‘کانگریس کی بدنیتی نے قائداعظم کو الگ وطن پر مجبور کیا‘
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
ڈاکٹر عائشہ جلال بین الاقوامی شہرت یافتہ مورخ، اسکالر اور تاریخ کی استاد ہیں۔ وہ ایک مشہور امریکی یونیورسٹی میں برسوں سے پڑھا رہی ہیں اور پاکستان اور جنوبی ایشیا پر ان کی کئی کتابیں آچکی ہیں، جبکہ اسلامی تحریکوں اور جہاد کے اثرات کے حوالے سے بھی ان کی ایک کتاب شائع ہوئی۔
ڈاکٹر عائشہ جلال سے ایک زمانے میں ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا اور بہت سے ایسے موضوعات پر گفتگو ہوئی جو آج بھی تروتازہ اور اہم ہیں۔ اس انٹرویو کو اپنی زیر طبع کتاب میں شامل کروں گا، اس انٹرویو کے چند اقتباسات وی نیوز کے قارئین کے لیے 4 دن پہلے پیش کیے تھے، اس کا دوسرا اور آخری حصہ آج پیش خدمت ہے۔ ڈاکٹر عائشہ جلال کہتی ہیں:
تعلیم کی کمی جمہوریت کے آڑے نہیں آتی’بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس ملک میں تعلیم زیادہ نہ ہو وہاں جمہوریت نہیں چل سکتی البتہ آمریت یا شخصی حکومت کامیاب رہتی ہے۔ یہ بات درست نہیں، اس کے کئی پہلو ہیں۔ بھارت میں بھی کروڑوں لوگ ان پڑھ ہیں لیکن اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ عوام کو کس طرح کی تعلیم دی جائے؟ میں سمجھتی ہوں کہ ناخواندہ ہو کر بھی پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ اس کے حقوق کیا ہیں، جو انہیں نہیں مل رہے۔ انہیں اس امر کا شدت سے احساس ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں ’ہم غریب نہیں، ہمیں غریب بنا دیا گیا ہے‘۔ اس مسئلے کا حل پائیدار جمہوری و سیاسی نظام کا قیام ہے، تعلیم عام کرنا بعد کی بات ہے۔
کانگریس کے رویے نے قائداعظم کو مایوس کیا تھاایک اہم سوال جس پر علمی حلقے بھی بحث کرتے ہیں کہ سرسید، علامہ اقبال، قائداعظم اور دیگر کئی رہنما شروع میں ہندوستانی قوم پرست رہنما تھے لیکن بعد میں وہ مسلم قوم پرست بن گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟
میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ ہندو قوم پرستی تھی۔ کانگریس تو آج بھی خود کو سیکولر پارٹی کہتی ہے لیکن شروع سے اس میں ہندوانہ سوچ کے کئی رہنما موجود رہے ہیں۔ یہ رہنما پسند نہیں کرتے تھے کہ مسلمان کانگریس میں شمولیت اختیار کریں۔ جب گاندھی نے تحریک خلافت میں حصہ لیا تو کئی ہندوؤں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ انتہا پسند ہندوؤں کو مسلمانوں کے ساتھ ان کا میل جول پسند نہ تھا۔
میں سمجھتی ہوں کہ یہ کانگریس اور اس کے ہندو رہنمائوں کی ناکامی ہے کہ وہ اپنی صفوں میں مسلمانوں کو شامل نہیں کرسکے۔ انہوں نے اپنے خیالات اور اعمال سے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی تنظیمیں قائم کرلیں۔ گویا ہندوستان میں ہندو مسلم اختلافات کی بنیاد ہندو رہنمائوں نے رکھی اور اس میں مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں۔ جس طرح آج پاکستان میں پنجابی قیادت کو کہا جاتا ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں کو ساتھ لے کر چلے، اسی طرح متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنا کانگریس (ہندو قیادت) کی ذمہ داری تھی۔
