صوابی میں فٹبال میچ کے دوران خواتین کے تنازع پر فائرنگ سے بچے سمیت 2 جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا، جبکہ زخمی بچوں کو فوری طبی امداد کے لیے بی ایم سی (باچا خان میڈیکل کمپلیکس) منتقل کر دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے علاقہ موضع کھنڈہ میں واقع گورنمنٹ ہائی اسکول کے پلے گراؤنڈ میں فٹ بال میچ کے دوران مستورات کے تنازعہ پر فائرنگ سے ایک نوجوان اور ایک راہگیر تماش بین بچہ جاں بحق جبکہ فائرنگ سے 3 کم عمر بچے زخمی ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق خواتین کے تنازع کے بعد دو فریقین کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی جس کے بعد ایک فریق نے فائرنگ کردی۔ فائرنگ کے نتیجے میں حسن علی 25 سال جبکہ شربت فروش امجد کا 9 سالہ بیٹا محمد ہاشم محلہ موتی خیل بالا جاں بحق اور صابر کا 9 سالہ بیٹا خیام محلہ دینا خیل ،انور خطاب عرف دادی کا دس سالہ بیٹا جاں بحق ہوگیا۔
تھانہ لاہور میں ایف آئی آر درج کراتے ہوئے مدعی نے بتایا کہ ان کا بھائی حسن علی اور دیگر بچے گورنمنٹ ہائی سکول کھنڈہ فٹ بال گراؤنڈ میں میچ دیکھنے کے لیے موجود تھے کہ اس دوران سلمان اور اس کا والد فضل شاہ نے مسلح آکر سلمان سے کہا کہ مارو سلمان کو ، جس پر ان کی فائرنگ سے ان کا بھائی حسن علی اور شائقین کھیل محمد ہاشم راہگیر جاں بحق جبکہ تین بچے زخمی ہوگئے۔ واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا، جبکہ زخمی بچوں کو فوری طبی امداد کے لیے بی ایم سی (باچا خان میڈیکل کمپلیکس) منتقل کر دیا گیا ہے، پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر کے ملزم کی تلاش اور مزید تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
شمالی وزیرستان میں ڈی پی او کی گاڑی پر فائرنگ، 6 پولیس اہلکار زخمی
خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں کے قریب مامش خیل کے علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) کی گاڑی پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں 6 پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ریجنل پولیس افسر (آر پی او) بنوں سجاد خان نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ واقعہ میرانشاہ روڈ پر پیش آیا جو بنوں اور شمالی وزیرستان کو ملاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلح افراد نے شمالی وزیرستان کے ڈی پی او کی گاڑی پر فائرنگ کی تاہم ڈی پی او محفوظ رہے۔زخمی اہلکاروں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال بنوں منتقل کر دیا گیا ہے۔ آر پی او کے مطابق نامعلوم حملہ آور فائرنگ کے بعد قریبی علاقوں میں چھپ گئے جن کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان، خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جب نومبر 2022 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے حکومت کے ساتھ جنگ بندی ختم کر دی تھی۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں تیزی آئی ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا پولیس کو بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز ہنگو میں ایک بم دھماکے میں ایس ایچ او سمیت 3 اہلکار زخمی ہوئے، جبکہ گزشتہ ہفتے بنوں کے ہوائی اڈہ ایریا سے ایک پولیس اہلکار کو دہشت گردوں نے اغوا کر لیا تھا۔ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے پیش نظر سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اکتوبر کے مہینے میں عسکریت پسندوں کو گزشتہ 10 سال کے دوران سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