Islam Times:
2025-08-06@11:56:43 GMT

مغربی و عربی ممالک حماس کے خلاف سرگرم

اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT

مغربی و عربی ممالک حماس کے خلاف سرگرم

اسلام ٹائمز: ‏اگرچہ بظاہر یہ مشترکہ اعلامیہ دو ریاستی حل اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے کوشش معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک پیچیدہ سیاسی چال لگتی ہے۔ اس اعلامیے میں حماس کو غیر مسلح کرنا ایک پیشگی شرط قرار دیکر فلسطینی مزاحمت کو ہتھیاروں سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بغیر اسکے کہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے یا فلسطینی خود مختاری کی ضمانت دی جائے۔ درحقیقت، یہ وہ منصوبہ ہے، جسے باہر کی طاقتیں خطے پر مسلط کرنا چاہتی ہیں؛ ایک ایسا منصوبہ جو فلسطین کو ایک کمزور اور انحصار پذیر خطہ بنا سکتا ہے، نہ کہ ایک آزاد ریاست۔ ‏فلسطینی قوم کے تاریخی تجربات نے ثابت کیا ہے کہ بین الاقوامی وعدے صرف اس وقت پورے ہوتے ہیں، جب مزاحمت کا دباؤ ہو۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

غزہ ایک طرف نسل کشی کا شکار ہے۔ لوگوں کو بھوک اور پیاس کے ذریعے قتل کیا جا رہا ہے۔ سب کچھ تباہ کر دیا گیا ہے۔ مغربی ممالک کی حکومتیں ہوں یا عرب ممالک کی حکومتیں، سب کے سب غزہ میں ہونے والی اس بھیانک نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی حکومت عملی اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے حالات میں عرب و یورپ کی حکومتوں کی منافقت اور دوہرا معیار بھی واضح ہو رہا ہے کہ جہاں ایک طرف غزہ میں ہونے والے ہولناک جرائم پر خاموش ہیں، وہاں ساتھ ساتھ غزہ ہی کے خلاف سازشوں میں بھی پیش پیش ہیں۔ حالیہ دنوں فلسطینی مزاحمت حماس اور غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد عرب اور مغربی حکومتیں تیزی کے ساتھ حماس اور غزہ کے خلاف سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں۔

غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کو یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ وہ طاقت کے زور پر حماس سے اپنے قیدیوں کو واپس نہیں لے سکتی اور نہ ہی جنگ میں حماس کو ختم اور غزہ کو خالی کرسکیں گے، تاہم اب عرب ممالک کی حکومتوں کو یورپی حکومتوں کے ساتھ مل کر ایک نئے انداز سے یہ ٹاسک مکمل کرنے کا کہا گیا ہے۔ عرب حکمران جو پہلے ہی غزہ کے لئے کچھ مدد کرنے سے قاصر ہیں، اب یورپ اور امریکہ کی خوشنودی کی خاطر غزہ کے مظلوم لوگوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپنے کے لئے تیار ہوچکے ہیں۔ یقیناً صیہونی مسلم عرب حکومتوں سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔؟ اس وقت مغربی ممالک اور عرب ممالک حماس کو غیر مسلح کرنے کے لئے سرگرم ہو چکے ہیں۔

‏حال ہی میں مغربی اور عرب ممالک جن میں قطر، سعودی عرب، مصر، فرانس، برطانیہ، یورپی یونین اور عرب لیگ نے اقوام متحدہ میں ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا ہے، جس میں فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کو غیر مسلح کرنے اور غزہ پر اس کی حکمرانی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ‏بیانیے کی سات صفحات پر مشتمل تفصیل کو 17 ممالک اور متعدد بین الاقوامی اداروں نے حمایت فراہم کی۔ ‏بیانیے میں 7 اکتوبر 2023ء کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ حماس اپنی حکمرانی ختم کرے اور اپنے ہتھیار فلسطینی خود مختار اتھارٹی کو بین الاقوامی نگرانی اور تعاون کے تحت سونپ دے، تاکہ ایک خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو۔

