اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اگست 2025ء) ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ہفتہ اور اتوار کے روز پاکستان کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔

دونوں رہنماؤں نے تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے اور سکیورٹی تعلقات کو مضبوط بنانے کے معاہدوں پر دستخط کیے۔

دونوں ممالک کو اپنی سرحد کے قریب شدت پسند گروپوں سے متعلق سکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں، جہاں ایران میں سرگرم جیش العدل اور پاکستان میں موجود بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے گروہوں نے کئی حملے کیے ہیں۔

واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی سینیئر فیلو فاطمہ امان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایران اب محاذ آرائی کے بجائے سکیورٹی سفارت کاری کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔

(جاری ہے)

تہران اسلام آباد کے ساتھ انٹیلیجنس شیئرنگ، مشترکہ بارڈر پیٹرولنگ اور سکیورٹی تعاون کے دیگر اقدامات کے لیے سرگرم ہے۔‘‘

پاکستان اور ایران کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو بلوچستان کے علاقے سے گزرتی ہے۔ اس خطے میں پاکستانی صوبہ بلوچستان، ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان اور افغانستان کے کچھ حصے شامل ہیں۔

یہ علاقہ کئی دہائیوں سے سرحد کے دونوں طرف علیحدگی پسند تحریکوں کا شکار ہے۔

ایران اور پاکستان کے درمیان ان شدت پسند گروپوں کے خلاف ایک اسٹریٹیجک اتحاد ہے، لیکن سرحد پار دہشت گردی کی وجہ سے ان کے تعلقات بعض اوقات کشیدہ بھی رہے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سال ہونے والے میزائل حملوں اور جھڑپوں میں دیکھا گیا۔

ان مسائل کے باوجود، ایران اور پاکستان کے تعلقات مجموعی طور پر خوشگوار ہیں۔ حالیہ 12 روزہ اسرائیل-ایران کشیدگی کے دوران پاکستان نے ایران کا ساتھ دیا، ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی، اور اسرائیل کو واضح طور پر جارح قرار دیا۔

لیکن اس حمایت کے باوجود، پاکستان اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات، خاص طور پر ایسے وقت میں جب، بالخصوص ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے پر امریکہ اور ایران کے تعلقات کئی دہائیوں سے دشمنی اور کشیدگی سے بھرپور رہے ہیں، تہران کے لیے تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔

فاطمہ امان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ قریبی تاریخی تعلقات کے باوجود، پاکستان نے ہمیشہ ایران کے حوالے سے کسی براہِ راست فوجی اتحاد سے گریز کیا ہے۔

ان کے مطابق، ’’ایران کی نظر میں پاکستان ایسا ملک نہیں ہے جو اس کے خلاف کسی دشمنانہ فوجی کارروائی کے لیے پلیٹ فارم بنے۔‘‘

امریکہ-پاکستان شراکت داری

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اس جنوبی ایشیائی ملک کے تیل کے ذخائر کو ترقی دینے پر اتفاق کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر مبینہ طور پر بلوچستان میں ہیں۔

جس کے نتیجے میں امریکہ کو ایران کی مشرقی سرحدوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔

اپنی جغرافیائی حیثیت، قدرتی وسائل کی بہتات، اور ایران و افغانستان کے قرب و جوار کی وجہ سے یہ خطہ امریکہ کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔

تجارتی قانون کے ماہر اسامہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر امریکی کمپنیاں بلوچستان میں تیل کے امکانات تلاش کرنے آتی ہیں تو ایران کو اپنی سرحد کے ساتھ امریکی موجودگی پر تشویش ہو سکتی ہے۔

لیکن پھر پاکستان کو بھی چابہار (ایرانی بندرگاہ جہاں بھارت سرمایہ کاری کر رہا ہے) میں بھارتی موجودگی پر تحفظات رہے ہیں، اس لیے یہ احساس دونوں طرف موجود ہے۔‘‘

بین الاقوامی امور کے ماہر اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد شعیب نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اتحادی رہے ہیں، لیکن پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں اور شدت پسند گروہوں سے تعلقات پر کشیدگیاں بھی رہی ہیں۔

شعیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چونکہ ایران نے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے مختلف ادوار کے تعلقات دیکھے ہیں، لہٰذا اسے حالیہ قربت پر زیادہ تشویش نہیں ہے۔‘‘

اگرچہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں قربت آتی دکھائی دے رہی ہے، مگر یہ تعلقات اتنے سیدھے بھی نہیں ہیں۔

پاکستان نے حالیہ بھارت-پاکستان بحران کے دوران صدر ٹرمپ کی فیصلہ کن سفارتی مداخلت اور اہم قیادت کو سراہتے ہوئے انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا، لیکن اس کے محض چوبیس گھنٹے بعد اسلام آباد نے ایران کے ایٹمی تنصیبات پر امریکی فضائی حملوں کی مذمت کی۔

ایران کی پاکستان سے مدد کی خواہش

مشرق وسطیٰ انسٹیٹیوٹ کی فاطمہ امان نے کہا، ’’ایک ایسے وقت میں جب ایران پر اسرائیل یا امریکہ کی عسکری کارروائی کا خطرہ مزید حقیقت بنتا جا رہا ہے، تہران پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

ان کا ماننا ہے کہ ایران توقع رکھتا ہے کہ پاکستان اس کے پرامن سول ایٹمی پروگرام کے حق میں اپنی حمایت جاری رکھے گا۔

پاکستان سیاسی طور پر ایک حساس اور سفارتی طور پر نازک صورت حال سے دوچار ہے، جہاں اسے ایک طرف امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط کرنا ہے اور دوسری طرف اپنے مسلم ہمسایہ ملک کی حمایت بھی برقرار رکھنی ہے۔

شعیب کے خیال میں ’’ایران کو واشنگٹن تک پہنچنے کے لیے ایک معتبر ذریعہ درکار ہے، اور پاکستان اس میں ثابت شدہ کردار ادا کر چکا ہے۔

پاکستان نے ماضی میں بھی ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان ایران کے پرامن سول ایٹمی پروگرام کی حمایت کرتا ہے، مگر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوششوں کی حمایت نہیں کرتا۔‘‘

گزشتہ ماہ واشنگٹن میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کے بعد، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور علاقائی استحکام برقرار رکھنے میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ''اسلام آباد ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ میں کمی لانے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

تجارتی قانون کے ماہر اسامہ ملک کا ماننا ہے کہ ’’ایران چاہے گا کہ پاکستان ٹرمپ سے اپنی نئی قربت کو استعمال کرتے ہوئے اسے ایک سول نیوکلیئر ڈیل حاصل کرنے میں مدد دے۔

‘‘ امریکی پابندیاں دوطرفہ تجارت میں رکاوٹ

تہران کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کی جانب سے عائد پابندیاں پاکستان اور ایران کے درمیان مکمل پیمانے پر دوطرفہ تجارت میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

بین الاقوامی امور کے ماہر شعیب نے کہا کہ اسلام آباد نے ایران کے ساتھ رسمی تجارت سے گریز کیا ہے۔ جس میں ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ بھی شامل ہے، کیونکہ یہ پابندیاں آڑے آتی ہیں۔

انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ اگر پاکستان کو ایران کے ساتھ زیادہ جامع تجارتی تعلقات قائم کرنے ہیں تو وہ ’’ایران پر امریکی پابندیوں میں کسی حد تک نرمی‘‘ چاہے گا۔

تجارتی قانون کے ماہر ملک نے کہا، ’’پاکستان پہلے ہی ایران کے ساتھ غیر رسمی تجارت کر رہا ہے، اور بعض اندازوں کے مطابق پاکستان کی 30 فیصد ایندھن کی ضروریات ایرانی اسمگل شدہ تیل سے پوری کی جاتی ہیں۔

تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں کمی، پاکستان کے ذریعے، امریکی پابندیوں میں نرمی لا سکتی ہے۔‘‘

تاہم، تجزیہ کار امان کے مطابق، جب تک پابندیاں نرم نہیں ہوتیں، بڑے منصوبے جیسے کہ گیس پائپ لائن مؤثر طور پر معطل رہیں گے۔

