صدر شیعہ علماء کونسل وسطی پنجاب نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کہا کہ عوام میں خوف و ہراس پھیلانے، بلا جواز گرفتاریوں کا سلسلہ بند کرکے عزاداروں کو فی الفور رہا کیا جائے، ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا چاہیے، ناروا اقدامات سے لگتا ہے پنجاب کو پولیس اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے، کیا یہ پاکستان ہے یا مقبوضہ کشمیر کہ جہاں نواسہ رسول کی یاد منانے پر پابندی عائد کی جاتی ہے، مشی کرنیوالے چہلم کے جلوس میں ایسے ہی جاتے ہیں، جیسے درباروں پر حاضری دینے والے عقیدت مند جاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل وسطی پنجاب کے صدر سید ساجد حسین نقوی نے چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام سے پہلے مختلف علاقوں میں پولیس کی ناروا زیادتیوں، عزاداروں کی گرفتاریوں، چادر اور چاردیواری کے تقدس کی پامالی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان غیر آئینی اقدامات کیخلاف ملت جعفریہ میں تشویش پائی جاتی ہے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عوام میں خوف و ہراس پھیلانے اور بلاجواز گرفتاریوں کا سلسلہ فوری بند کیا جائے اور تمام گرفتار عزاداروں کو فی الفور رہا کیا جائے، بصورت دیگر عوام اپنے شہری اور مذہبی حقوق کیلئے احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور حسینی کردار کیلئے پر عزم ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کوماں کا کردار ادا کرنا چاہیے، پولیس کا کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے، نہ ہی لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا، ان اقدامات سے لگتا ہے کہ پنجاب کو پولیس اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے۔ ہم ریاستی اداروں سے پوچھتے ہیں کیا یہ پاکستان ہے یا مقبوضہ کشمیر کہ جہاں نواسہ رسول کی یاد منانے پر پابندی عائد ہوجاتی ہے۔
 
وہ لاہور پریس کلب میں نیوزکانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ ان کے ہمراہ صوبائی جنرل سیکرٹری سید صفی الحسنین شیرازی، ڈاکٹر ممتاز حسین، عامر علی بھٹی، قاسم علی قاسمی، سبطین رضا اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ سید ساجد حسین نقوی نے کہا یس ایچ اوز لوگوں سے بانڈز لے رہے اور دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ چہلم کے جلوس میں شرکت نہ کریں۔ انہوں نے کہا مشی عربی کا لفظ ہے، جس کا معنی پیدل چلنا ہے، افسوس پاکستان میں اسے متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ مشی کرنیوالے چہلم کے جلوس میں ایسے ہی جاتے ہیں جیسے کہ درباروں پر حاضری دینے والے عقیدت مند ڈھول کیساتھ جاتے ہیں۔ پولیس کا کام انہیں روکنا نہیں، سہولت فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا ہم پُرامن ہیں تشدد نہیں مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں عزاداری میں رکاوٹوں پر آواز بلند کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے محرم الحرام میں عزاداروں پرایف آئی آرز کے اندراج کے بعد اب اربعین سے قبل عزاداروں کو مختلف طریقوں سے ڈرانے دھمکانے اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں پر دھاوے بولے جا رہے ہیں۔
 