‏بیانیے میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ غزہ کی تعمیر نو میں عالمی سطح پر بھرپور تعاون کیا جائے گا اور جلد ہی اس مقصد کے لیے قاہرہ میں تعمیر نو کانفرنس منعقد ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ایک عالمی ٹرسٹ فنڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی اونروا کے کردار کو تسلیم کیا گیا اور فلسطینی خود مختار اتھارٹی میں اصلاحات کے منصوبے کی بھی حمایت کی گئی۔ ‏فرانس کے وزیر خارجہ ژان نوئل بارو، جنہوں نے اس کانفرنس کی صدارت سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ طور پر کی، نے اس اعلامیے کو "تاریخی اور بے مثال" قرار دیا۔ ‏ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار عرب ممالک نے نہ صرف حماس اور 7 اکتوبر کے واقعات کی مذمت کی ہے بلکہ اس کے غیر مسلح ہونے اور فلسطینی حکومتی ڈھانچے سے باہر کیے جانے کا بھی مطالبہ کیا ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

‏اگرچہ بظاہر یہ مشترکہ اعلامیہ دو ریاستی حل اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے کوشش معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک پیچیدہ سیاسی چال لگتی ہے۔ اس اعلامیے میں حماس کو غیر مسلح کرنا ایک پیشگی شرط قرار دے کر فلسطینی مزاحمت کو ہتھیاروں سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، بغیر اس کے کہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے یا فلسطینی خود مختاری کی ضمانت دی جائے۔ درحقیقت، یہ وہ منصوبہ ہے، جسے باہر کی طاقتیں خطے پر مسلط کرنا چاہتی ہیں؛ ایک ایسا منصوبہ جو فلسطین کو ایک کمزور اور انحصار پذیر خطہ بنا سکتا ہے، نہ کہ ایک آزاد ریاست۔ ‏فلسطینی قوم کے تاریخی تجربات نے ثابت کیا ہے کہ بین الاقوامی وعدے صرف اس وقت پورے ہوتے ہیں، جب مزاحمت کا دباؤ ہو۔

اگر حماس کو غیر مسلح کر دیا گیا اور غزہ میں مزاحمت کمزور ہوگئی، تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اسرائیل اور اس کے حمایتی اپنی بات پر قائم رہیں گے، بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ اسرائیل ان ہی ممالک کی رضامندی سے مذاکرات کی میز چھوڑ دے اور ایک بار پھر سازش شروع کر دے۔ ‏اس اعلامیے کا حماس کو فلسطینی سیاسی نظام سے نکالنے پر زور دینا، جبکہ وہ فلسطینی معاشرے اور مزاحمت کا ایک حصہ ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان ممالک کا مقصد حقیقی امن نہیں بلکہ فلسطینی سیاسی منظرنامے کو مغربی مفادات اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر دوبارہ ترتیب دینا ہے۔ ‏صیہونی مسلم خلیجی ریاستوں سے اس کے علاوہ اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حماس کو غیر مسلح کر فلسطینی مزاحمت بین الاقوامی فلسطینی خود کہ اسرائیل اس اعلامیے عرب ممالک کے خاتمے ممالک کی کے ساتھ اور غزہ گیا ہے کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

فلسطین کو تسلیم کرنا، سفارتی ڈرامہ یا انصاف کی جانب قدم؟

اسلام ٹائمز: اگر یورپ واقعی اپنے امن پسندی کے دعوے میں سچا ہے تو اسے قبول کر لینا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کا منطقی اور منصفانہ راہ حل وہی ہے جو بارہا پیش کیا جا چکا ہے: مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور حتی سیکولر حلقوں سمیت تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ایک وسیع ریفرنڈم کا انعقاد۔ صرف ایسے جامع ریفرنڈم کے سائے تلے ہی فلسطینی قوم کا اپنی تقدیر کے تعین کا حق پورا ہو سکتا ہے اور خطے میں پائیدار امن برقرار ہو سکتا ہے۔ ہر دوسرا راہ حل صرف عارضی طور پر درد ختم کرنے یا پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے سفارتی ڈرامہ بازی ہی ہو سکتی ہے۔ تحریر: سید مہدی نورانی
 
