اسرائیل اور مصر کے درمیان 35 ارب ڈالر کا تاریخی گیس معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, August 2025 GMT
یروشلم: اسرائیل نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی معاہدہ مصر کے ساتھ طے کر لیا ہے، جس کے تحت مصر کو 2040 تک تقریباً 130 ارب مکعب میٹر (BCM) قدرتی گیس فراہم کی جائے گی۔
یہ معاہدہ مصر کی کمپنی بلو اوشن انرجی کے ساتھ کیا گیا ہے، جس کی مالیت 35 ارب ڈالر بتائی جا رہی ہے۔
یہ نیا معاہدہ اسرائیل اور مصر کے درمیان موجودہ گیس معاہدے کی توسیع ہے اور خطے میں توانائی کے شعبے میں تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔
گیس فراہم کرنے والی اسرائیلی کمپنی نیومڈ (NewMed)، جو کہ لیویاتھن پارٹنرشپ کی قیادت کر رہی ہے، نے اس معاہدے کو اسرائیل کے گیس ذخائر کی دریافت کے بعد سب سے بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔
حکام کے مطابق اس معاہدے سے اسرائیل کی طویل مدتی توانائی ضروریات بھی پوری کی جا سکیں گی۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ٹرمپ کا تمام مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے پر زور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اگست 2025ء) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر جون میں امریکی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے جمعرات کو مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کریں۔
ٹرمپ نے کہا، ’’اب جبکہ ایران کا تیار کردہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، میرے لیے یہ بہت اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوں۔
‘‘انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مزید لکھا،’’یہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کو یقینی بنائے گا۔ اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ!‘‘
ابراہیمی معاہدے، جو ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں طے پائے تھے، کے تحت چار مسلم اکثریتی ممالک نے امریکی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔
(جاری ہے)
ان معاہدوں کو وسعت دینے کی کوششیں غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے پیچیدہ ہو گئی ہیں۔
ٹرمپ نے 2020 میں اسرائیل اور عرب ریاستوں، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش، کے درمیان باضابطہ تعلقات کے متعدد معاہدے طے کرائے تھے، جنہیں ابراہیمی معاہدہ کہا جاتا ہے۔
ابراہیمی معاہدے کو وسعت دینے کی راہ میں رکاوٹیںگزشتہ برسوں میں ابراہیمی معاہدے کو، خاص طور پر سعودی عرب پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے، وسعت دینے کی امریکی کوششیں ناکام رہی ہیں۔
سعودی عرب کے اعلیٰ حکام بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ ریاض 2002 کی عرب امن منصوبے کے موقف پر کاربند ہے، جو فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط رکھتی ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
تاہم اب ٹرمپ نے عرب-اسرائیل تعلقات کو ایران کے جوہری پروگرام اور ایران و اسرائیل کے درمیان بارہ روزہ لڑائی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔
اس لڑائی کے دوران امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔جون میں اسرائیل کے ایران پر حملوں، جن میں ایرانی اعلیٰ فوجی حکام، جوہری سائنسدانوں اور سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت ہوئی، کی عرب ممالک نے شدید مذمت کی تھی۔
فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مطالبات میں شدتیہ واضح نہیں کہ ٹرمپ نے عرب-اسرائیلی تعلقات کی بحالی کی نئی اپیل کیوں کی، لیکن ان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عرب ممالک کی حمایت سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے عالمی سطح پر نئی مہم شروع ہو چکی ہے، جسے واشنگٹن مسترد کر رہا ہے۔
کینیڈا، فرانس اور برطانیہ نے حالیہ دنوں میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، ٹرمپ کی انتظامیہ آذربائیجان اور کچھ وسطی ایشیائی اتحادیوں کو ابراہیم معاہدوں میں شامل کرنے پر بھی بات چیت کر رہی ہے، تاکہ اسرائیل کے ساتھ ان کے موجودہ تعلقات کو مزید گہرا کیا جا سکے۔
مئی میں خلیجی ممالک کے دورے کے دوران ٹرمپ نے عرب-اسرائیلی تعلقات کو نسبتاً کم اہمیت دی تھی، اور کہا تھا کہ میرا خواب ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے باضابطہ تعلقات قائم کرے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ فیصلہ وہ اپنے وقت پر کرے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ابراہیمی معاہدے نے اس میں شامل ممالک کے درمیان تجارت اور سکیورٹی کے تعلقات کو فروغ دیا، لیکن یہ اسرائیل-فلسطین تنازعے کو ختم کرنے یا اس میں نرمی لانے میں ناکام رہے۔
ادارت: صلاح الدین زین