انہوں نے کہا کہ ان حربوں سے وہ عزاداری سید الشہداء کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، شیعہ علماء کونسل پاکستان ان ظالمانہ اوچھے ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور حکمرانوں کو متنبہ کرتی ہے کہ عزاداری سید الشہداء ہمارا قانونی، آئینی حق ہے اور شہری آزادیوں کے اس اہم مسئلے پر ہم نے پہلے کسی قسم کی کوئی قدغن برداشت کی اور نہ ہی آئندہ ایسے حربوں کو تسلیم کریںگے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں گرفتاریاں عوامی شہری حقوق کے حوالے سے مسلم لیگ ن اور وزیراعلیٰ پنجاب کے بیان کردہ وژن کے منافی ہیں، پولیس کے ان ظالمانہ ہتھکنڈوں سے عوام میں حکومت کیخلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ صوبائی جنرل سیکرٹری صفی الحسنین شیرازی نے کہا ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دس افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے جبکہ جھنگ میں 14 افراد کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، ابھی چہلم کے جلوس 20 صفر کو برآمد ہونے ہیں، مگر گرفتاریاں پہلے سے ہی کی جا رہی ہیں۔ فوکل پرسن عزاداری قاسم علی قاسمی نے کہا پوری دنیا میں چہلم کو منانے کی تیاریاں زوروں سے جاری ہیں۔ ہم 78 واں یوم آزادی منا رہے ہیں، پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر شیعہ سنی مسلمانوں نے مل کر بنایا تھا کہ تمام شہریوں کے حقوق محفوظ ہوں گے۔ مگر یہاں مذہبی آزادیوں کو سلب کیا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: جاتے ہیں رہے ہیں نے کہا کیا جا

پڑھیں:

کورنگی انڈسٹریل ایریا؛ ایک طویل سڑک، کئی سوالات

کچھ عرصہ پہلے میرا دفتر شارع فیصل پر تھا اور رہائش ملیر میں، لیکن اب دفتر ڈیفنس فیز 8 منتقل ہوچکا ہے، اور میرا روزانہ کا راستہ کورنگی انڈسٹریل ایریا سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ وہ طویل، مصروف اور اہم سڑک ہے جو قیوم آباد، جام صادق پل سے شروع ہوتی ہے اور داؤد چورنگی تک جاتی ہے۔

کراچی کا کورنگی انڈسٹریل ایریا ایک اہم صنعتی زون ہے جہاں ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے قائم ہیں۔ روزانہ لاکھوں افراد اسی علاقے کا رخ کرتے ہیں، چاہے ملازمت کےلیے ہوں یا کاروباری مقاصد کے تحت۔ لیکن اس صنعتی ترقی کے سائے میں ایک ایسا بحران پنپ رہا ہے جسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور وہ ہے ٹریفک کا سنگین مسئلہ۔

کورنگی انڈسٹریل ایریا کی مرکزی شاہراہ ایک طویل، چوڑی تین رویہ سڑک ہے جو قیوم آباد، جام صادق پل سے شروع ہو کر مرتضیٰ چورنگی اور پھر داؤد چورنگی تک جاتی ہے۔ اس راستے میں بروکس، شان، ویٹا، بلال، سنگر اور مرتضیٰ چورنگیاں واقع ہیں۔ ان تمام چورنگیوں پر دن بھر ٹریفک کا شدید دباؤ رہتا ہے۔

یہ روڈ شہر کے مختلف حصوں سے آنے والے ہزاروں موٹر سائیکل سواروں، رکشہ، چنگچی، بسوں، پرائیویٹ گاڑیوں، اور بھاری ٹرکوں کی گزرگاہ ہے۔ لیکن سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اتنے اہم راستے پر نہ کوئی پیڈسٹرین برج ہے، نہ ٹریفک سگنلز، نہ ٹریفک پولیس کی موجودگی۔ 

عوام اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سڑک پار کرتے ہیں۔

چورنگیاں عمومًا وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں چاروں سمت سے ٹریفک آتا ہے۔ یہاں ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کےلیے خصوصی انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کورنگی انڈسٹریل ایریا کی چورنگیاں لاوارث دکھائی دیتی ہیں۔ نہ کوئی سگنل، نہ ٹریفک پولیس، نہ پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی محفوظ راستہ۔ نتیجتاً یہاں حادثات معمول بن چکے ہیں۔

