جبری گمشدگیوں پر ادارہ جاتی ردِعمل کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کر دی، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ عدلیہ اور وکلاء برادری کے درمیان تعاون کو ہر صورت یقینی بنائیں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے سندھ ہائی کورٹ بار کے وفد نے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بینچ اور بار نظامِ انصاف کے لازم و ملزوم ستون ہیں۔ انصاف کی بروقت فراہمی کے لیے ماڈل کریمنل ٹرائل کورٹس بنائی جا رہی ہیں، 13 اقسام کے مقدمات کے فیصلے کے لیے ٹائم لائنز مقرر کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سولرائزیشن اور ای-لائبریریز بارز کے لیے متعارف کرائی جا رہی ہیں، عدلیہ کو بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھنے کے لیے ہائی کورٹس کو ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ عدالت سے منسلک ثالثی کا نظام ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکاہے، ضلعی عدلیہ کی بھرتی و تربیت کا معیار مقرر کرنے کے لیے کمیٹی قائم کی ہے۔
بجلی صارفین کے لیے خوشخبری، فی یونٹ قیمت میں 77 پیسے کمی کا امکان
انہوں نے کہا جبری گمشدگیوں پر ادارہ جاتی ردِعمل کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کی گئی ہے۔بار کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں گے، وکلاء کی تجاویز متعلقہ فورمز پر زیرِ غور لائی جائیں گی۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
عدم برداشت اور دلیل کا فقدان
ہم ایک ایسا سماج بن چکے ہیں جو لفظوں سے خائف ہے، سوالوں سے چڑتا ہے، تحقیق کو گمراہی سمجھتا ہے اور تنقید کو توہین کا دوسرا نام قرار دیتا ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جو برسوں کی تربیت، ریاستی بیانیے اور سوچ پر تالے لگانے والے نصاب کا نتیجہ ہے۔ ہم نے سوچنے کی آزادی کو جرم ، اختلافِ رائے کو گستاخی اور دلیل کو بے ادبی سمجھ لیا ہے۔
یہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی قوم کو اجتماعی زوال کے گڑھے میں دھکیلتا ہے۔جب ہم ماضی کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں سقراط، ارسطو اور ابن رشد جیسے افراد دکھائی دیتے ہیں جو فکر و دلیل کے علمبردار تھے۔ ان کی تحریریں سوال سے شروع ہوتی تھیں اور تحقیق پر ختم۔ ان کے ہاں کوئی بات محض جذبات کی بنیاد پر قابلِ قبول نہ تھی۔ دلیل تھی، تجزیہ تھا اور سب سے بڑھ کر وہ رواداری تھی جو دوسرے نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی گنجائش پیدا کرتی تھی۔
مگر آج ؟ … آج جب کوئی نوجوان سوال کرتا ہے تو اسے بدتمیز قرار دیا جاتا ہے۔ جب کوئی استاد تنقید کرتا ہے تو اسے ملک دشمن کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ جب کوئی دانشور تحقیق کے ذریعے سچ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر فتوے لگائے جاتے ہیں۔ ہمیں انفرادیت سے خوف آتا ہے کیونکہ ہم نے ایک ایسا سماج تشکیل دیا ہے جہاں اجتماعی سوچ بھی وہی ہے جو طاقتور حلقے طے کرتے ہیں۔
برداشت ایک ایسا عمل ہے جو دل کی وسعت اور ذہن کی روشنی کا متقاضی ہوتا ہے، لیکن جب ذہن تاریکی میں ہو اور دل بغض و تعصب سے لبریز، تو برداشت کہاں سے آئے؟ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں برداشت صرف اپنی رائے کے حق میں مانگی جاتی ہے لیکن مخالف نقطہ نظر کے لیے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ ایسے میں تنقید برداشت نہیں کی جاتی ہے، تحقیق غداری اور دلیل بغاوت سمجھی جاتی ہے۔
یہ بحران صرف علمی حلقوں تک محدود نہیں۔ ہمیں اپنے گھروں میں بھی وہی تربیت دی جاتی ہے جہاں سوال کرنا بے ادبی ہے، بڑوں کی باتوں پر تجزیہ کرنا بدتمیزی ہے۔ بچہ اگر پوچھ لے کہ یہ کیوں؟ تو اسے فوراً چپ کرا دیا جاتا ہے۔ ہم نے نسل در نسل یہ سبق سکھایا ہے کہ اطاعت ہی نجات ہے، جب کہ ترقی یافتہ اقوام نے سیکھا کہ سوال ہی نجات ہے۔
