’وقت کا پہیہ الٹا گھوم گیا‘، برطانیہ میں ڈاکڑ اب مریض کے گھر پر علاج فراہم کرنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 1st, August 2025 GMT
ایک وقت تھا جب ڈاکٹرز مریضوں کو گھروں پر جا کر چیک کرتے تھے لیکن جیسے جیسے وقت بدلا وہ روایت بھی پیچھے رہ گئی۔ آپ نے پرانی فلموں میں شاید دیکھا ہو کہ ڈاکٹر صاحب فون موصول ہونے پر اپنا بیگ اٹھائے مریض کے گھر تشریف لاتے اور بیمار کے کے معائنے کے بعد علاج تجویز کرکے اس کے چہرے پر اطمینان کی جھلک چھوڑ کر وقار سے واپس جاتے۔ گھر والے احتراماً ان کا بیگ تھامے باہر انہیں ان کی گاڑی (عموماً موریس مائنر، رینالٹ فور یا فوکسی) تک چھوڑ آتے۔ اب ایک بار پھر برطانیہ کے علاقے ویسٹ مڈ لینڈز میں وہ روایت پھر سے زندہ ہو رہی ہے لیکن تھوڑے جدید انداز میں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سینڈویل اور ویسٹ برمنگھم میں اسپتالوں کے ڈاکٹر، جنرل پریکٹیشنر (فیملی ڈاکٹر)، پیرامیڈکس، سوشل ورکرز اور کمیونٹی نرسوں کے ساتھ مل کر ایسے مریضوں کو گھر پر ہی وہ علاج فراہم کر رہے ہیں جو عام طور پر اسپتالوں میں دیا جاتا ہے۔92 سالہ جارج ٹنکس جو ایجباسٹن کے رہائشی ہیں ان مریضوں میں شامل ہیں جنہیں پھیپھڑوں میں پانی اور دل کے مسائل کے لیے ماہر ڈاکٹرز اور نرس گھر پر ہی روزانہ کی بنیاد پر علاج فراہم کر رہے ہیں۔
جارج کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ سب کچھ اتنا اچھا ہو رہا ہے اور سب لوگ ان کی مدد کے لیے دوڑ رہے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹرز کو مریض و لواحقین سے کیا نہیں کہنا چاہیے؟
یہ اقدام این ایچ ایس کے 10 سالہ منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج ان کی اپنی کمیونٹی میں ممکن بنانا ہے۔
اسمیتھ وِک میں واقع میڈلینڈ میٹروپولیٹن یونیورسٹی اسپتال، جو ملک کے ایک محروم علاقے کو خدمات فراہم کرتا ہے، اس تبدیلی کا آغاز پہلے ہی کر چکا ہے۔
یہاں کے ڈاکٹرز ہر ہفتے تقریباً 20 شدید بیمار مریضوں کو ان کے گھروں میں چیک کرتے ہیں جب کہ دیگر ماہرین کی ٹیمیں بھی گھروں میں جا کر علاج فراہم کرتی ہیں۔
ایکیوٹ میڈیکل کنسلٹنٹ ڈاکٹر سرب کلیر نے بتایا کہ اسپتال نے اپنے 100 بستروں کو ختم کر کے اس کے فنڈ کو کمیونٹی میں علاج پر لگا دیا ہے۔
مزید پڑھیے: ڈاکٹرصحت سے متعلق الیکٹرانک مصنوعات سے خائف کیوں؟
وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک انقلاب ہے کہ مریضوں کو اپنے گھر میں ڈاکٹر سے علاج ملے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک خواب جیسا ہے کہ ہم واپس وہیں جا رہے ہیں جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا۔
ڈاکٹر کلیر نے کہا کہ مجھے کبھی نہیں لگا تھا کہ میں جو کہ ایک اسپتال میں کام کرنے والی ہوں ایک دن خود مریضوں کے گھروں میں جا کر علاج کر رہی ہوں گی، لیکن اب یہ بالکل ٹھیک ہے اور ایسا ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر شرجیل کیانی اور ان کی ٹیم روزانہ مسٹر ٹنکس کے فلیٹ میں جا کر ان کا علاج کر رہی ہے۔
ڈاکٹر شرجیل نے کہا کہ اسپتال جانا بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا وہاں مریض گر سکتے ہیں یا انہیں الجھن یا انفیکشن کا سامنا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم انہیں گھر پر رکھ سکتے ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔
مزید پڑھیں: مریض کی دیکھ بھال کے دوران جھوٹ بولنا نرس کو مہنگا پڑگیا