شام کو جب فیکٹریوں سے ورکرز نکلتے ہیں تو صورتحال اور بھی سنگین ہو جاتی ہے۔ فیکٹری کی بسیں سڑک کے کنارے کھڑی ہوجاتی ہیں تاکہ ورکرز ان میں سوار ہوسکیں۔ اس وجہ سے تین رویہ سڑک عملاً دو یا ایک رویہ رہ جاتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بھاری گاڑی درمیان میں رک جائے تو پورا ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ کسی قسم کی ٹریفک مینجمنٹ یا قانون نافذ کرنے والا ادارہ نظر نہیں آتا۔

انڈسٹریز کی بسیں جو سڑک کے ایک طرف قطار میں کھڑی ہوتی ہیں، نہ صرف ٹریفک کا بہاؤ متاثر کرتی ہیں بلکہ حادثات کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔ یہ بسیں اچانک روڈ پر موو کرتی ہیں اور اس عمل سے باقی ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اکثر رکشہ اور چنگچی جیسے چھوٹے موٹرز بیچ میں پھنستے ہیں، اور کبھی کبھار تو جھگڑے تک نوبت آ جاتی ہے۔

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اربوں روپے کمانے والے صنعتی ادارے اپنی سڑکوں، اپنے ورکرز اور عام شہریوں کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ وہ اگر چاہیں تو:

ورکرز کی بسوں کے لیے فیکٹری حدود کے اندر پک اینڈ ڈراپ پوائنٹس بنا سکتے ہیں۔

پیڈسٹرین برج تعمیر کروا سکتے ہیں۔

روڈ کو سیل کیا جائے تا کہ کوئی درمیان سے کراس ہی نہ کر سکے؟

چورنگیوں پر سگنلز اور ٹریفک کنٹرول سسٹم نصب کروا سکتے ہیں۔

یہ صرف صنعتی اداروں کی نہیں بلکہ حکومت اور بلدیاتی اداروں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ عوامی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ ٹریفک کنٹرول، پیدل چلنے والوں کے لیے پل، سڑکوں پر روشنی اور ٹریفک پولیس کی مستقل موجودگی بنیادی ضروریات ہیں، جنہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

ہم کب جاگیں گے؟ ہمیں اس وقت جاگنا ہوگا جب حادثہ ہوچکا ہوگا؟ یا ہم بطور شہری، ادارے، اور حکومت، آج ہی ان خامیوں کی اصلاح کریں گے؟ شہری زندگی کا تحفظ صرف حکومت کی نہیں، ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔

اگر ہم نے ٹریفک قوانین، پیدل چلنے والوں کی حفاظت، اور سڑکوں کی منظم پلاننگ پر توجہ نہ دی، تو یہ خاموش خطرات ایک دن بہت بلند آواز میں ہمیں جگائیں گے، شاید بہت دیر ہوچکی ہو۔ یہ وقت ہے عملی اقدامات کا، تاکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں جانیں صرف لاپرواہی کی بھینٹ نہ چڑھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت کی اربعین واک پر جبری پابندی کو مسترد کرتے ہیں، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
  • عزاداروں کیخلاف پنجاب حکومت کا کریک ڈاؤن، علامہ شبیر میثمی کی پریس کانفرنس
  • عزاداروں کیخلاف پنجاب حکومت کا کریک ڈاؤن بزدلانہ اقدام ہے، علامہ ڈاکٹر شبیر میثمی
  • علامہ شبیر میثمی کا اربعین حسینی اور پنجاب حکومت کے رویے پر خصوصی انٹرویو
  • زائرین سے متعلق حکومت و ملتِ جعفریہ کا 6 اہم نکات پر اتفاق
  • ایک سال پہلے پاکستان کی سیر کرنے والے ٹریول ویلاگر امرک سنگھ بھارت میں لاپتہ
  • بلوچستان میں چہلم امام حسینؑ کے جلوس عزا کو روکنے کی شدید مذمت کرتے ہیں، ذاکر حسین
  • کورنگی انڈسٹریل ایریا؛ ایک طویل سڑک، کئی سوالات
  • چہلم امام حسینؑ اور عرس داتا دربار، ڈپٹی کمشنر نے خصوصی انتظامات کی ہدایت کر دی