نظریہ زور پکڑ رہاہے کہ صدر آصف زرداری اور شہبازشریف اعزاز نہیں بوجھ ہیں، فی الحال اس نظریے کی جیت ہوئی جو سویلین سیٹ اپ کو ریاست کیلئے بہترین سمجھتے ہیں: سہیل وڑائچ
اشاعت کی تاریخ: 29th, July 2025 GMT
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں دبے لفظوں میں بڑا انکشاف کر دیاہے، ان کا کہناتھا کہ ایک نظریہ زور پکڑ لیاہے کہ صدر آصف زرداری اور شہباز حکومت ریاست کیلئے اعزاز نہیں بلکہ بوجھ ہیں ، کئی طاقتور لوگ سویلین حکومت کیخلاف نظریہ رکھتے ہیں لیکن ان کو فیصلہ کن پوزیشن حاصل نہیں، فیصلہ کن طاقتور بھی سویلین حکومت سے زیادہ خوش نہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں سویلین سیٹ اپ کو چلانا ریاست کیلئے بہترین راستہ ہے ، وقتی طور پر اس نظریے کی جیت ہوئی ہے جو نظام کو چلانے کا حامی ہے ۔
پی آئی اے کا چوبرجی چوک میں کھڑے جہاز کی تزین و آرائش کا فیصلہ
سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں کہا کہ ویسے تو تضادستان میں نظریات کی یہ جنگ ساری تاریخ میں جاری رہی ہے مگر کئی بارکے تجربوں کے بعد ایک بار پھر تصادم سامنے آن کھڑا ہے۔ دراصل ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ سویلین ادارے، سیاستدان اور بیورو کریسی پاکستان کی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جبکہ اس کا متضاد نظریہ کہتا ہے کہ سب مل جل کر چلائیں گے تب ہی پاکستان آگے چلے گا۔
ان کا کہناتھا کہ بظاہر یہ نظریات کی لڑائی ہوتی ہے مگر ہر دور میں یہ نظریاتی لڑائی ، شخصی لڑائی میں تبدیل ہوتی رہی ہے اب بھی یہ لڑائی کسی نہ کسی شکل میں شخصی ہو جائےگی۔تضادستان کی اندرونی لڑائی جو آج کے دور کی جنگوں کی ماں کہلائے گی اس میں ایک طرف یہ نظریہ طاقت پکڑ رہا ہے کہ صدر مملکت آصف زرداری اور شہباز حکومت ریاست کیلئے اعزاز نہیں بلکہ بوجھ ہیں ،اس نظریے کے حامی حلقوں نے صدر زرداری اور شہباز حکومت کی غلطیوں، کوتاہیوں اور ناکامیوں کی ایک باقاعدہ چارج شیٹ بنا رکھی ہے اور کبھی نہ کبھی اس نظریے کے حامیوں کی زبان پر یہ آ بھی جاتا ہے کہ جب تک ریاست سے یہ سیاسی بوجھ اتارا نہیں جاتا اس وقت تک ریاست خوشحالی اور ترقی کی طرف سفر نہیں کر سکتی۔
ڈالر کی آج کے مطابق حقیقی قدر 243.
سہیل وڑائچ نے کہا کہ باوجود اسکے کہ کئی طاقتور لوگ سویلین حکومت کے خلاف بھی نظریہ رکھتے ہیں مگران کو فیصلہ کن پوزیشن حاصل نہیں، فیصلہ کن طاقت ور بھی سویلین صدر اور سویلین کابینہ سے بہت زیادہ خوش نہیں ہیں مگر وہ سمجھتے ہیں کہ سویلین سیٹ اپ کو چلانا اور انہیں ساتھ لے کر اجتماعی فیصلے کرنا ہی ریاست کیلئے بہترین راستہ ہے ،صدر کو سائیڈ لائن کرنے اور سویلین حکومت میں کیڑے نکالنے کا عمل شروع ہو چکا تھامگر اب وقتی طور پر اس نظریے کی جیت ہوئی ہے جو نظام کو چلانے کا حامی ہے۔
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: سویلین حکومت ریاست کیلئے سہیل وڑائچ زرداری اور اس نظریے فیصلہ کن
پڑھیں:
زائرین کے زمینی سفر پر پابندی
اسلام ٹائمز: ایسے زائرین کے وسائل محدود ہوتے ہیں اور وہ موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے کئی دنوں کو سفر طے کرکے نواسہ رسول کے روضہ اقدس پر حاضری دینے کی خواہش لئے بیٹھے تھے، جس پر حکومت پاکستان نے پانی پھر دیا۔ یاد رہے کہ ایک مرتبہ جب وزیر داخلہ محسن نقوی سے بلوچستان کے حالات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنا تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایس ایچ او کوئٹہ سے تفتان بارڈر کی سیکورٹی کیوں نہیں سنبھال لیتا۔؟ بہترین سیکورٹی اداروں اور مستعد انٹیلی جنس ایجنسیز کی موجودگی میں کیا دہشتگرد ماضی کے مقابلہ میں اس قدر قدرت مند ہوچکے ہیں کہ زائرین کے سفر پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔؟ رپورٹ: سید عدیل عباس
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت نے بے تکا فیصلہ کرتے ہوئے سکیورٹی وجوہات کو جواز بنا کر زمینی راستے سے اربعین کیلئے ایران اور عراق جانیوالے زائرین پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ منسٹری آف فارن افیئرز، بلوچستان حکومت اور سکیورٹی ایجنیسیز کیساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس سال زائرین اربعین زمینی راستوں سے ایران اور عراق نہیں جا سکیں گے۔ یہ مشکل فیصلہ عوام کی حفاظت اور قومی سلامتی کیلئے کیا گیا ہے۔ محسن نقوی نے مزید لکھا کہ البتہ زائرین بائی ایئر سفر کرسکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایئرلائن اتھارٹیز کو ہدایت کی ہے کہ وہ آنیوالے دنوں میں زائرین کیلئے زیادہ سے زیادہ پروازوں کا اہتمام کریں۔ یاد رہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں سمیت ماضی میں بلوچستان میں دہشتگردی موجودہ وقت سے بھی زیادہ رہی ہے، حتیٰ کہ ایران، عراق جانے والے زائرین کی بسوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، تاہم اس وقت بھی زائرین کے زمینی سفر پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔
حکومت نے کانوائے سسٹم متعارف کرایا اور سفر کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے اور اس حوالے سے زائرین اور شیعہ قیادت نے بھرپور تعاون کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ بلوچستان میں دہشتگرد سرگرم ہیں اور معصوم شہریوں سمیت سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، تاہم عوام کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ زائرین پر پابندی کے حکومتی فیصلہ کو مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے مسترد کر دیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی آرگنائزر سید ناصر عباس شیرازی نے کہا ہے کہ ’’زائرین کی راہ میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں، یہ پابندی محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں، بلکہ لاکھوں عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ زائرین کی راہ میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ مشکل حالات کے باوجود لاکھوں زائرین انہی راستوں سے سفر کرتے ہوئے زیاراتِ مقامات مقدسہ کیلئے جاتے ہیں۔ ناصر شیرازی نے کہا کہ وزیر داخلہ کے دورہ کوئٹہ سے توقع تھی کہ زائرین کو ریلیف دیا جائے گا، مگر محسن نقوی نے امریکہ و اسرائیل کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ ’’ہمیں وزارت داخلہ سے نوٹیفیکیشن ملا ہے کہ زائرین امام حسینؑ کو بعض سکیورٹی خدشات کی بناء پر بائی روڈ جانے سے منع کر دیا گیا ہے۔ مومنین حوصلہ کریں، صبر کریں، ہم وفاقی حکومت سے رابطہ کر رہے ہیں، محسن نقوی سے رابطہ کر رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے اور جو ان شاء اللہ زائرین کے حق میں سب سے بہترین فیصلہ ہوگا، اس کو ہم ان شاء اللہ آگے بڑھائیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد کرے۔‘‘ واضح رہے کہ حکومت نے یہ بھونڈا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب زمینی راستے سے جانے والے زائرین کی تیاریاں مکمل تھیں، ویزے لگ چکے تھے۔ زمینی راستے سے جانے والے شیعہ، سنی زائرین کا تعلق متوسط طبقہ یا پھر غریب گھرانوں سے ہوتا ہے اور وہ عشق اہلبیت علیھم السلام سے سرشار اپنی کئی مہینوں کی جمع پونجھی خرچ کرکے اربعین کے سفر عشق پر روانہ ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔
ایسے زائرین کے وسائل محدود ہوتے ہیں اور وہ موسم کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے کئی دنوں کو سفر طے کرکے نواسہ رسول کے روضہ اقدس پر حاضری دینے کی خواہش لئے بیٹھے تھے، جس پر حکومت پاکستان نے پانی پھر دیا۔ یاد رہے کہ ایک مرتبہ جب وزیر داخلہ محسن نقوی سے بلوچستان کے حالات کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’بلوچستان کے حالات ٹھیک کرنا تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایس ایچ او کوئٹہ سے تفتان بارڈر کی سکیورٹی کیوں نہیں سنبھال لیتا۔؟ بہترین سکیورٹی اداروں اور مستعد انٹیلی جنس ایجنسیز کی موجودگی میں کیا دہشتگرد ماضی کے مقابلہ میں اس قدر قدرت مند ہوچکے ہیں کہ زائرین کے سفر پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔؟ یہ کیسا وزیر داخلہ ہے کہ جو عشرہ محرم الحرام میں خود ماتم داری کرتے، نیازیں بانٹتے اور شبیہ ذوالجناح کی باگ تھامے نظر آتا تھا اور آج زائرین ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔؟ اگر کل خدانخواستہ ملک میں دہشتگردی مزید بڑھ جائے تو کیا مساجد پر تالے لگا دیئے جائیں۔؟
حکومت پر واضح ہونا چاہیئے کہ یہ زیارات اہلبیتؑ لوگوں کے مذہبی جذبات کا مسئلہ ہے، یہ کوئی تجارتی یا کاروباری مسافر نہیں، مشکلات میں گھری حکومت کو اپنے لئے مزید مسائل پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا اور خاص طور پر مذہبی معاملات میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے سابقہ ریکارڈز سے کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ کہیں اس پابندی کے پس پردہ کوئی اور محرکات نہ ہوں، کیونکہ ہر صورت حکومت کو اپنا یہ بھونڈا فیصلہ واپس لینا ہوگا، لیکن ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ کسی طبقہ کی توجہ ایسے ایشوز میں الجھا کر تبدیل کرنا اور اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر دوسری جانب ’’کوئی اور‘‘ اقدام خاموشی سے اٹھا لینے کی روایت رہی ہے۔ بہرحال صورتحال جو بھی ہو، حکومت کو اس فیصلہ پر فوری طور پر یوٹرن لینا ہوگا، بصورت دیگر اس بے تکے فیصلہ کے اثرات انتہائی دور رس ثابت ہوسکتے ہیں، جو کہ پہلے سے کئی مسائل میں گھرے وطن عزیز کیلئے کوئی نیک شگون ہرگز نہیں ہوگا۔