میری پہلی کتاب پر ہونے والے اعتراضاتمیری پہلی کتاب سول اسپکوس مین (Sole Spokesman) میں تقسیم ہند اور قائداعظم کے سیاسی کردار کا جائزہ لیا گیا تھا۔ یہ کیمبرج میں میرا پی ایچ ڈی کا تھیسس تھا۔ میں نے اس میں بیان کیا کہ قائداعظم کی حقیقی جدوجہد یہ تھی کہ کسی طرح مسلمانانِ ہند کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ حتیٰ کہ کیبنٹ مشن پلان کے تحت انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ (غیر منقسم ہندوستان میں) رہنا منظور کرلیا۔ البتہ ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر ساتھ چل نہ پایا تو مسلمان الگ ہوجائیں گے۔ مگر کانگریس ہی مسلمانوں سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔
دراصل قائداعظم جو اختیارات چاہتے تھے وہ کانگریس انہیں دینے کو تیار نہ تھی۔ قائداعظم کی خواہش تھی کہ صوبے بااختیار ہونے چاہییں تاکہ مرکز من مانی نہ کرسکے۔ مگر کانگریس اس تجویز کی مخالف تھی۔ جب قائداعظم پر کانگریس کی بدنیتی پوری طرح آشکار ہوگئی تو وہ پوری قوت سے قیامِ پاکستان کی کوشش کرنے لگے۔ تاہم وہ چاہتے تھے کہ پنجاب اور بنگال تقسیم نہ ہوں اور کانگریس نے ان کا بٹوارہ کرا کر ہی چھوڑا۔
میری اس کتاب پر بعض حلقوں نے اعتراضات کی بوچھاڑ کردی۔ ایک معروف پاکستانی محقق اور ادیب نے لکھا کہ میرا تھیسس دراصل کیمبرج میں میرے انڈین استاد کے زیراثر لکھا گیا ہے۔ یہ خاصا بچکانہ اعتراض تھا۔ میں نے وہ کتاب بڑی تحقیق کے بعد مستند حوالوں کی مدد سے لکھی تھی۔ کسی کو اس سے اختلاف تھا تو وہ دلائل کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کرتا۔ اس کے بجائے بے بنیاد الزام لگانا غیر علمی حرکت ہے۔ اوّل تو جو لوگ مجھے جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ میرے اوپر کوئی شخص اثر نہیں ڈال سکتا۔
ویسے بھی میرے تھیسس کے نگران کوئی اس طرح کا بھارتی پروفیسر نہیں تھا۔ اس کا باپ ضرور ہندو تھا، مگر ماں ہنگرین تھی اور وہ بے چارے تو برسوں سے بھارت گئے بھی نہیں۔ایک صاحب نے لکھا کہ عائشہ جلال نے اس کتاب میں معاونت پر تمام غیرمسلموں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس مضحکہ خیز الزام کا کیا جواب دیا جائے، ظاہر ہے کیمبرج میں جن لوگوں نے میری مدد کی،میں نے ان کا ہی شکریہ ادا کرنا تھا۔
عام پنجابی بھی غربت کا شکار ہےبعض حلقے یہ بات کرتے ہیں کہ پنجابی استحصال کررہے ہیں۔ میں تو ہمیشہ یہ کہتی ہوں کہ عام پنجابی بھی دوسرے صوبوں کے عوام کی طرح پسماندہ اور غربت کا شکار ہیں۔ دراصل معاملہ پنجابی حاکمیت نہیں بلکہ انتظامی حاکمیت کا ہے جو فوج اور بیورو کریسی پر مشتمل ہے۔ چونکہ ان دونوں اداروں میں پنجابی زیادہ ہیں اس لیے لگتا ہے کہ پنجابی اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مگر جہاں تک عام پنجابی کا تعلق ہے وہ غریب اور بے بس ہے۔ مزید براں شروع میں تو سیاست دانوں نے فوج و بیورکریسی کا مقابلہ کیا لیکن پھر وہ ان کے ساتھ رل مل گئے اور صنعت کار و تاجر بھی برتری کے سلسلے میں اب بھی تینوں فریقین کے درمیان کشمکش جاری ہے۔
