اسرائیلی طرزعمل درست نہ ہوا تو فلسطینی ریاست تسلیم کر لینگے، برطانیہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جولائی 2025ء) فلسطینی مسئلے کے پرامن اور دو ریاستی حل سے متعلق اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں جاری ہے جس کے دوسرے روز برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں ہولناک حالات کا خاتمہ نہ کیا تو وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
فرانس اور سعودی عرب کی خارجہ وزارتوں کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی اس کانفرنس کا انعقاد جنرل اسمبلی کی قرارداد 81/79 کی مطابقت سے عمل میں آیا ہے۔
اس کا مقصد فلسطینی مسئلے اور اس کے دو ریاستی حل سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد ممکن بنانے کے اقدامات کرنا ہے۔اس کانفرنس میں تنازع کے دونوں فریق شریک نہیں ہیں اور اسرائیل کے مضبوط حمایتی امریکہ کی جانب سے بھی شرکت کی توقع نہیں ہے۔
(جاری ہے)
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اپریل میں سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ دو ریاستی حل کا امکان سرے سے ختم ہونے کو ہے۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے درکار سیاسی عزم نظر نہیں آتا۔ تاہم، 5 جون کو صحافیون سے بات کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ جو لوگ دو ریاستی حل پر شبے کا اظہار کرتے ہیں ان کے پاس اس کا متبادل کیا ہے؟ کیا یہ ایک ریاستی حل ہو گا جس میں فلسطینیوں کو یا تو ان کے علاقوں سے نکال باہر کیا جائے گا یا وہ اپنی سرزمین پر حقوق کے بغیر رہیں گے؟انہوں نے یاد دلایا کہ دو ریاستی حل کو زندہ رکھنا اور اسے عملی صورت دینے کے لیے حالات کو سازگار بنانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔
برطانیہ کا اعلانبرطانیہ کے وزیر برائے خارجہ، دولت مشترکہ و ترقیاتی امور ڈیوڈ لیمے نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل کی حمایت کے لیے برطانیہ پر تاریخی حوالے سے خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، ان کا ملک بین الاقوامی عدالتوں کی آزادی کی حمایت میں کھڑا ہے جس نے اسرائیل کے متشدد آباد کاروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، اسرائیلی حکومت کے ساتھ تجارتی بات چیت کو معطل کر دیا ہے اور نفرت و تشدد کی ترغیب دینے پر اسرائیل میں دائیں بازو کے وزرا پر بھی پابندیاں لگائی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے دو ریاستی حل کو مسترد کرنا اخلاقی اور تزویراتی دونوں اعتبار سے درست نہیں۔ برطانیہ اس حل کو قابل عمل بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ اسی لیے ان کی حکومت ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر اسرائیل کی حکومت نے غزہ میں ہولناک حالات اور اپنی عسکری کارروائیوں کا خاتمہ نہ کیا اور دو ریاستی حل کی بنیاد پر طویل مدتی پائیدار امن قائم کرنے کے عزم سے گریز کیا تو اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
قیام امن کی بنیادی شرطجنوبی افریقہ کے وزیر برائے بین الاقوامی تعلقات و تعاون رونلڈ اوزے لامولا نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے وجود کو لاحق خطرات کی موجودگی میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ سلامتی کونسل کو انہیں تحفظ دینے کے اقدامات کرنا ہوں گے اور دو ریاستی حل کو قابل عمل بنانے میں بین الاقوامی قانون کے مکمل احترام کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے فلسطینی مسئلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی عدالت انصاف کی مشاورتی آرا پر فوری اور مکمل عملدرآمد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل ہی نہیں بلکہ تمام ممالک کو بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی اجتماعی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنا ہو گی اور ان قوانین کے تقدس کو برقرار رکھنا ہو گا۔
رونلڈ لامولا نے مزید کہا کہ اس کانفرنس کو عالمگیر توجہ حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کے قیام سے 80 برس بعد دنیا کا اجتماعی ضمیر خوابیدہ ہے۔ فلسطینی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان اقدار سے دوبارہ وابستگی کا ٹھوس عہد کرنا ہو گا جو تمام انسانوں کو آپس میں جوڑتی ہیں۔متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور خلیفہ شاہین المرار نے غزہ میں تباہ کن انسانی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک فلسطینیوں کو انسانی امدد پہنچانے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کرتا آیا ہے۔