جارج ٹنکس اگرچہ بیمار ہیں مگر گھریلو ماحول میں خوش اور پرسکون نظر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں زندگی میں کئی بار اسپتال گیا ہوں اور تجربہ ہمیشہ اچھا ہی رہا ہے مگر اب لگتا ہے کہ گھر ہی سب سے بہتر جگہ ہے۔
ادھر اسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں پالی ایٹیو کیئر اسپیشلسٹ ڈاکٹر مائیک بلیبر نے بتایا کہ سب سے زیادہ کمزور مریض عموماً اسپتال آتے ہیں مگر اب گھر پر ہی پالی ایٹیو کیئر فراہم کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کتنے پاکستانیوں کو ایک ڈاکٹر، ڈینٹسٹ اور نرس کی سہولت میسر ہے؟
اب اسپتال میں بچوں، دل، سانس، اور کمزور بزرگ مریضوں کے لیے ورچوئل وارڈز بھی بن چکے ہیں۔ ماہرین ان کے گھروں میں جا کر وہی علاج فراہم کر رہے ہیں جیسا پہلے اسپتالوں میں کیا جاتا تھا اور وہ بھی زیادہ محفوظ انداز میں۔
ڈاکٹر بلیبر نے کہا کہ ہمارے پاس اسپتال کا آپشن ہمیشہ موجود ہوتا ہے مگر اکثر اوقات خصوصاً ضعیف اور نازک مزاج مریضوں کے لیے اسپتال ہی واحد حل نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں: ڈاکٹر رتھ فاؤ، کوڑھ کے مریضوں کی ماں
اس انقلابی اقدام پر اسپتال کو بین الاقوامی سطح پر سراہا بھی گیا۔ رائل کالج آف فزیشنز کی جانب سے الائنس میڈیکل ہیلتھ ان ایکوالٹی ایوارڈ دیا گیا۔
محکمہ صحت و سماجی بہبود کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں مریضوں کو تیز رفتاری سے صحت یاب دیکھنا ہے تو ہمیں این ایچ ایس کا فوکس اسپتال سے نکال کر کمیونٹی کی طرف منتقل کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیے: سعودی عرب اے آئی ڈاکٹر کلینک کھولنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا
انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہم ڈاکٹروں، نرسوں، فارماسسٹ، سوشل ورکرز اور دیگر ماہرین کو ایک ساتھ لا کر کمیونٹیز میں مربوط علاج مہیا کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ ڈاکٹر مریض کی دہلیز پر گھر اسپتال سے بہتر گھر پر بہتر علاج وقت کا پہیہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانیہ ڈاکٹر مریض کی دہلیز پر گھر اسپتال سے بہتر گھر پر بہتر علاج وقت کا پہیہ علاج فراہم کر کر رہے ہیں گھروں میں مریضوں کو نے کہا کہ انہوں نے کے گھر کے لیے گھر پر
پڑھیں:
جرائم پر جبراً مجبور ہونے والے افراد کو قانوی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 30 جولائی 2025ء) عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً جرائم پر مجبور کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور مربوط اقدامات اٹھائیں اور متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی یقینی بنائیں۔
آن لائن دھوکہ دہی سے منشیات کی سمگلنگ اور چوری تک ایسے بہت سے جرائم دانستہ ہی نہیں کیے جاتے بلکہ ایسا کرنے والوں کو خود بھی بڑے مجرم گروہوں کی جانب سے دھوکے اور استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔
منظم جرائم میں ملوث گروہ تارکین وطن، بچوں اور نوجوانوں سمیت کمزور لوگوں کو دھوکے، دھمکیوں اور تشدد کے ذریعے جرائم کے ارتکاب پر مجبور کرتے ہیں۔ Tweet URLایسے متاثرین کو عموماً نوکری کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے مجرمانہ سرگرمیوں پر مجبور کیا جاتا ہے جنہیں درپیش حالات جدید غلامی کے مترادف ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