اعتزاز احسن کی سندھ ساگر والی تھیوری جذباتی ہےاعتراز احسن صاحب نے اپنی کتاب (سندھ ساگر) میں یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ موجودہ پاکستان کا علاقہ صدیوں سے (متحدہ ہندوستان میں) بطور علیحدہ جغرافیائی وحدت چلا آرہا ہے۔ لہٰذا اسے کسی قسم کی شکست وریخت کا خطرہ لاحق نہیں۔
میں تو اسے ایک جذباتی تھیوری کہوں گی جو کچھ حقیقت بھی رکھتی ہے۔ یہ تسلیم شدہ تحقیق نہیں ہے۔ ویسے بھی آج کے پاکستانی علاقے کبھی الگ تھلگ نہیں رہے اور صدیوں سے ان کے ہندوستان، چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے روابط چلے آرہے ہیں۔
اعتزاز صاحب نے ’انڈس مین‘ (سندھ واسی) کا تصور بھی پیش کیا ہے۔ میں اسے پنجابی واسی کہوں گی کیونکہ ماضی میں آج کے سندھ کا بیشتر علاقہ پنجاب میں شامل تھا۔ زمین حاصل کرنے کی خاطر صدیوں تک پنجابیوں اور سندھیوں کے درمیان کشمکش بھی رہی حتیٰ کہ ہندوؤں کی رگ وید بھی پنجاب میں لکھی گئی۔
پاکستان ٹوٹنے کا بات بار بار کیوں کی جاتی ہے؟پاکستان میں ایک بار اکثر کہی جاتی ہے کہ ملک ٹوٹ سکتا ہے۔ ہمارا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمیں اپنا ملک ٹوٹنے کا خطرہ ہی لاحق رہتا ہے۔ اس نفسیاتی سوچ نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہندو رہنمائوں کا بھی خیال تھا کہ پاکستان بمشکل 6 ماہ چلے گا، مگر یہ مملکت آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ دراصل اکثر پاکستانی یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان بنانے کے لیے ان گنت قربانیاں دی گئی ہیں۔ وہ اگر یہ سوچ لیں تو کبھی یہ خیال دل میں نہ لائیں کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا۔
جہاں تک بھارت کا سوال ہے تو وہ ہمیں کمزور تو دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کے نزدیک سب سے بڑا ڈراؤنا خواب یہی ہے کہ پاکستان ٹوٹ جائے اور یہاں کوئی ذمے دار حکومت نہ رہے۔اس صورت میں وہ پھر کس سے کہیں گے کہ آپ دہشتگردی کررہے ہیں یا کل جو بم پھٹا وہ آپ لوگوں نے پھاڑا ہے؟ گویا بھارتی نہیں چاہتے کہ پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے۔
امریکی بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان ان سے تعاون کرتا رہے البتہ وہ اتنا مضبوط نہ ہو کہ تمام معاملات میں آزادی سے فیصلے کرنے لگے۔ امریکا بھی پاکستان کو ٹوٹتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ امریکی حکومتیں اب عمومی طور پر بھارت کی حامی ہیں چاہے ڈیموکریٹک آجائیں یا ریپبلکن۔ اسی پالیسی کے باعث بھارت اور اسرائیل کی حامی لابی چاہتی ہے کہ پاکستان اپنے ایٹم بم تلف کرکے علاقے میں بھارت کی اجارہ داری قبول کرلے۔
یہ یاد رہے کہ امریکا میں سرکاری پالیسی بنانے کا ایک منفرد نظام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وہاں ایک معاملے یا ایشو پر 20، 30 رپورٹیں لکھی جاتی ہیں۔ اِدھر پاکستان میں صحافیوں کو ان 20، 30 میں سے ایک رپورٹ مل جائے تو وہ اسے امریکی پالیسی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کسی ایک رپورٹ کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سرکاری پالیسی ہے، چاہے وہ رپورٹ کسی بڑے تھنک ٹینک ہی کی ہو۔ ان میں سے کسی ایک رپورٹ کو چھاپ کر اسے امریکی پالیسی قرار دینا غلط ہے۔