اس نے زمین اور سمندر کے راستے امداد فراہم کرنے کے علاوہ فضا سے بھی امدادی سامان گرانے کا آغاز کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے کام کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب واضح اور ناقابل واپسی لائحہ عمل کی منظوری دینا ہو گی جس پر عملدرآمد قانوناً لازم ہو۔
انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینی مسئلے کو حل کیے بغیر گزرتا ہر دن زخموں کو گہرا اور امن کے امکانات کو معدوم کر دیتا ہے۔ مستقبل کا راستہ واضح ہے اور اب بہترین تزویراتی انتخاب کے طور پر امن کی جانب بڑھنے کے لیے صرف سیاسی عزم اور جرات کی ضرورت ہے۔
غیرمشروط جنگ بندیبنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں خارجہ امور کی وزارت کے مشیر توحید حسین نے کانفرنس سے خطاب کرتےہوئے کہا کہ 1971 میں ملک کی جنگ آزادی سے لے کر گزشتہ سال جولائی اور اگست میں برپا ہونے والی عوامی تحریک تک بنگلہ دیش کے لوگوں نے ہمیشہ اپنے حق خود اختیاری کے لیے جدوجہد کی ہے۔
انہوں ںے کہا کہ اسی میراث کی بدولت بنگلہ دیش کے لوگ فلسطینی عوام کی آزاد و خودمختاری ریاست کے لیے جائز خواہشات کی تکمیل کے مقصد میں ان کے ساتھ ہیں اور دو ریاستی حل پر بلاتاخیر عملدرآمد ہونا چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے محض الفاظ کافی نہیں بلکہ عالمی برادری کو غزہ میں فوری اور غیرمشروط جنگ بندی کا حصول اپنی ترجیح بنانا ہو گی اور علاقے میں انسانی امداد ی بڑے پیمانے پر بلارکاوٹ فراہمی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
ان ممالک کے نمائندوں کے علاوہ کانفرنس کے دوسرے روز ویتنام، روس، ایسٹونیا، اور جبوٹی کے مندوبین نے بھی خطاب کیا اور مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کا اعادہ کیا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور دو ریاستی حل فلسطینی مسئلے فلسطینی ریاست بین الاقوامی سے خطاب کرتے اقوام متحدہ ہوئے کہا کہ کرتے ہوئے ہے انہوں انہوں نے کرنا ہو کی جانب کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پرغور
اٹاوا(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 جولائی ۔2025 )کینیڈین حکام کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کررہے ہیں‘ فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ مشروط ہونا چاہیے یا نہیں یہ معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے برطانوی نشریاتی ادارے نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن وزیر اعظم مارک کارنی آج مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر بات چیت کے لیے کابینہ کے اہم ورچوئل اجلاس کی صدارت کریں گے جس میں اس معاملے پر غور کیا جائے گا.(جاری ہے)
واضح رہے کہ یہ رپورٹ اس کے فوراً بعد سامنے آئیں جب کارنی نے اپنے برطانوی ہم منصب کیئر اسٹارمر سے محصور غزہ کی صورت حال اور فلسطین کو تسلیم کرنے کے برطانیہ کے بیان پر گفتگو کی تھی قبل ازیں کینیڈا کی وزیر خارجہ انیتا آنند نے دو ریاستی حل کے لیے اوٹاوا کے عزم کو دہرایا تھا. انہوں نے کہا کہ تھا کہ صورتحال کی پیچیدگی کے باوجود، ہماری یہاں مشترکہ موجودگی ایک ایسے مذاکراتی حل کے لیے مضبوط عالمی حمایت کی عکاسی کرتی ہے جو فلسطینی خود ارادیت اور اسرائیلی سلامتی دونوں کو یقینی بنائے گزشتہ ہفتے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ پیرس ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران فلسطین کو تسلیم کرے گا. برطانوی وزیراعظم اسٹارمر نے بھی اسی موقف کو اپنایا اور کہا کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں قتل و غارت گری روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے تو ان کی حکومت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو تسلیم کرے گی اسرائیل نے برطانیہ کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حماس کے لیے انعام ہوگا یاد رہے کہ ابھی تک اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 149 فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں اور یہ تعداد اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کے آغاز کے بعد بڑھتی جا رہی ہے. فلسطین کے مسلے پر مغربی ممالک کی جانب سے کھل کر عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاہم عربوں سمیت مسلمان اکثریتی ممالک کی جانب سے مصلحت آمیزاور معذرت خواہانہ رویے پر اسلامی دنیا کے شہریوں میں بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ مسلمان ممالک خصوصا عرب امریکا کی جانب سے پیش کیئے جانے والے ”ابراہیمی معاہدے“پر دستخط کے لیے بے چین نظرآتے ہیں جس کا مقصد اسلامی دنیا کے اسرائیل کے بارے میں تاریخی موقف سے انخراف ‘اسے تسلیم کرنا اور سفارتی تعلقات قائم کرنا ہے.