انہوں نے کہا، ’’موجودہ حالات میں پائپ لائن کا دوبارہ آغاز ممکن نظر نہیں آتا، کیونکہ اسلام آباد ثانوی پابندیوں یا واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی مول نہیں لے سکتا۔‘‘

ج ا ⁄ ص ز

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور پاکستان کے اور امریکہ کے ان کے تعلقات میں پاکستان پاکستان نے پاکستان کی اسلام آباد کہ پاکستان کے درمیان ایران اور اور ایران ایران کے نے ایران کے ماہر کے ساتھ رہے ہیں نے کہا رہا ہے کے لیے کیا ہے

پڑھیں:

اسرئیل اور عرب ممالک کے مابین تلخیوں کی تاریخ، کب کیا ہوا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 ستمبر 2025ء) اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا اور تب سے آج تک اس کی خطے کی عرب ریاستوں کے ساتھ نہ صرف متعدد جنگیں ہو چکی ہیں، بلکہ جن ممالک کے ساتھ اسرائیل نے امن معاہدے کیے بھی، ان کے ساتھ بھی روابط کو ماہرین ''سرد امن کے ادوار‘‘ کا نام دیتے ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ اب تک کتنی عرب ریاستیں اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر چکی ہیں، عرب اسرائیلی روابط مسلسل کئی طرح کے زیر و بم کا شکار رہے ہیں۔

اس کے علاوہ کئی اہم عرب ریاستوں کے فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ تعلقات بھی کافی مشکل اور پیچیدہ رہے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر مشرق وسطیٰ میں دیرپا استحکام کی کوششیں آج تک نہ تو آسان رہیں اور نہ ہی زیادہ کامیاب۔

(جاری ہے)

مصر

مصر سب سے زیادہ آبادی والا عرب ملک ہے، جو 1948، 1956، 1967 اور پھر 1973 میں اسرائیل کے ساتھ جنگیں لڑ چکا ہے۔ لیکن مصر وہ پہلی عرب ریاست بھی تھا، جس نے 1978 میں امریکہ میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔

اس معاہدے پر دستخط کرنے والے مصری صدر انور سادات کو تین سال بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق یہ امن معاہدہ مصری عوام میں آج بھی انتہائی غیر مقبول ہے، لیکن یہ اب قاہرہ کی خارجہ اور سلامتی امور کی پالسیوں کا اہم حصہ ہے اور مصر کے امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے ناگزیر بھی۔

اسرائیل اور مصر آپس میں تیل اور گیس کے شعبوں میں تعاون کرتے ہیں، لیکن دیگر شعبوں میں دونوں کے مابین تجارت بہت کم ہے۔

قاہرہ حکومت نے اسرائیلی اور امریکی سیاست دانوں کے ان بیانات کی شدید مذمت کی تھی کہ جنگ زدہ غزہ پٹی کی فلسطینی آبادی کو وہاں سے نکال کر جزوی طور پر مصر میں سینائی کے علاقے میں آباد کیا جانا چاہیے۔ اردن

اردن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ امن معاہدہ کرنے والا دوسرا عرب ملک بن گیا تھا۔ یہ وہ عرب ملک بھی ہے، جس کے فلسطینیوں کے ساتھ سب سے قریبی تعلقات ہیں۔

کچھ اندازوں کے مطابق اردن کی نصف سے زائد آبادی فلسطینی ہے، جس میں سے زیادہ تر ان فلسطینی مہاجرین کی موجودہ نسل کے افراد ہیں، جو 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت یا تو وہاں سے نکال دیے گئے تھے یا رخصتی پر مجبور ہو گئے تھے۔

ویسٹ بینک کے فلسطینی علاقے اور مشرقی یروشلم کا انتظام 1948 سے لے کر 1967 کی عرب اسرائیلی جنگ تک اردن ہی کے پاس تھا۔

اس جنگ کے دوران اسرائیل نے ان فلسطینی علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے کر ان پر باقاعدہ قبضہ کر لیا تھا۔ اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبداللہ ہیں اور ان کا ہاشمی شاہی خاندان 1924 سے یروشلم میں مسلمانوں اورمسیحیوں کے مقدس مذہبی مقامات کا محافظ اور نگران چلا آ رہا ہے۔

مصر کی طرح اردن کے لیے بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ اس کی خارجہ سیاست اور سکیورٹی پالیسی کا انتہائی اہم حصہ ہے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کلیدی اہمیت کا حامل بھی۔

تاہم اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر اردن میں پایا جانے والا عوامی غصہ بہت عام ہے اور اس میں غزہ پٹی کی جنگ کی وجہ سے شدت آ چکی ہے۔ متحدہ عرب امارات

خلیج کی یہ عرب ریاست 2020 میں کئی دیگر عرب ممالک کے مقابلے میں اس طرح آگے نکل گئی کہ تب اس نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) وہ پہلا ملک تھا، جس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں اور انہی کی ثالثی میں ''ابراہیمی معاہدوں‘‘ پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے باعث اسرائیل اور یو اے ای کو ایک دوسرے کے ساتھ اس سلسلے میں قریبی اشتراک عمل سے کام کرنے کا موقع ملا کہ وہ شیعہ اکثریتی ایران اور اسلام پسند سنی عسکریت پسند گروپوں کے باعث لاحق خطرات کا مقابلہ کر سکیں۔

اس معاہدے کو اس خلیجی ریاست نے اپنی معیشت اور اپنے علاقائی کردار دونوں کے لیے بہتر قرار دیا تھا۔

یو اے ای نے ہمیشہ کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کا مقصد ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کی منزل کی طرف آگے بڑھنا تھا۔ لیکن یہ ایک ایسا مقصد ہے، جس کے لیے غزہ کی جنگ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان میں تیز رفتار توسیع مسلسل بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔

اسرائیل کے قطر پر فضائی حملے نے قطر کی اس ہمسایہ ریاست کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا۔ بحرین، سوڈان اور مراکش

متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد ایک اور خلیجی ریاست بحرین نے بھی ایسا ہی کیا۔ مراکش نے بھی، جس کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی سے تعلقات تھے، ''ابراہیمی معاہدوں‘‘ کے ذریعے ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا۔

اس کے جواب میں امریکہ نے مغربی صحارا کے متنازعہ علاقے پر مراکش کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا۔ سوڈان وہ چوتھا ملک تھا، جس نے ''ابراہیمی معاہدوں‘‘ میں شرکت کی لیکن وہ اپنے ہاں خانہ جنگی شروع ہو جانے کے باعث اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کو داخلی طور پر باقاعدہ قانونی شکل نہ دے سکا۔ سعودی عرب

اسلامی دنیا کے دو مقدس ترین مذہبی مقامات کا محافظ سعودی عرب ہمیشہ سے خود کو فلسطینیوں کے حقوق کے چیمپئن کے طور پر پیش کرتا رہا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے دروازے کو بھی عشروں سے کھلا ہی رکھا ہے۔

2000 میں سعودی عرب نے دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی عرب امن پیش رفت کے لیے کام کیا، جس کے تحت اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کیے جا سکتے تھے، لیکن شرط یہ تھی کہ فلسطینیوں کی ایک ایسی ریاست عملاﹰ قائم ہو جائے، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو اور جہاں لوٹنے کا فلسطینی مہاجرین کو حق حاصل ہو۔

حالیہ برسوں میں سعودی عرب خلیج کے علاقے میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا لیکن پھر غزہ پٹی کی جنگ اور حال ہی میں سعودی عرب کے خلیجی اتحادی قطر پر اسرائیلی فضائی حملے نے ان امکانات کو اتنا تاریک کر دیا، جتنے وہ پہلے کبھی نہیں تھے۔

