سعودی عرب میں صرف 3 روز میں 17 افراد کے سر قلم
اشاعت کی تاریخ: 4th, August 2025 GMT
سعودی عرب میں منشیات کے بارے میں ’’ زیرو ٹالرینس’’ پالیسی پر تیزی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے جس کا ثبوت تین روز میں 17 ملزمان کو موت کی سزا پر عمل درآمد کرنا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق پیر کو دو سعودی شہریوں کو "دہشت گردی سے متعلق جرائم" پر سزائے موت دی گئی۔
اس سے قبل ہفتے اور اتوار کے روز مجموعی طور پر 15 افراد کو سزائے موت دی گئی جن میں سے ایک کوکین اور 13 چرس کی اسمگلنگ کے مجرم تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جون 2025 میں سعودی عرب نے 46 افراد کو سزائے موت دی۔ جن میں سے 37 پر منشیات کے مقدمات میں تھے۔
سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ سزائے موت صرف ان مقدمات میں دی جاتی ہے جن میں ملزم تمام قانونی اپیلوں کے مراحل سے گزر چکا ہوتا ہے اور ان سزاؤں کا مقصد ملک میں سلامتی قائم رکھنا اور منشیات کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔
2025 کے آغاز سے اب تک 239 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے جن میں سے 161 صرف منشیات سے متعلق جرائم میں سزائے موت پانے والے تھے۔ ان میں 136 غیر ملکی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ 2022 میں بھی ایک ہی دن میں 81 افراد کو دہشت گردی کے الزامات پر سزائے موت دی گئی تھی۔
اسی طرح 2016 میں بھی سعودی عرب میں 47 افراد کی اجتماعی سزائے موت نے عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ سزائیں سعودی عرب کی 2023 میں شروع کی گئی "منشیات کے خلاف جنگ" کا نتیجہ ہیں اور ان افراد کو اب سزائیں سنائی جا رہی ہیں جنہیں ایک یا دو سال قبل گرفتار کیا گیا تھا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: منشیات کے سزائے موت افراد کو
پڑھیں:
وزیر ایتمار بن گویرکی اشتعال انگیزی، سعودی وزارت خارجہ برہم
بین الاقوامی برادری سے مسلسل مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسرائیلی قابض اہلکاروں کے اقدامات روکے
اسرائیل کو مسجد اقصی اور الحرم الشریف پر خودمختاری حاصل نہیں ، خلاف ورزیوں کے نتائج ہوں گے
سعودی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن گویر کے مسجد اقصی میں اشتعال انگیز اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات خطے میں تنازع کو ہوا دیتے ہیں۔عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی عرب اسرائیلی قابض حکومت کے اہلکاروں کی جانب سے مسجد اقصی کے خلاف بار بار کی جانے والی اشتعال انگیز کارروائیوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور زور دیتا ہے کہ یہ اقدامات خطے میں تنازع کو ہوا دیتے ہیں۔بن گویر نے اتوار کے روز یروشلم میں واقع مسجد اقصی کے حساس مقام کا دورہ کیا اور دعوی کیا کہ انہوں نے وہاں عبادت کی، حالاں کہ وہاں کا دہائیوں پرانا اسٹیٹس کو معاہدہ یہ طے کرتا ہے کہ مسجد اقصی کا انتظام ایک اردنی مذہبی ادارے کے پاس ہے، جہاں یہودی آ تو سکتے ہیں، مگر عبادت کی اجازت نہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ سعودی مملکت بین الاقوامی برادری سے مسلسل مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسرائیلی قابض اہلکاروں کے ان اقدامات کو روکے جو بین الاقوامی قوانین اور اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور خطے میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں۔سعودی عرب مسلسل مسجد اقصی کی حرمت کے خلاف اسرائیل کے واضح حملوں کی مذمت کرتا آیا ہے۔
اردن کی بھی بن گویر کے مسجد اقصی میں داخلے کی مذمتاسی طرح اردن نے بھی بن گویر کے مسجد اقصی میں داخلے کی سخت مذمت کی، اور وزارت خارجہ کے ایک بیان میں اس اقدام کو بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے قانون کی کھلی خلاف ورزی، ناقابل قبول اشتعال انگیزی اور قابل مذمت اشتعال قرار دیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کو مسجد اقصی/الحرم الشریف پر کوئی خودمختاری حاصل نہیں۔وزارت خارجہ کے ترجمان سفیان القضاہ نے اس انتہا پسند وزیر کی جانب سے جاری اشتعال انگیز دراندازیوں اور اسرائیلی پولیس کی جانب سے یہودی آبادکاروں کے بار بار داخلے میں معاونت کی شدید مذمت اور مکمل مستردگی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات مسجد اقصی کی تاریخی اور قانونی حیثیت کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور اس کی زمانی اور مکانی تقسیم کی کوششوں کے ساتھ اس کی حرمت کی توہین کے مترادف ہیں۔
قضاہ نے متنبہ کیا کہ ان اشتعال انگیزیوں اور یروشلم میں اسلامی و مسیحی مقدس مقامات کی خلاف ورزیوں کے سنگین نتائج ہوں گے، جو کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں مزید خطرناک کشیدگی اور یکطرفہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