لاہور میں سرکاری یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر طیب چوہدری کی جانب طالب علم کو بےعزت کرنے کی وائرل ویڈیو پر اداکارہ و میزبان مشی خان نے شدید درعمل دیا ہے۔

کامسیٹس یونیورسٹی لاہور کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر طیب چوہدری پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک طالب علم کو پوری کلاس کے سامنے لیپ ٹاپ نہ ہونے پر مبینہ طور پر تضحیک اور بےعزتی کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ گزشتہ دنوں پیش آیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے۔

سوشل میڈیا صارفین نے استاد کے رویے کو غیر اخلاقی اور تعلیم کے ماحول کے منافی قرار دیا جبکہ طالب علم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ 

A post common by Fazil.

(@wydfaxil)

سوشل میڈیا پر متاثرہ طالب علم کے ساتھیوں نے بتایا کہ پروفیسر نے نہ صرف اسے بےعزت کیا بلکہ زبردستی اس کے بھائی کو کال کروا کر لاؤڈ اسپیکر آن کر کے سب اسٹوڈنٹس کے سامنے اس کے بھائی کو بھی بےعزت کیا۔ 

ساتھی طالب علموں کے مطابق متاثرہ لڑکے پر اس پر واقعے کا گہرا اثر ہوا وہ اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا جبکہ طلبہ کے بعض حلقوں میں اساتذہ کے رویوں پر نظرِثانی کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ تاہم یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس وائرل ویڈٰیو پر اب تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

اس ویڈیو پر جہاں سوشل میڈیا صارفین کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے وہیں فنکار بھی اس پر اپنا ردعمل دے رہے ہیں، اداکارہ و میزبان مشی خان نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے انسٹاگرام پر اپنا ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کامسیٹس یونیورسٹی لاہور کے اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر طیب چوہدری پر شدید تنقید کی۔ 

A post common by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)

مشی خان نے کہا کہ نہ جانے اور کتنے طلبہ کو ایسے نام نہاد استاد کی تضحیک کو برداشت کرنا پڑتا ہوگا یہ پروفیسر 2015 سے اس سرکاری ادارے میں کام کر رہا ہے جس نے کلاس کے 50 سے 60 بچوں کے سامنے ایک طالب علم کو اس بات پر بےعزت کیا کہ اس کے پاس لیپ ٹاپ نہیں تھا۔ 

اداکارہ نے طالب علم اور پروفیسر کی بات چیت کو پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اس طالب علم نے بتایا بھی کہ گزشتہ برس اس کے والد انتقال کر گئے تب بھی پروفیسر نے اس کی تضحیک کرتے ہوئے کہا کہ کیا تمہارے گھر میں کوئی اور کمانے والا نہیں ہے۔ بھائی ہے یا وہ بھی انتقال کر گیا ہے۔ 

مشی خان کے مطابق اس کے بعد پروفیسر طیب چوہدری نے دیگر طالب علموں سے کہا کہ وہ ایک دوسرے سے خیرات جمع کریں تاکہ زکات خیرات کے پیسوں سے یہ طالب علم لیپ ٹاپ لے سکے۔ 

اداکارہ نے پروفیسر پر شدید تنقید کرتے ہوئے ملک کے تعلیمی نظام پر سوال اُٹھایا اور کہا کہ اس شخص جوکہ پڑھائی اور تعلیم کے نام پر ایک دھبہ ہے، نے یتیم بچے کو پوری کلاس کے سامنے بےعزت کیا، یہ کیسا تعلمی نظام ہے؟ 

 

TagsShowbiz News Urdu

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا طیب چوہدری بےعزت کیا طالب علم کے سامنے کہا کہ

پڑھیں:

تعلیم اور درسگاہوںکے مسائل

ملک اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ وفاقی بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں کمی کردی گئی جس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ وفاق اور صوبوں کی زیرِ انتظام یونیورسٹیوں میں مالیاتی بحران بڑھ گیا ہے مگر پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے کی بیوروکریسی کی شاہ خرچیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے ایچ ای سی کے حوالے سے یہ خبر ذرایع ابلاغ پر خوب اجاگر ہوئی کہ ایچ ای سی کی بااختیار اتھارٹی نے اپنے کنٹریکٹ ملازمین اور ان کی شریک حیات کے لیے ملازمت کے بعد ہیلتھ بینیفٹس جاری رکھنے کی منظوری دیدی ہے۔

ایچ ای سی کے 44 ویں اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پالیسی کے تحت کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین، عام ملازمین سے لے کر چیئرمین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سمیت اعلیٰ افسران جن کی ماہانہ تنخواہیں پانچ لاکھ اور اس سے زیادہ ہیں۔ اس پالیسی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ایک طرف تعلیمی بجٹ کی کمی کے باوجود یہ صورت حال ہے تو دوسری طرف وفاق اور صوبوں کی زیر نگرانی یونیورسٹیوں میں تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی بحران کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے آئین کے تحت اردو کو قومی زبان قرار دینے کے فیصلے کے تحت کراچی میں قائم وفاقی اردو کالجز کو وفاقی اردو یونیورسٹی کی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا تھا، یوں 2002 میں ایک اسپیشل آرڈیننس کے تحت وفاقی اردو یونیورسٹی قائم ہوئی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی 2017سے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ اردو یونیورسٹی کے 2017سے ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے ارکان واجبات سے محروم ہیں۔ موجودہ اساتذہ اور عملے کو بھی تنخواہ اور رینٹل سیلنگ الاؤنس نہ ملنے جیسے مسائل درپیش ہیں۔ ریٹائرڈ اساتذہ اور عملے کی کئی ماہ کی پنشن ابھی تک ادا نہیں ہوسکی۔ اس دوران اردو یونیورسٹی کے 10 ریٹائرڈ اساتذہ اور ریٹائرڈ عملے کے 5 اراکین انتقال کرچکے ہیں۔

گزشتہ 6 ماہ کے دوران حاضر سروس ایک سینئر خاتون پروفیسر اور ایک اسسٹنٹ رجسٹرار بھی انتقال کرگئے، یوں 200 سے زائد خاندان مصائب کا شکار ہیں۔ وفاقی انفارمیشن کمیشن کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق اردو یونیورسٹی نے 67 کروڑ روپے کی رقم مختلف بینکوں کے اکاؤنٹس میں ڈپازٹ کی گئی ہے جس پر ہر سال منافع بھی ملتا ہے، مگر معاملہ صرف وفاقی اردو یونیورسٹی کا نہیں بلکہ وفاق کے زیرِ انتظام دیگر یونیورسٹیاں بھی مالیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے بعض اوقات مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔

 بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی یونیورسٹیوں میں بھی اسی نوعیت کا بحران ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور عملے کے لوگ بھی کئی کئی دفعہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے سڑکوں پر احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کو مسلسل ہدایات جاری کی ہیں کہ یونیورسٹیاں نئے وسائل پیدا کریں۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے پاس خطہ اراضی فروخت کرنے، طلبہ کی فیسوں میں اضافہ کرنے اور تعلیمی شعبہ جات کو بند کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے یونیورسٹیوں کو مالیاتی کمک کی فراہمی کے لیے قیمتی اراضی فروخت کرنے کی تجویز پیش کی تھی مگر اس وقت کے ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر بنوری کی شدید مخالفت کی بناء پر اس پالیسی پر عمل نہ ہوسکا۔

ڈاکٹر بنوری کا کہنا تھا کہ اراضی کی فروخت کے معاملات میں لینڈ مافیا کی مداخلت بڑھ جانے کے خدشات ہیں۔ ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں پر زور دیا کہ طلبہ سے لی جانے والی فیسوں، امتحانات، انرولمنٹ، مارک شیٹ اور ڈگریوں کے اجراء اور دستاویزات کی تصدیق کے لیے وصول کی جانے والی فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ کیا جائے۔ اس فیصلے سے نچلے متوسط طبقے کے طلبہ کے علاوہ متوسط طبقے کے طلبہ بھی متاثر ہوئے۔ بہت سے طالب علموں نے فیس کی رقم نہ ہونے کی بناء پر تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔

گزشتہ سال کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کراچی یونیورسٹی کے مختلف پروگراموں میں زیرِ تعلیم 30 سے 40 فیصد طلبہ نے فیس جمع نہیں کرائی تھی۔ فیسوں میں اضافے کے فیصلے سے غریب طلبہ خاندانوں کے طلبہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ بلوچستان میں غربت کی لکیر کے نیچے 70 فیصد آبادی زندگی گزار رہی ہے۔ ہر 10 میں سے چوتھا آدمی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ بلوچستان میں طلبہ کی اکثریت مختلف اسکالر شپس پر تعلیم حاصل کرتی ہے مگر صوبائی حکومت کے وظائف کی تعداد محدود ہوگئی ہے۔ اب یونیورسٹیاں اپنے فنڈ سے فیس معاف کرنے کے بجائے محکمہ بیت المال سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتی ہیں۔ بیت المال زکوۃ کی رقم سے مخصوص زمرہ جات کے طلبہ کو ملتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف یونیورسٹیوں میں داخلے کی شرح کم ہوئی۔ سرکاری یونیورسٹیاں سوشل سائنس کے مضامین کے علاوہ بیسک سائنس کے بعض مضامین کی تدریس بند کرنے پر مجبور ہوئی ہیں۔ اس فیصلے سے اردو، سندھی، بلوچی، پشتو اور براہوی زبان میں تعلیم کے راستے میں مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔

یونیورسٹیوں میں زبانوں کے علم کے علاوہ سماجی علوم اور بیسک سائنس کے شعبوں کے بند ہونے سے نظامِ تعلیم پر سخت منفی نتائج برآمد ہوںگے، اگر ان شعبوں میں تدریس بند رہی تو پھر اسکولوں اورکالجوں میں بنیادی مضامین کی تدریس کے لیے اساتذہ دستیاب نہیں ہوںگے۔ ایک اور رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد کی اہم یونیورسٹیوں میں بیسک سائنس کے مضامین میں طلبہ کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ مختلف زبانوں پر تحقیق کے مراکز کے علاوہ دنیا کے مختلف خطوں کے مسائل پر تحقیق کرنے والے سینٹروں کی بندش سے قومی زبانوں کی ترقی رک جائے گی ۔

 وزیر اعظم کو اعلیٰ تعلیم کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر فوری توجہ دینی چاہیے ۔ حکومت کو یونیورسٹیوں کے مالیاتی بحرانوں کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ نئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی 300 یونیورسٹیوں میں کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: خاتون نے جوان بیٹے کے گردے عطیہ کردیے، میت خود لیکر اسپتال پہنچی
  • معروف بھارتی اداکارہ اپنی تیز رفتار کار سے طالبعلم کو کچل کر ہلاک کرنے پر گرفتار
  • اسلام آباد کچہری میں وکلا کا قائد اعظم یونیورسٹی کے سیکورٹی انچارج کرنل ریٹائرڈ ندیم پر تشدد
  • ہارورڈ یونیورسٹی بھی ٹرمپ کے سامنے جھک گئی، 500 ملین ڈالر وقف کرنے کا اعلان
  • تعلیم اور درسگاہوںکے مسائل
  • پروفیسر ڈاکٹر قاضی ارشد صدیقی ڈائریکٹر کالجز کراچی مقرر
  • ایرانی وفد کا منہاج یونیورسٹی لاہور کا دورہ(2)
  • ایرانی وفد کا منہاج یونیورسٹی لاہور کا دورہ
  • قائداعظم یونیورسٹی سے طلباء کی گرفتاری، ایمان مزاری کا بیان سامنے آگیا