یورپی یونین اور اس کے تمام رکن ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے امکان کی خبروں نے مختلف قسم کے تجزیات اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ اگر یہ خبر حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے تو ہم یورپ کی سفارتی تاریخ میں اہم ترین علامتی اور ساتھ ہی ساتھ مشکوک یوٹرن کا مشاہدہ کریں گے۔ لیکن اس تسلیم کرنے کے دعوی کا کیا مطلب ہے؟ اور اس کے پیچھے کیا اہداف کارفرما ہیں؟ اور کیا یہ واقعی فلسطینی قوم اور مزاحمت کے حق میں ہے یا نہیں؟
ایک سفارتی فیصلے کے پوشیدہ پہلو اور پیش کردہ شرائط
اس بات کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں چند اہم نکات سے غافل نہیں ہونا چاہیے:
 
1۔ سماجی دھماکے سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر: غاصب صیہونی رژیم میدان جنگ میں، نفسیاتی لحاظ سے اور اپنی مشروعیت کے بارے میں ناکامیوں کی دلدل میں پھنس چکی ہے۔ مغربی رائے عامہ، خاص طور پر یورپ میں مزید غزہ میں جاری ظلم و ستم برداشت کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ ایسے حالات میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا یورپی حکمرانوں کی سوچ میں حقیقی تبدیلی کی علامت سے زیادہ ایک احتیاطی حکمت عملی ہے جو یورپ میں سماجی دھماکے کو کنٹرول کرنے اور عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے انجام پا رہی ہے۔
2۔ امریکہ پر دباو کا ذریعہ: یہ فیصلہ محض امریکہ پر دباو ڈالنے کی خاطر بھی ہو سکتا ہے تاکہ ٹیکسوں کی جنگ میں واشنگٹن سے ایک طرح کا سفارتی بھتہ وصول کیا جا سکے۔ یورپ کی کوشش ہے کہ وہ اس ہتھکنڈے کو بروئے کار لا کر امریکہ کے مقابلے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔
 
3۔ خطے میں یورپ کا کھویا ہوا کردار دوبارہ حاصل کرنا: یورپ ایک عرصے سے خطے کے سیاسی حالات میں فعال اور موثر کردار کھو چکا ہے۔ اب اس اقدام کے ذریعے وہ "امن پسندی" کے لیبل سے خود کو جارح امریکہ سے دور کرنا چاہتا ہے اور علاقائی سطح پر اپنا اثرورسوخ دوبارہ حاصل کرنے کے درپے ہے۔
4۔ مشروط اور ناقص طور پر تسلیم کرنا (بعض ممالک کی شرائط بیان کر کے): اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ بیانیہ نہ صرف اسرائیل کا وجود قبول کرنے کی شرط سے جڑا ہے بلکہ ممکنہ طور پر "فلسطینی ریاست" بھی اقوام متحدہ کی قرارداد 242 کے تحت تشکیل دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدس شریف کے بغیر، حق واپسی کے بغیر اور اسلامی مزاحمت سے عاری فلسطینی ریاست مدنظر ہے۔
 
