مالیگاؤں بم دھماکہ کیس، بی جے پی رہنما پرگیہ ٹھاکر سمیت تمام ملزمان بری
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں میں 2008 کے بم دھماکے کے مقدمے میں ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے 17 سال بعد بی جے پی رہنما پرگیہ ٹھاکر، لیفٹیننٹ کرنل پروہت سمیت تمام 7 ملزمان کو ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا۔
29 ستمبر 2008 کو رمضان المبارک کے دوران مالیگاؤں کے بھیکو چوک پر ہونے والے اس بم دھماکے میں 6 مسلمان شہید اور تقریباً 100 افراد زخمی ہوئے تھے۔
عدالت کا فیصلہخصوصی عدالت کے جج اے کے لاہوتی نے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ بم دھماکے کا وقوعہ تو ثابت کرنے میں کامیاب رہا، لیکن یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ دھماکے کے لیے جو موٹر سائیکل استعمال ہوئی، وہ پرگیہ ٹھاکر کی ملکیت تھی، یا بم اس میں نصب کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے بھارتی مسلمانوں کو ’پاکستانی‘ کہنا گالی اور جرم نہیں، بھارتی سپریم کورٹ
عدالت نے واضح کیا کہ کسی بھی فرد کو صرف اخلاقی بنیادوں پر سزا نہیں دی جا سکتی۔
’معاشرے کے خلاف سنگین جرم ضرور ہوا، لیکن عدالت قانون اور ثبوت کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہے، نہ کہ جذبات کی بنیاد پر۔‘
فیصلے کے اہم نکاتعدالت نے تسلیم کیا کہ آر ڈی ایکس دھماکے میں استعمال ہوا، مگر یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ اسے لیفٹیننٹ کرنل پروہت نے فراہم کیا تھا یا اس کے ذخیرے کا بندوبست کیا تھا۔
عدالت نے پرگیہ ٹھاکر کے بارے میں کہا کہ وہ پہلے ہی سنیاسی بن چکی تھیں اور مادی چیزوں سے لاتعلق ہو چکی تھیں۔
ابھینو بھارت نامی تنظیم، جس پر مقدمے میں مرکزی کردار ادا کرنے کا الزام تھا، کو بھی بری کر دیا گیا کیونکہ عدالت کے مطابق کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا کہ یہ تنظیم دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھی۔
کیس کی تاریخابتدائی تحقیقات مہاراشٹر اے ٹی ایس نے کی تھیں، جس کی سربراہی ہیمنت کرکرے کر رہے تھے، جو 2008 کے ممبئی حملوں میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اے ٹی ایس نے پرگیہ ٹھاکر کو اکتوبر 2008 میں گرفتار کیا اور دعویٰ کیا کہ دھماکے میں استعمال کی گئی موٹر سائیکل انہی کی تھی۔ بعد میں کیس کی تفتیش قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کو منتقل کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں بھارت میں مسلمانوں پر تشدد: پہلگام واقعے کی آڑ میں ہندو مسلم فساد پھیلانے کی کوشش
بری ہونے والے افرادپرگیہ سنگھ ٹھاکر (بی جے پی کی موجودہ رکن پارلیمان)، لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت، میجر (ریٹائرڈ) رمیش اپادھیائے، سدھاکر چترویدی، اجے رہیرکر، سدھاکر دھر دویدی عرف شنکراچاریہ اور سمیر کلکرنی شامل ہیں۔
عوامی و سیاسی ردعملفی الحال اس فیصلے پر متاثرہ خاندانوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے، جبکہ کچھ حلقوں نے عدالتی فیصلے پر سوالات بھی اٹھائے ہیں کہ 17 سال کی قانونی کارروائی کے بعد بھی انصاف ممکن نہ ہو سکا۔
یہ کیس بھارت میں مذہبی شدت پسندی اور عدالتی نظام کی ساکھ پر ایک بار پھر بحث کو جنم دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارتی جنتا پارٹی پرگیہ ٹھاکر مالیگاؤں بم دھماکہ کیس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت بھارتی جنتا پارٹی عدالت نے
پڑھیں:
وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کیجانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں موجود بڑے آئینی نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور حکومت کی جانب سے کلکٹرس و سرکاری افسران کے ذریعے وقف املاک میں بے جا تصرف کی کوششوں پر قدغن لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمان عدالت کی جانب سے دی گئی اس عبوری راحت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں خاص طور پر وقف املاک میں انتظامیہ کی بے جا مداخلت کے خلاف تحفظ اور واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان رہنے کی ناقابل فہم شرائط کی معطلی ایک مناسب اقدام ہے تاہم اس سب کے باوجود ہمارے کئی اہم خدشات اور تحفظات اب بھی باقی ہیں، خاص طور پر وقف بائے یوزر سے متعلق عبوری فیصلہ کافی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت اعظمی وقف بائے یوزر پر دیے گئے موجودہ عبوری موقف پر ازسرنو غور کرے گی اور اپنے حتمی فیصلہ میں وقف بائے یوزر کو پوری طریقہ سے بحال کرے گی، مکمل انصاف کے حصول تک ہم اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی وقف املاک کو سرکاری زمین قرار دے سکتے تھے، یہ فیصلہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ انتظامیہ کو وہ اختیارات دیتا ہے جو عدلیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور یہ آئین کے بنیادی اصول، یعنی اختیارات کی علیحدگی، کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کی جانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح واقف کے لئے پانچ سال تک بس عمل مسلمان رہنے کی شرط کی معطلی بھی عدالت کی جانب سے ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ہم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ شرط امتیازی،ناقابل فہم اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس شق کے حوالے سے عدلیہ کی مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے غیر آئینی قوانین، عدالتی جانچ کی کسوٹی پر پورے نہیں اُتر سکتے، ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ کئی اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ وقف بایو کی شق کا خاتمہ اب بھی ہزاروں تاریخی مساجد، قبرستانوں اور عیدگاہوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جو اوقاف صدیوں سے بغیر رسمی دستاویزات کے قائم اور برقرار ہیں، ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تمام مذاہب کے بے شمار مذہبی ادارے بغیر دستاویزات کے برسوں سے موجود ہیں، وقف بائے یوزر کا اصول بہت ضروری ہے، ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے اس موقف کو اپنے حتمی فیصلے میں تسلیم کرے گی۔