کرکٹ سے دلچسپیمیرے والد پاکستان کرکٹ ٹیم کے منیجر رہے ہیں۔ کرکٹ سے مجھے بڑی دلچسپی رہی ہے۔ (مسکراتے ہوئے) مجھے یاد ہے کہ ورلڈ کپ 92 کا فائنل میں نے امریکا میں ساری رات جاگ کر دیکھا تھا۔ افسوس اب تو ہماری کرکٹ ٹیم کا بیڑا ہی غرق ہوگیا ہے۔ اب تو ہم دوسری ٹیموں کا کھیل دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں۔ عمران خان نے بحیثیت کرکٹر شاندار کارنامے انجام دیے، ان جیسا کپتان دوبارہ نہیں آنا۔
ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹوبھٹو صاحب میں بہت خوبیاں تھیں لیکن انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں کئی فاش غلطیاں بھی کیں کیونکہ وہ ظاہر ہے کوئی معصوم عن الخطا تو نہیں تھے۔ انہوں نے پہلے 3 سال جو کارنامے انجام دیے، انہی کی بنا پر پاکستانی عوام انہیں بھول نہیں سکے۔ پھر وہ ایک دلکش شخصیت بھی رکھتے تھے۔
میری بے نظیر بھٹو سے بہت سی ملاقاتیں رہیں۔ ان سے بحث بھی بہت ہوتی تھی، کبھی وہ مان جاتی تھیں، کبھی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک بہادر اور بے خوف لیڈر تھیں۔ انہیں علم تھا کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن وہ پھر بھی آئیں۔ بعدازاں شہادت نے انہیں دائمی شہرت بخش دی۔ بے نظیر یہ سوچ کر سیاست چھوڑ سکتی تھیں کہ ان کے 3 بچے ہیں، ان کے بعد انہیں کون سنبھالے گا؟ پھر ان کے خاوند نے ماشااللہ بہت کچھ بنا بھی لیا تھا۔ مگر انہوں نے یہ راستہ نہ اپنایا۔ کئی دوستوں نے انہیں پاکستان جانے سے منع کیا مگر بے نظیر کا کہنا تھا کہ پھر میں کیا کروں؟
بیوروکریسی نہیں، سیاستدانوں کو نصاب بنانا چاہیےعجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں نصاب تعلیم بیورو کریسی بناتی ہے حالانکہ یہ کام سیاستدانوں کو کرنا چاہیے۔ دوسرے ہمارے نصاب تعلیم نے یہ ہوّا کھڑا کردیا ہے کہ ہمیں ہر معاملے میں بھارتیوں کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تاکہ ان کے برابر رہیں۔ یہ امر ہمیں اکثر نفسیاتی طور پر بھارت سے خوفزدہ کر دیتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں محکمہ تعلیم نے مجھ سے مشورے مانگے تھے جو میں نے انہیں بھجوا دیے۔ اس فارم میں ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ ہمیں طلبہ کو اچھا مسلمان بنانا ہے۔میں نے انہیں کہا کہ بھائی اس کے لیے تاریخ کو مسخ کرنے کی تو ضرورت نہیں۔ اچھا مسلمان بنانے کے لیے تو دینیات وغیرہ کے مضامین موجود ہیں۔ تاریخ کی کتب سے طلبہ و طالبات کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کیا ہے؟ مزید براں ان کتب میں من پسند تاریخی واقعات موجود ہیں اور طلبہ باقی واقعات سے بے خبر رہتے ہیں۔ یہ تاریخ پڑھانے کا بالکل غلط انداز ہے۔