فرانس جیسے بعض ممالک نے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کے لیے کچھ شرائط بھی پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس نے فریقین کے درمیان مذاکرات کی ضرورت اور دو ریاستی راہ حل پر زور دیا ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب 1967ء کی سرحدیں مان لینا اور قدس شریف کی تقسیم ہے۔ اس شکل میں فلسطین واضح طور پر اس سے بہت زیادہ متضاد ہے جو فلسطینی قوم کی آرزو ہے۔
5۔ عمل کے بغیر علامتی سرگرمیاں: علامتی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اور عمل میں موثر اقدامات انجام نہ دینا اور اسرائیل پر دباو نہ ڈالنا صرف حقیقت سے آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے۔ کیا اس طرح اسرائیل صیہونی بستیوں کی تعمیر روک دے گا؟ کیا غزہ کا محاصرہ ختم کر دے گا؟ کیا صیہونی رژیم کو اسلحہ کی فراہمی رک جائے گی؟ کیا اسرائیل مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹ جائے گا؟ یقیناً نہیں۔ عملی اقدامات کے بغیر یہ کام صرف رائے عامہ کو فریب دینے کے لیے ہے۔
 
6۔ اسلامی مزاحمت کو کنٹرول کرنا اور شہداء کا خون ضائع کرنا: اس فیصلے کا اصل مقصد اسلامی مزاحمت کی تحریک ختم کرنا اور غزہ کے شہداء کا خون ضائع کرنا ہے۔ ایسے ہی جس طرح لبنان میں حالیہ حکومت کی تشکیل کے بعد حزب اللہ لبنان کو گوشہ نشین کرنے اور حکومت کا کردار بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کیا جا سکے۔ اس بار فلسطین میں فلسطین اتھارٹی کو مشروع ظاہر کر کے، جس کا نیتن یاہو کابینہ سے کوئی فرق نہیں ہے، اور دو ریاستی راہ حل دوبارہ زندہ کر کے غزہ میں اسلامی مزاحمت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا اور اسے ختم کرنا مقصود ہے۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اگرچہ بظاہر فلسطین کے حق میں ایک اچھا قدم ہے لیکن باطن میں ممکن ہے اسی پرانی سازش کا تسلسل ہو جس کے تحت اسلامی مزاحمت ختم کر کے مسئلہ فلسطین کو قبضے اور مزاحمت کی بجائے محض ایک سفارتی تنازعہ بنانے کی کوشش جاری ہے۔
 
حقیقی راہ حل: وسیع ریفرنڈم
اگر یورپ واقعی اپنے امن پسندی کے دعوے میں سچا ہے تو اسے قبول کر لینا چاہیے کہ مسئلہ فلسطین کا منطقی اور منصفانہ راہ حل وہی ہے جو بارہا پیش کیا جا چکا ہے: مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور حتی سیکولر حلقوں سمیت تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ایک وسیع ریفرنڈم کا انعقاد۔ صرف ایسے جامع ریفرنڈم کے سائے تلے ہی فلسطینی قوم کا اپنی تقدیر کے تعین کا حق پورا ہو سکتا ہے اور خطے میں پائیدار امن برقرار ہو سکتا ہے۔ ہر دوسرا راہ حل صرف عارضی طور پر درد ختم کرنے یا پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے سفارتی ڈرامہ بازی ہی ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ پٹی میں امدادی ٹرک الٹنے سے 20 فلسطینی ہلاک، سول ڈیفنس
  • حماس کا غزہ کی آئندہ تشکیل دی جانیوالی حکومتی انتظامیہ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ
  • حماس کا غزہ حکومتی انتظامیہ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ
  • حماس کا بڑا فیصلہ، غزہ کی آئندہ حکومت سے لاتعلقی کا اعلان
  • فلسطین کو تسلیم کرنا، سفارتی ڈرامہ یا انصاف کی جانب قدم؟
  • حماس، ریڈ کراس کو اسرائیلی یرغمالیوں تک مشروط رسائی دینے پر رضامند
  • اسرائیل کی جانب سے حماس کے خاتمے کا اعادہ
  • بھارتی فلم ساز پاکستان سے جنگ میں شکست کابدلہ لینے کیلئے سرگرم
  • مسجد اقصی کی بے حرمتی خطے میں موجودہ بحران کو مزید شدید کر دے گی، حماس