امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر اسرائیلی قبضے سے متعلق اہم بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے پر فیصلہ اسرائیل خود کرے گا، امریکہ صرف انسانی امداد پر توجہ مرکوز رکھے گا۔

صحافی کے سوال پر کہ کیا امریکہ اسرائیل کے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے کی حمایت کرتا ہے؟ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی حکومت کی ترجیح غزہ کے محصور فلسطینیوں تک زیادہ سے زیادہ خوراک پہنچانا ہے۔ 

انہوں نے کہا، "باقی فیصلے اسرائیل خود کرے گا، ہم صرف انسانی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔"

صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اسرائیل خوراک کی تقسیم میں مدد کرے گا، جب کہ عرب ممالک مالی تعاون فراہم کریں گے تاکہ غزہ کے عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔

دوسری جانب اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وزیر اعظم نیتن یاہو نے سینیئر سکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقات میں غزہ پر مکمل فوجی کنٹرول کی حمایت کی ہے۔

مزید اطلاعات کے مطابق، نیتن یاہو غزہ میں فوجی کارروائیاں بڑھانے پر غور کر رہے ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں یرغمالیوں کی موجودگی کا شبہ ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

اسرائیلی طیاروں نے دوحہ پر بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر سے فائر کیے، امریکی اہلکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) آج جمعرات کو دبئی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق نو ستمبر کو دوحہ پر بیلسٹک میزائل حملوں کے لیے اسرائیل نے ایک ایسا طریقہ استعمال کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کو قطر کی فضائی حدود میں بھی داخل نہ ہونا پڑے اور ساتھ ہی وہ تیل سے مالا مال اس عرب ریاست کے فضائی دفاعی نظام کو چکمہ بھی دے سکیں۔

ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی جنگی طیاروں نے حماس کی قیادت کو ہدف بنانے کے لیے بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر کے پانیوں کے اوپر فضا سے فائر کیے تھے۔

ہلاک شدگان کی تعداد اور اسرائیلی حملے کے اثرات

دوحہ میں ان میزائل حملوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے پانچ کا تعلق حماس سے تھا اور چھٹا ایک قطری سکیورٹی اہلکار تھا۔

(جاری ہے)

ہلاک ہونے والے حماس کے پانچوں ارکان اس فلسطینی تنظیم کے درمیانے درجے کے رہنما یا ارکان تھے، جن میں سے ایک خلیل الحیہ کا ایک بیٹا تھا۔

تاہم ان حملوں میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ سمیت اس فلسطینی تنظیم کی وہ اعلیٰ قیادت محفوظ رہی تھی، جسے اسرائیل ہدف بنا کر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔

قطر میں اسرائیل کے ان میزائل حملوں کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا تھا کہ انہوں نے کئی ماہ سے جاری ان ثالثی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا تھا، جو قطر کی طرف سے امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ کی جنگ میں اسرائیل اور حماس کو کسی فائر بندی معاہدے تک لانے کے لیے کی جا رہی تھیں۔

اسرائیل نے حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو ہلاک کرنے کی کوشش اس وقت کی، جب وہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سےغزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کردہ ایک تجویز پر غور کرنے کے لیے جمع تھی۔

حملہ کیسے کیا گیا؟

امریکہ کے جس دفاعی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہرنہ کیے جانے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو اس اسرائیلی حملے کی تفصیلات بتائیں، اسے اس بات کا براہ راست علم تھا کہ اسرائیل نے یہ فضائی حملہ کیسے اور کہاں سے کیا۔

اس اہلکار کے مطابق اسے حساس انٹیلیجنس معلومات افشا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

ایک دوسرے امریکی دفاعی اہلکار نے بھی اے پی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی کہ اسرائیل نے دوحہ میں یہ حملہ ''افقی پوزیشن‘‘ سے کیا اور اس وقت اسرائیلی جنگی طیارے ''قطر کی فضائی حدود سے باہر‘‘ تھے۔

امریکی فوج میں عام طور پر ''افقی پوزیشن‘‘ سے کی جانے والی کارروائی کی اصطلاح ان فضائی حملوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو بہت دور سے کیے گئے ہوں۔

اسرائیلی جنگی طیارے کتنے تھے؟

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اسرائیل نے ان فضائی حملوں کے لیے اپنے جنگی طیاروں کو نہ صرف قطر بلکہ خطے کی دیگر عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کی فضائی حدود سے بھی باہر ہی رکھا۔

ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس ایئر مشن میں تقریباﹰ 10 جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور اس دوران تقریباﹰ 10 میزائل فائر کیے گئے۔

اسرائیل نے اب تک سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا کہ اس نے دوحہ میں اس بہت نپے تلے فضائی حملے میں کس طرح کے ہتھیار کہاں سے فائر کیے۔

ان حملوں سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے نیوز ایجنسی اے پی نے اسرائیلی فوج، قطری حکومت اور امریکہ میں پینٹاگون سے تبصرے کی جو درخواستیں کیں، ان کا تینوں میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا۔

’ساری بات صرف چند منٹ کی تھی‘

برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک سے وابستہ سینئر ریسرچ فیلو اور میزائلوں سے متعلقہ امور کے ماہر سدھارتھ کوشال نے بتایا، ''یہ میزائل فائر کیے جانے اور ان کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے درمیانی وقفے کی بات کی جائے، تو یہ ساری بات صرف چند منٹ کی ہی تھی۔

یہ کوئی بہت طویل وقت نہیں تھا۔‘‘

انہوں نے کہا، ''اگر قطری فضائی دفاعی نظام کو اس حملے کا علم ہو بھی گیا تھا، یا ہو بھی جاتا، تو بھی پیٹریاٹ میزائلوں کے لیے ان اسرائیلی بیلسٹک میزائلوں کو انٹرسیپٹ کرنا بہت ہی مشکل ہوتا۔‘‘

اسرائیل نے دوحہ پر فضائی حملوں کے لیے کس طرح کے ذرائع کیسے استعمال کیے، اس بارے میں اولین تفصیلات امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے شائع کیں۔

ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ

متعلقہ مضامین

  • گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے اور خائن حکومت کی بے حسی پر شامی عوام میں تشویش کی لہر
  • صیہونی اپنے قیدیوں کو بھول جائیں، القسام کا پیغام
  • امریکی صدرٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ناراض
  • ٹرمپ کے بعد اسرائیلی وزیر خزانہ نے بھی غزہ ہتھیانے کا منصوبہ پیش کر دیا
  • نیویارک، اقوام متحدہ کے سامنے آرتھوڈوکس یہودیوں کا نیتن یاہو کے خلاف مظاہرہ
  • امیر قطر کی والدہ اسرائیل مخالف پروپیگنڈہ مہم کی قیادت کر رہی ہیں، نتن یاہو
  • قطر پر حملہ ایک بہت بڑی غلطی تھی، صیہونی رہنما
  • متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے، غیر ملکی خبر ایجنسی کا دعویٰ
  • اسرائیلی طیاروں نے دوحہ پر بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر سے فائر کیے، امریکی اہلکار
  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا