دی لیجنڈ آف مولا جٹ کو پاکستان کی ’شعلے‘ کیوں کہا جاتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
ندیم مانڈوی والا نے پاکستان کی بلاک بسٹر فلم "دی لیجنڈ آف مولا جٹ" کو بھارت کی مشہور فلم "شعلے" قرار دے دیا۔
پاکستان کے بڑے فلم ڈسٹریبیوٹر ندیم مانڈوی والا نے بھارتی میڈیا کے ادارے این ڈی ٹی وی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ جس طرح 1975 میں "شعلے" نے بھارتی فلم انڈسٹری میں انقلاب برپا کیا تھا، "دی لیجنڈ آف مولا جٹ" نے بھی پاکستان کے فلمی بازار کو نئی بلندیوں پر پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "شعلے" نے بھارت میں باکس آفس کی کمائی کو 5 کروڑ روپے سے بڑھا کر 20 کروڑ روپے تک پہنچایا تھا، جبکہ پاکستان میں صرف 60 محدود سینما ہالز کے باوجود "دی لیجنڈ آف مولا جٹ" نے 125 کروڑ روپے کما کر ایک تاریخی ریکارڈ قائم کیا ہے۔
یہ فلم پاکستانی لوک کہانیوں پر مبنی ہے اور اس میں فواد خان، مہوش حیات، حمزہ علی عباسی، اور دیگر بڑے فنکار شامل ہیں۔ ندیم مانڈوی والا نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ فلم دیکھنے کے بعد عوام میں جو حیرت اور جذباتی جھٹکا آیا وہ "شعلے" کے اثرات کے برابر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "دی لیجنڈ آف مولا جٹ" نے پاکستانی سینما کو ایک نئی پہچان دی ہے اور فلم کی کامیابی نے پاکستان میں فلمی صنعت کی ترقی کے امکانات روشن کر دیے ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دی لیجنڈ آف مولا جٹ
پڑھیں:
چین میں کٹے ہوئے ناخن مہنگے داموں فروخت ہونے لگے!
کیا آپ بھی ناخن کاٹنے کے بعد انہیں فوراً کوڑے دان کی نذر کر دیتے ہیں؟ اگر ہاں، تو شاید آپ اپنی ایک قیمتی چیز کو ضائع کر رہے ہیں۔ حیران نہ ہوں، چین میں واقعی کٹے ہوئے انسانی ناخن سونے کی یمت میں بک رہے ہیں – اور اس کے پیچھے ایک حیران کن وجہ ہے!
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، چین میں تیار کی جانے والی روایتی ادویات میں انسانی انگلیوں کے ناخن استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مقامی دوا ساز کمپنیاں اسکولوں اور دیہاتوں سے یہ ناخن خریدتی ہیں، انہیں اچھی طرح صاف کیا جاتا ہے، باریک پاؤڈر میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور پھر مختلف بیماریوں خصوصاً بچوں کے پیٹ درد اور ٹانسلز کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات میں شامل کیا جاتا ہے۔
ایک بالغ شخص کے ناخن سالانہ اوسطاً صرف 100 گرام کے قریب بڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ ایک محدود اور قیمتی ’’خام مال‘‘ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی قیمت کافی زیادہ ہو چکی ہے۔
چینی میڈیا کے مطابق، ایک خاتون اپنے جمع کیے گئے ناخن 21 ڈالر فی کلوگرام کے حساب سے فروخت کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی اپنے ناخن جمع کرتی آ رہی ہیں اور یہ عادت اب ان کے لیے ایک منافع بخش ذریعہ بن چکی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1960 کے بعد، جب نیل پالش کا استعمال بڑھا، تو روایتی ادویات میں ناخنوں کا استعمال کم ہو گیا تھا۔ تاہم، اب اس رجحان میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دوا سازی کے لیے صرف ہاتھوں کے ناخن ہی قابلِ قبول سمجھے جاتے ہیں، پاؤں کے ناخن نہیں۔ خریداری سے قبل ناخنوں کو باریک بینی سے چیک کیا جاتا ہے اور مکمل صفائی کے بعد ہی دواؤں میں استعمال کے قابل سمجھا جاتا ہے۔