کوئی مخصوص دفعہ موجود نہیں تھی۔ تاہم، ایک رکن پارلیمان نے رواں سال انکشاف کیا کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران پولیس کو اس نوعیت کی 214 شکایات موصول ہوئیں، جو اس سماجی مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یہ قانون اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا جب 2023 میں خواتین کے حقوق کا معاملہ قازقستان میں سرخیوں کی زینت بنا۔ ایک سابق وزیر کے ہاتھوں اپنی اہلیہ کے قتل کے دلخراش واقعے نے معاشرے میں گہری بحث چھیڑ دی تھی، جس کے بعد خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون نہ صرف جبری شادیوں اور اغوا جیسے جرائم کی روک تھام کرے گا بلکہ قازق معاشرے میں خواتین کے وقار اور خودمختاری کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس قانون کی حمایت کریں اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں تاکہ متاثرین کو بروقت انصاف مل سکے۔