ہمارے تعلیمی ادارے جو کبھی فکر و دانش کے گہوارے ہوا کرتے تھے، آج رٹنے اور نمبر لینے کی مشین بن چکے ہیں۔ جامعات میں تحقیق کے نام پر جو کام ہو رہا ہے، وہ بیشتر اوقات محض خانہ پُری ہوتی ہے اور تنقیدی شعور وہ تو نصاب میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ طالب علم کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ دلیل کیسے دی جاتی ہے، اختلاف کیسے کیا جاتا ہے اور رواداری کیسے برتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری جامعات ایسے نوجوان پیدا کر رہی ہیں جو معلومات تو رکھتے ہیں مگر فہم اور بصیرت سے محروم ہیں۔
ذرا، ٹی وی اسکرینز کا جائزہ لیجیے وہاں جو گفتگو ہو رہی ہے وہ دلیل نہیں دھمکی ہے۔ وہاں سوال نہیں، الزام ہے وہاں تجزیہ نہیں، تمسخر ہے۔ سیاسی اختلافات اب علمی سطح پر نہیں بلکہ شخصی سطح پرکیے جاتے ہیں۔ کوئی کسی کی بات سے متفق نہ ہو، تو اسے فوراً غدار، ایجنٹ یا لفافہ کہہ دیا جاتا ہے، ایسے میں مکالمہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اور جب مکالمہ ترک کردیا جائے تو سماج میں فکر اور شعور دم توڑ دیتے ہیں۔
ہماری سڑکوں پرگلیوں میں سوشل میڈیا پر ہر طرف ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے بس چپ رہو۔ گویا اختلاف کی ہر صورت کو دبانا ہی حب الوطنی ہے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ سب سے بڑی حب الوطنی یہی ہے کہ ہم سچ بولیں، سوال کریں اور دلیل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔
جب تحقیق ختم ہو جائے تو علم محض معلومات کا ذریعہ بن جاتا ہے، جب تنقید ختم ہو جائے تو سوچ جمود کا شکار ہو جاتی ہے، جب دلیل کا گلا گھونٹ دیا جائے تو سماج جہالت کے گھپ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے اور جب برداشت ختم ہو جائے تو پھر صرف انتہا باقی رہ جاتی ہے، مذہبی ہو یا سیاسی نسلی ہو یا لسانی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسے سماج کی تشکیل ہو سکے جہاں فکر کی آزادی ہو اختلاف کی گنجائش ہو اور دلیل کو اہمیت دی جائے۔ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ سوال کرنا، ان کا حق ہے کہ تنقید ذاتی حملہ نہیں بلکہ بہتری کی صورت ہوتی ہے کہ تحقیق صرف نصاب کا حصہ نہیں بلکہ زندگی کا رویہ ہے اور برداشت صرف ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ بقاء کا واحد راستہ ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قومیں نعرے بازی سے نہیں مکالمے سے بنتی ہیں، ترقی محض انفرا اسٹرکچر سے نہیں فکری بنیادوں سے جنم لیتی ہے۔ جب تک ہم اپنی فکری بنیادوں کو مضبوط نہیں کریں گے جب تک ہم اختلاف کو قبول کرنا نہیں سیکھیں گے جب تک دلیل اور تحقیق کو اپنا شعار نہیں بنائیں گے، ہم زوال کی اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے۔
آئیے! اپنے اندر ایک بار پھر سوال اٹھائیں شاید یہی سوال ہمیں سچ کی طرف لے جائے اور سچ جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔مجھے اکثر جان لینن کا گانا یاد آتا ہے am a dreamer I میں بھی خواب دیکھنے والوں میں سے ہوں۔ یہ خواب کہ ایک دن دنیا میں عقل و دانش کی قدر ہوگی۔ انسان تحمل اور برداشت سے کام لیں گے۔ فہم و فراست کو اہمیت دی جائے گی۔
ہاں! میں خواب دیکھتی ہوں خواب کہ انسان ایک بہتر سماج میں جی رہا ہو۔ خواب کہ ہر مظلوم کو اس کا مقام ملے اور سب سے بڑھ کر خواب کہ سوال کیا جاسکے اور اختلاف رائے کو بڑا دل کر کے سنا جاسکے شاید میں یہ اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکوں مگر پھر بھی میں خواب دیکھتی ہوں، کیونکہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