اتراکھنڈ کلاؤڈ برسٹ:ہلاکتوں کی تعداد 5 ہوگئی، بھارتی فوجیوں سمیت 100 لاپتہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT
بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے ضلع اُتّر کاشی کے دھَرالی علاقے میں منگل کے روز شدید بارش اور بادل پھٹنے کے باعث آنے والے اچانک طوفانی سیلاب گارے مٹی کے ساتھ ایک پورے قصبے پر چڑھ دوڑا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔ اب تک 5 لاشیں نکالی جاچکی ہیں جبکہ لاپتہ ہونے والوں کی تعداد 100 سے زائد ہے جن میں بھارتی فوجی بھی شامل ہیں۔
یہ طوفانی سیلاب گنگوتری یاترا کے راستے میں واقع قصبہ دھَرالی میں آیا، جس نے متعدد مکانات، ہوٹلز اور ہوم اسٹے بہا دیے۔ مقامی حکام کے مطابق، قصبے کو شدید نقصان پہنچا ہے، اور 20 سے 25 ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک گارے مٹے کے ڈھیر سے ایک فرد اپنی مدد آپ کے تحت باہر نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ریسکیو اور امدادی کارروائیوں کے لیے پولیس، فوج، نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (NDRF)، اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (SDRF) کی ٹیمیں علاقے میں تعینات کر دی گئی ہیں۔ انڈو تبتن بارڈر پولیس (ITBP) کی ایک 16 رکنی ٹیم بھی روانہ کی گئی ہے، جبکہ مزید اہلکاروں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔
ریسکیو ٹیمیں لاپتہ افراد کی تلاش میں مصروف ہیں اور مزید اطلاعات آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اتراکھنڈ کلاؤڈ برسٹ بھارتی ریاست.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارتی ریاست
پڑھیں:
شامی جنگ میں لاپتہ ہونے والے بعض افراد زندہ ہیں، اقوام متحدہ کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
استنبول: اقوام متحدہ کی ایک سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ شام کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے زندہ ہونے کے قابلِ تصدیق شواہد موجود ہیں،سیکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کے قائم کردہ ادارے انڈیپنڈنٹ انسٹی ٹیوشن فار مسنگ پرسنز اِن سیریا کی چیئرپرسن کارلا کوئنٹانا نے استنبول میں ہونے والے TRT ورلڈ فورم 2025 کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لاپتہ افراد جنسی غلامی اور انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ادارہ مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہا ہے جن میں شامی حکومت کی تحویل میں لاپتہ افراد، داعش کے ہاتھوں اغوا ہونے والے شہری، لاپتہ بچے اور ہجرت کے دوران گمشدہ مہاجرین شامل ہیں،دس ماہ قبل تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شام میں جا کر لاپتہ افراد کی تلاش ممکن ہوگی مگر اب ہمیں ملک کے اندر کام کرنے کی اجازت مل چکی ہے، ہم اس وقت سینکڑوں ہزاروں لاپتہ شامی شہریوں کی تلاش میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ عمل شام کے اندر رہ کر مقامی سطح پر شروع کیا جانا چاہیے، تاہم بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے، ادارہ اس وقت شام کی حکومت کے ماتحت قائم نیشنل کمیشن فار دی سرچ آف دی مسنگ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، جس کی سربراہی ریٹا یالی کر رہی ہیں۔
کوئنٹانا نے کہا کہ یہ دنیا کی پہلی مثال ہے کہ ایک ہی وقت میں بین الاقوامی اور قومی سطح پر دو ادارے لاپتہ افراد کی تلاش کر رہے ہیں، اس وقت ادارے کے پاس تقریباً 40 ملازمین ہیں، لیکن بحران کی شدت کو دیکھتے ہوئے عالمی سطح پر مزید تعاون ضروری ہے،کوئی ادارہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا، ہمیں اقوام متحدہ کے دیگر اداروں، رکن ممالک، شامی سول سوسائٹی اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
کارلا کوئنٹانا کاکہناتھا کہ فارنزک سائنس اور جدید ٹیکنالوجی لاپتہ افراد کی شناخت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں،جب ہم فارنزک سائنس کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف مردہ افراد کے لیے نہیں، بلکہ زندہ افراد کی شناخت میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام فریقین کے درمیان اعتماد سازی سب سے اہم مرحلہ ہے، اگر خاندان، حکومت اور عالمی ادارے ایک دوسرے پر اعتماد نہ کریں تو لاپتہ افراد کا سراغ لگانا ناممکن ہو جائے گا،ہم پہلے ہی بہت تاخیر کر چکے ہیں، مزید تاخیر کی صورت میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں کے بارے میں جاننے کا حق ہمیشہ کے لیے کھو سکتے ہیں، ہم شام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں لاپتہ افراد کی تلاش میں پہلے ہی تاخیر کر چکے ہیں۔ خاندانوں کو سچ جاننے کا حق فوری طور پر حاصل ہے، مگر یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