'آئی او ایم' نے اسے انسانی سمگلنگ کا ایسا خوفناک پہلو قرار دیا ہے جس پر کماحقہ توجہ نہیں دی جاتی۔ادارے کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ انسانی حقوق کا بحران ہے۔ اس نے بہت بڑے عالمی کاروبار کی صورت اختیار کر لی ہے جس سے بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے، خوف پھیلتا ہے اور یہ انتہائی کمزور لوگوں کی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔
استحصال کا شکار لوگوں کو سزا دینے کے بجائیے تحفظ فراہم کرنا ہو گا اور ایسا کیے بغیر انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے پیش رفت ممکن نہیں ہو گی۔لامتناہی استحصاللوگوں کو دھوکہ دہی سے جرائم پر مجبور کرنے کا مسئلہ تیزی سے وسعت اختیار کر رہا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا جیسے خطے ایسے جرائم کا گڑھ ہیں جہاں ہزاروں لوگوں کو دھوکہ دہی کے مراکز میں رکھا جاتا ہے۔
یہ لوگ تنہا رہتے ہیں، انہیں بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کا اپنی زندگی پر اختیار چھین لیا جاتا ہے۔جرائم پیشہ گروہوں کے چنگل سے بچنے یا فرار ہونے کے باوجود ان میں بہت سے لوگوں کے نام کے ساتھ جرم کا دھبہ موجود رہتا ہے، انہیں سماجی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نظام ان کے ساتھ متاثرین کے بجائے مجرموں کا سا برتاؤ کرتا ہے۔
اس طرح استحصال کا خاتمہ ہونے کے بعد بھی ان کی لوگوں کی تکالیف ختم نہیں ہوتیں۔انسانی سمگلنگ کی یہ قسم منظم جرائم کا ایک بڑا محرک بھی ہے جس سے اندازاً سالانہ 40 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ سمگلر ناصرف لوگوں کو جرائم پر مجبور کر کے منافع کماتے ہیں بلکہ متاثرین کو مجرم قرار دینے والا نظام انصاف بھی انہیں فائدہ پہنچاتا ہے۔ جب متاثرین کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے تو انہیں ضروری مدد مہیا نہیں کی جاتی جبکہ نظام کی ناکامی اور بے عملی بڑے مجرموں کو تحفظ دیتی ہے۔
مجرم نہیں، متاثرین'آئی او ایم' نے حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ متاثرین کو سزا نہ دینے کے اصولوں کو برقرار رکھیں اور انہیں تحفظ، قانونی معاونت اور سماج میں کارآمد کردار ادا کرنے کی صلاحیت کے حصول میں مدد فراہم کریں۔ جرائم پر مجبور کیے جانے والے ان لوگوں کو مجرموں کے بجائے متاثرہ سمجھنا اخلاقی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ کے گروہوں کا قلع قمع کرنے کے ضمن میں تزویراتی ضرورت بھی ہے۔
انسانی سمگلنگ کے متاثرین میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہوتی ہے اور ان میں سے 78 فیصد کو جبری مشقت یا جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔ مسلح تنازعات، قدرتی آفات اور غربت کے باعث ایسے حالات جنم لیتے ہیں جن سے لاکھوں ایسے لوگوں کے لیے استحصال کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جو پہلے ہی مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں۔
'آئی او ایم' نے حکومتوں، بین الاقوامی شراکت داروں اور عام لوگوں پر اس مسئلے کے خلاف اجتماعی اقدامات کے لیے زور دیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ متاثرین کو تحفظ، انصاف اور طویل مدتی مدد کی فراہمی ضروری ہے۔ انہیں ایسے لوگ سمجھا جانا چاہیے جن کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور جن کے مستقبل کا دارومدار وقار اور انصاف کے لیے حکومتوں اور معاشروں کے عزم پر ہے۔