کپاس کے شعبے کی بحالی کے لیے مربوط اورعملی اقدامات ناگزیر ہیں، ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار
اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT
ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ کپاس کو قومی معیشت میں اس کا مرکزی مقام واپس دلانے، عالمی مسابقت میں بہتری اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے مربوط، قابلِ عمل اور شواہد پر مبنی اقدامات کیے جائیں گے۔
ڈپٹی وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹراسحاق ڈار کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے اہم نقد آور فصلوں کا چوتھا اجلاس منعقد ہوا، جس میں پاکستان کے کپاس کے شعبے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: فصلوں کا پیداواری توازن، معیشت کی درست سمت
اجلاس میں کپاس کی پیداوار اور منافع میں اضافہ، معیاری بیجوں کی فراہمی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے، اور عوامی و نجی شعبے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرتے ہوئے ویلیو چین کو مضبوط بنانے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار نے اس موقع پر زور دیا کہ کپاس کے شعبے کی بحالی کے لیے مربوط اورعملی اقدامات ناگزیر ہیں، کپاس کو قومی معیشت میں اس کا مرکزی مقام واپس دلانے، عالمی مسابقت میں بہتری اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے مربوط، قابلِ عمل اور شواہد پر مبنی اقدامات کیے جائیں۔
مزید پڑھیں: رواں سال کسانوں کو کون سی فصلوں میں نقصان ہوا ہے؟
انہوں نے وزارتِ قومی غذائی تحفظ کو ہدایت کی کہ وہ سابقہ اجلاسوں میں دی گئی پالیسی سفارشات کی روشنی میں قابلِ عمل منصوبہ بندی تیار کرے اور آئندہ اجلاس کے لیے فالو اپ کمیٹی تشکیل دے۔
اجلاس میں وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ، معاون خصوصی برائے خزانہ طارق باجوہ، وزارت تجارت، ایف بی آر، ایم این ایف ایس آر، صوبائی حکومتوں کے نمائندگان اور دیگر متعلقہ اداروں و تنظیموں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیک ہولڈرز اسحاق ڈار ایف بی آر طارق باجوہ عالمی مسابقت غذائی تحفظ قومی معیشت کپاس نقد آور فصلوں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسٹیک ہولڈرز اسحاق ڈار ایف بی ا ر طارق باجوہ عالمی مسابقت کپاس نقد ا ور فصلوں ڈپٹی وزیراعظم کے لیے مربوط اسحاق ڈار
پڑھیں:
حج کیلئے اپلائی کرنیوالے 3 لاکھ افراد کا ڈیٹا ڈارک ویب پر برائے فروخت
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 ستمبر2025ء ) پاکستان سے حج کے لیے اپلائی کرنے والے 3 لاکھ افراد کا ڈیٹا ڈارک ویب پر برائے فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیئرپرسن سنیٹر پلوشہ خان کی زیرصدارت سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کا اجلاس ہوا جہاں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان نے انکشاف کیا ہے کہ حج کے لیے اپلائی کرنے والے تقریباً 3 لاکھ افراد کا ڈیٹا ڈارک ویب پر آچکا ہے، میرا اپنا سم کا ڈیٹا 2022ء سے ڈارک ویب پر ہے، یہ سنجیدہ مسئلہ ہے کہ پاکستان کو اپنا ڈیٹا محفوظ کرنا چاہیے، حکومت ایک ایسا ڈیٹا سینیٹر بنائے جس کی سیکیورٹی ہائی لیول کی ہو جب کہ انٹرنیٹ کے مسائل کا حل سپیکٹرم آکشن ہے۔(جاری ہے)
چیئرمین پی ٹی اے نے ڈیٹا چوری سمیت بعض دیگر معاملات پر بریفنگ دیتے ہوئے پر بتایا کہ ’2022ء میں ڈیٹا ڈارک ویب پر رپورٹ ہوا تھا، سمز کا ڈیٹا کمپنی کے پاس ہوتا ہے، 2022ء میں ہم نے اس بات کی انکوائری کی تھی‘، جس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں پاکستان پر ڈیٹا محفوظ بنانے کی قانون سازی روکنے کیلئے بیرونی دباؤ کا انکشاف ہوا جہاں سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ ’ہمیں باہر سے دباؤ آرہا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا کو محفوظ بنانے کیلئے قانون نہ بنایا جائے، اگر ڈیٹا کو محفوظ بنانے سے متعلق قانون نہ بنایا تو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا‘۔ سینیٹر افنان اللہ کا کہنا ہے کہ ’ڈیٹا کو الگ الگ اداروں سے چوری کیا جاتا ہے اور پھر اکٹھا کرکے بیچا جاتا ہے ڈیٹا کی مالیت اربوں روپے کی ہے اور ہماری یہ ناکامی کہ ہم ڈیٹا محفوظ نہیں بنا سکے اگر ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے قانون نہیں بنایا گیا تو پھر ڈیٹا چوری ہوتا رہے گا، اگر ڈیٹا کو محفوظ بنانے سے متعلق قانون نہ بنایا تو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا، مثال کے طور پر جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اسرائیل نے سارا ڈیٹا سوشل میڈیا سے ہی لیا تھا، سارا ڈیٹا ایران کے اہم لوگوں کو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے لیا گیا تھا اور اب ہم پر باہر سے دباؤ آرہا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے قانون نہ بنایا جائے وزارت آئی ٹی کی نااہلی ہے ابھی تک ڈیٹا پروٹیکشن پر بل نہیں لاسکے‘۔ اجلاس میں چیئرپرسن کمیٹی نے سیکرٹری آئی ٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’ گزشتہ کمیٹی اجلاس میں پی ٹی سی ایل یوفون کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام فراہم نہیں کیے گئے تھ،ے یہ ساری معلومات پبلک ہے اور کمیٹی کو اس کی تفصیلات فراہم کرنی چاہیے‘، سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ’ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر شاید 5 ہزار ڈالرز بورڈ کی ایک میٹنگ کے لیتے ہیں ہماری طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں، وزارت آئی ٹی ہمیں بھی کسی ایسے بورڈ میں ڈال دے جہاں پانچ ہزار ڈالر بھی ملیں اور دبئی کے دورے بھی ہوں، پی ٹی سی ایل کے آڈٹ سے متعلق بھی وزارت آئی ٹی نے تسلی بخش جواب نہیں دیا‘۔