شام

اسرائیل نے شام میں گولان کی پہاڑیوں کا زیادہ تر علاقہ 1967 کی جنگ میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور پھر 1981 میں اس کے اسرائیلی ریاستی علاقے میں انضمام کا اعلان کر دیا تھا۔ جب تک شام میں اسد خاندان اقتدار میں رہا، اسرائیل کے بڑے علاقائی حریف ملک ایران کے ایک قریبی حلیف کے طور پر شام اور اسرائیل کے مابین دشمنی کی فضا باقی رہی۔

طویل خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے شامی علاقے میں ایرانی اہداف پر بار بار فضائی بمباری کی۔ شامی صدر بشار الاسد کی دسمبر 2024 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد اسرائیل شام میں عسکری اثاثوں پر اپنے فضائی حملے تیز تر کر چکا ہے اور اس دوران اس نے نہ صرف جنوبی شام میں اپنے فوجی دستے بھیج دیے بلکہ ساتھ ہی ماؤنٹ ہیرمون یا عربی میں جبل الشیخ کہلانے والے شامی علاقے پر قبضہ بھی کر لیا۔

لبنان

لبنان بہت سے فلسطینی مہاجرین کا گھر ہے اور وہ 1970 کی دہائی سے تنظیم آزادی فلسطین یا پی ایل او کا میزبان بھی رہا ہے۔ اسرائیل کی پی ایل او کے ساتھ بار بار جھڑپیں ہوتی رہی ہیں اور اسی لیے اس نے اس جھڑپوں کے دوران 1978 اور پھر 1982 میں لبنان میں فوجی مداخلت بھی کی تھی۔ اسرائیل 1990 تک جنوبی لبنان پر قابض بھی رہا تھا۔

لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اسرائیل کی سرحدوں پر اس کی مرکزی دشمن بن کر ابھری تھی۔

لیکن پھر غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد گزشتہ برس اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جنگ بھی ہوئی، جس میں حزب اللہ کو شدید عسکری نقصان پہنچا اور بعد میں اسے ایک ایسے جنگ بندی معاہدے پر راضی ہونا پڑا، جو اس کے لیے آسان بالکل نہیں تھا۔ عراق

اسرائیل نے 1981 میں بمباری کر کے عراق کا جوہری ری ایکٹر تباہ کر دیا تھا۔ جب سے غزہ کی جنگ شروع ہوئی ہے، اسرائیل عراقی ریاستی علاقے میں ایران نواز مسلح گروپوں پر کئی بار فضائی حملے کر چکا ہے۔

یمن

یمن میں ایران نواز حوثیوں کے گروپ نے غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد 2023 سے لے کر اب تک اسرائیل پر کئی مرتبہ میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ حملوں کی کوششیں کی ہیں۔ ان کے جواب میں اسرائیل یمن میں حوثیوں کی قیادت اور ان کے عسکری ٹھکانوں پر کئی بار فضائی حملے کر چکا ہے۔

ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ

متعلقہ مضامین

  • ایران کی چا بہار بندرگاہ پر امریکی پابندیاں بھارت کیلئے ایک اور بڑا دھچکا ہے; سردار مسعود خان
  • اسرئیل اور عرب ممالک کے مابین تلخیوں کی تاریخ، کب کیا ہوا؟
  • 12 روزہ دفاع کے دوران امریکہ، نیٹو اور اسرئیل کی مشترکہ جنگی صلاحیت کا کامیاب مقابلہ کیا، ایران
  • گریٹر اسرائیل اور امریکہ کی آنکھ کا کانٹا ایران
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدے سے ایک روز قبل ایران کی  اہم شخصیت نے محمد بن سلمان سے ملاقات کی:صحافی کامران یوسف
  • بگرام ائیر بیس بارے ٹرمپ کے بیان پر افغانستان کا ردعمل
  • امریکہ: چابہار بندرگاہ پر بھارت کے لیے پابندیوں کی چھوٹ واپس
  • پاک سعودہ باہمی دفاعی معاہدہ 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد سب سے بڑی پیشرفت ہے‘ مشاہد حسین سید
  • پاکستان میں انٹرنیٹ سست، بحالی میں مزید کتنا وقت لگے گا؟ سیکرٹری آئی ٹی نے بتادیا
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی پیشرفت ہے، مشاہد حسین