بھارت میں بھی مورخین نے تاریخ کو توڑا مروڑا ہے۔ لیکن پھر بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں تاریخ تقریباً صحیح پڑھائی جاتی ہے۔ اسی لیے بھارتی مورخ شاندار کتب لکھ کرعالمی شہرت پا رہے ہیں۔ خاص طور پر امریکا میں تو انہوں نے تاریخ پر اجارہ داری حاصل کرلی ہے۔ پاکستانیوں میں چند ایک نام ہی ہیں۔
ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ ہمیں تاریخ کی ضرورت نہیں۔ یہ نظریہ جنرل ضیا کے زمانے میں سامنے آیا اور پھر پھیلتا چلا گیا۔ ان کا سارا زور صرف مذہب پر تھا۔ پاکستان میں ابتدا سے ایک کشمکش یہ بھی جاری ہے کہ ہم نظریاتی مملکت ہیں یا جغرافیائی؟ آزادی کے وقت کروڑوں مسلمان بھارت میں رہ گئے اور ان سے ہمارا رابطہ تقریباً کٹ گیا۔ گویا قیامِ پاکستان نے برصغیر کے مسلمانوں کو جغرافیائی طور پر تقسیم کردیا۔ دوسری طرف ہم اب بھی کہتے ہیں کہ ہمارا نصب العین مذہبی ہے، اس کا جغرافیہ سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہمارا ایک اہم تناقص (پیراڈوکس) ہے۔
پاکستانی معاشرے میں جذباتیت ہےپاکستانی معاشرے کی اہم خصوصیت جذباتی ہونا ہے۔ چونکہ ہم تاریخی شعور اور وسعت ِنگاہ نہیں رکھتے لہذا بہت جلد جذباتی ہوجاتے ہیں۔
دوسرا ہماری سوچ منفی زیادہ ہے مثلاً یہ سوچنا کہ ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ ہم اپنی ذمہ داریاں اور مسائل تو دیکھتے نہیں، دوسروں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہم نے بھی غلطیاں کی ہیں اور اب انہیں کیونکر سلجھایا جائے۔
ہم اپنی عقل استعمال نہیں کرتے اور دوسروں کا سہارا لیتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہاں جمہوری نظام نہیں چل سکتا حالانکہ یہ اختلافات دُور کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ دنیا میں یہ اس لیے پھلا پھولا کیونکہ اس طریقے میں اختلافات تنظیموں، بحث ومباحثہ، پارلیمنٹ اور جلسوں کے ذریعے سلجھا لیے جاتے ہیں۔ آمریت میں چونکہ اختلافات رفع نہیں ہوتے لہٰذا وہ نشوونما پاکر مہیب سانپ بن جاتے ہیں۔
اسلام میں گروہوں کے خودساختہ جہاد کی کوئی گنجائش نہیںایک زمانے میں مصر کو بھی ہمارے جیسے مسلم عسکریت پسند گروہوں کا مسئلہ درپیش تھا۔ حتیٰ کہ مصری جنگجوئوں نے صدر انور السادات کو قتل کردیا۔ اس واقعے کے بعد مصری حکومت نے تمام جنگجو گرفتار کر لیے جو مملکت کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ یہ جنگجو کئی سال جیل میں بند رہے۔ آخر کئی سال بعد مصر میں جہاد پر قومی بحث و مباحثہ ہوا جس میں جنگجوؤں کے دانشور طبقے نے بھی حصہ لیا۔ اس طبقے میں امام الشریف (یا ڈاکٹر فضل) نمایاں مقام رکھتے تھے۔
انہی امام الشریف کی ایک کتاب (بنیادی نظریات برائے جہاد) القاعدہ کے تربیتی مراکز میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہی ہے۔ تاہم درج بالا بحث و مباحثہ کے بعد انہوں نے اپنی سمت تبدیل کرلی اور کہنے لگے کہ یہ کس قسم کا جہاد ہے جس میں بے گناہ لوگ مر رہے ہیں؟ یوں بحث و مباحثے کے ذریعے مصر میں جنگجوئی کو خاصی حد تک ختم کردیا گیا جس نے جہاد کا چولا پہن رکھا تھا۔ پاکستان کو بھی مصریوں کے تجربے سے سیکھنا چاہیے۔ اسلام میں ان گروپوں کے خودساختہ جہاد کا کوئی وجود نہیں۔ جہاد کرنے کی کچھ شرائط ہیں، انہیں اپنانے کے بعد ہی وہ جائز کہلاتا ہے۔
دراصل حقوق منوانے یا مانگنے کا ایک طریقہ کار یا نظام ہوتا ہے۔ اس طریقہ کار پر عمل کرنے سے ہی حق کو فتح ملتی ہے۔ لیکن اگر طریقہ کار یا نظام ہی بدلنے کی کوشش ہونے لگے تو یہ عمل بہت بڑے فساد کا موجب بنتا ہے۔ لہٰذا جنگجوؤں اور ان سے وابستہ مولوی صاحبان کو چاہیے کہ اب وہ غوروفکر سے کام لیں اور اپنے نظریات پر نظرثانی کریں۔ ان کی جنگ اور کارروائیاں صریحا غلط اور ناجائز ہیں۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ہندوستان میں پاکستان میں مسلمانوں کو کہا جاتا ہے کہ پاکستان عائشہ جلال ں نے انہیں طریقہ کار تاریخ کی انہوں نے ہے کہ ہم یہ ہے کہ کے ساتھ کہ ہمیں ہندوو ں رہے ہیں کے لیے ہیں کہ کیا ہے کے بعد تھی کہ سے ایک نہیں ا میں تو
پڑھیں:
ملکی ترقی میں مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی اور کالاش برادری کا ناقابلِ فراموش کردار رہا ہے،وزیر ریلوے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اگست2025ء)وفاقی وزیر برائے ریلوے محمد حنیف عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی میں مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی اور کالاش برادری کا ناقابلِ فراموش کردار رہا ہے،قائداعظمؒ نے 11 اگست 1947 میں دستور ساز اسمبلی سے تاریخی خطاب میں تمام شہریوں کو مذہبی آزادی، مساوات اور تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی،ریلوے کے اقلیتی ملازمین ملک کی خدمت کا روشن باب ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیرکو اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کیا۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ قائداعظمؒ نے 11 اگست 1947 میں دستور ساز اسمبلی سے تاریخی خطاب میں تمام شہریوں کو مذہبی آزادی، مساوات اور تحفظ کی یقین دہانی کرائی تھی،پاکستان کی ترقی میں مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی اور کالاش برادری کا ناقابلِ فراموش کردار رہا ہے،پاکستان میں ہر شہری کو برابر کا حق اور مکمل تحفظ حاصل ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی ہی قومی یکجہتی کی ضمانت ہے ،حکومت پاکستان اقلیتی برادری کے نوجوانوں کو روزگار اور ترقی کے مساوی مواقع دے رہی ہے ،پاکستان کی اصل طاقت اس کا تنوع اور عوام کی باہمی محبت ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اقلیتوں کا قومی دن پاکستانی آئین کی روح اور قائداعظم کے خواب کی یاد دہانی ہے،حکومت اقلیتی ملازمین کے لیے تربیت، ترقی اور فلاحی منصوبوں پر کام کر رہی ہے ،ریلوے کے اقلیتی ملازمین ملک کی خدمت کا روشن باب ہیں ،پاکستان ریلوے میں سب کو یکساں عزت، مواقع اور تحفظ حاصل ہے۔ حنیف عباسی نے کہا کہ پاکستان ریلوے مسافت ہی نہیں دلوں کا بھی فاصلہ کم کرتا ہے،مذہب سے بالاتر ہوکر سب کا ساتھ اور سب کی ترقی یہی پاکستان کی فلاح ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنوع میں اتحاد ہی پاکستان کی اصل طاقت ہے، قائداعظم کے وڑن کو حقیقت بنائیں گے۔