ویب ڈیسک:وزارت قانون و انصاف نے ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس پاکستان کی پنشن اور مراعات کی تفصیلات سینیٹ میں پیش کردیں۔

سینیٹ میں وقفہ سوالات میں تحریری جواب سال 2010 سے 2024 تک پنشن میں کیے گئے اضافے کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں۔ وزارت قانون نے بتایاکہ 2010 میں چیف جسٹس کو 5 لاکھ 60 ہزار پنشن ملتی تھی، 2011 میں چیف جسٹس کی پنشن 6 لاکھ 44 ہزار تھی،  2012 میں پنشن 7 لاکھ 73 ہزار ہوئی اور پھر 2013 میں چیف جسٹس کی پنشن 8 لاکھ 50 ہزار ہو گئی۔

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں ڈین تعیناتی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

وزارت قانون کے مطابق 2014 میں چیف جسٹس کی پنشن 9 لاکھ 35 ہزار ہوئی، 2015 میں چیف جسٹس کی پنشن 10 لاکھ 5 ہزارہو گئی، 2016 میں چیف جسٹس کی پنشن 11لاکھ 5 ہزار اور 2017 میں 12 لاکھ 17 ہزار تھی جبکہ 2018 میں چیف جسٹس کی پنشن 13 لاکھ 38 ہزار ہوئی اور 2021میں چیف جسٹس کی پنشن 14 لاکھ 52 ہزار ہو گئی۔

وزارت قانون کا کہنا ہے کہ 2023 میں چیف جسٹس کی پنشن 16 لاکھ 57 ہزار ہوئی اور 2024 میں چیف جسٹس کی پنشن 23 لاکھ 90 ہزار ہو گئی۔

راولپنڈی میں ڈینگی کی شدت میں اضافہ۔ 58 نئے کیسز کی تصدیق

جج کی بیوہ کو ملنے والی پنشن کی تفصیلات بھی سینیٹ میں پیش کردی گئیں۔ وزارت قانون نے جواب میں بتایاکہ جج کی بیوہ کو ڈرائیور، اردلی ملے گا، جج کی بیوہ کو 2 ہزار یونٹ بجلی اور مفت پانی کی سہولت بھی حاصل ہے اور جج کی بیوہ کو ماہانہ 300 لیٹر پیٹرول بھی دیا جاتا ہے جبکہ جج کی بیوہ سے انکم ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: میں چیف جسٹس کی پنشن جج کی بیوہ کو کی تفصیلات ہزار ہوئی

پڑھیں:

سلیب کا کھیل: بجلی کے بلوں سے پنشن کی کٹوتی تک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں ریاستی پالیسیوں کا سب سے بڑا تضاد ’’سلیب سسٹم‘‘ ہے۔ یہ ایسا جال ہے جس میں عام آدمی اور سرکاری ملازم دونوں پھنستے ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتے۔ سلیب کے نام پر کبھی بجلی کے بلوں میں عوام سے اضافی پیسے نکلوائے جاتے ہیں اور کبھی ریٹائرڈ ملازمین کی زندگی بھر کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ یوں یہ ایک ایسا دو دھاری ہتھیار ہے جو ہر طرف سے غریب اور ملازم پیشہ طبقے کو زخمی کرتا ہے۔
بجلی کے نظام میں 200 یونٹ کی ایک مصنوعی لکیر کھینچی گئی ہے۔ عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اس حد تک رعایتی نرخ ملیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی کسی صارف کا بل 201 یونٹ پر پہنچتا ہے تو رعایت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ پورے یونٹس مہنگے ہو جاتے ہیں اور ایک یونٹ کا فرق ہزاروں روپے کے اضافے میں بدل جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سلیب ’’ریلیف‘‘ کے بجائے ’’سزا‘‘ بن جاتا ہے۔
غریب مزدور جس کا گھر پہلے ہی مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے، ایک یونٹ زیادہ خرچ کرنے کی پاداش میں پانچ چھ ہزار روپے اضافی ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ کسان جس کی فصلیں ڈیزل اور بجلی کے اخراجات سے تباہ ہو چکی ہیں، وہ بھی اس پھندے میں پھنس جاتا ہے۔ کلرک، استاد اور ریٹائرڈ بزرگ شہری سب کے سب اس سسٹم کے ہاتھوں لٹتے ہیں۔ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو نہ عوام کی مجبوری کا احساس ہے نہ انصاف کی پرواہ۔ ان کے نزدیک یہ صرف اعداد و شمار کا کھیل ہے، لیکن حقیقت میں یہ لاکھوں گھروں کا چولہا بجھا دیتا ہے۔
یہ سلیب صرف بجلی کے بلوں تک محدود نہیں بلکہ سرکاری ملازمین کی پنشن اور ریٹائرمنٹ بینیفٹس پر بھی اسی کا اطلاق ہوتا ہے۔ جب کوئی ملازم 3 دہائیاں خدمت کے بعد ریٹائر ہوتا ہے تو وہ اپنے بڑھاپے کی آس اُمید کے ساتھ گریجویٹی اور لیواِن کیشمنٹ کا منتظر ہوتا ہے۔ مگر جب حساب لگایا جاتا ہے تو سلیب کا ہتھیار اس کی جمع پونجی کو کاٹ ڈالتا ہے۔ مختلف سلیب لاگو کر کے اس کی گریجویٹی کم کر دی جاتی ہے اور بعض صورتوں میں لیواِن کیشمنٹ بالکل ختم ہو جاتی ہے۔
یہ منظر کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ ایک شخص جس نے 30سال تک محنت، مشقت اور قربانی سے اپنے ادارے کی خدمت کی ہو، اس کے بڑھاپے کا سہارا اس طرح چھین لیا جائے تو یہ سراسر ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ریٹائرڈ ملازم کے خواب بکھر جاتے ہیں، اس کی آنکھوں میں مایوسی اُتر آتی ہے اور وہ خود کو ریاست کے رحم و کرم پر تنہا پاتا ہے۔
یہاں اصل سوال کھڑا ہوتا ہے کہ آخر ایک ہی اصول دو جگہ دو مختلف شکلیں کیوں اختیار کرتا ہے؟ بجلی کے بل میں سلیب عوام پر بھاری بوجھ ڈال دیتا ہے اور پنشن کے نظام میں یہی سلیب ملازمین کے حقوق نگل لیتا ہے۔ کہیں رعایت ختم کر کے پورا بل مہنگا کر دیا جاتا ہے اور کہیں محنت کی کمائی کو نصف یا ایک تہائی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ دوہرا معیار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں پالیسیاں انصاف کے بجائے مفادات کے تابع ہیں۔

پالیسی ساز ادارے، وزارتِ خزانہ اور بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹیز سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ یہ نظام کتنا غیرمنصفانہ ہے۔ لیکن ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ کیونکہ ان کے لیے تو کبھی سلیب کا اطلاق ہوتا ہی نہیں۔ وزراء اور مشیروں کی مراعات میں اضافہ کیا جاتا ہے، اراکین اسمبلی کی تنخواہیں کئی گنا بڑھائی جاتی ہیں، مگر عام ملازم اور عوام پر سلیب کی تلوار چلائی جاتی ہے۔
میڈیا بھی اس مسئلے کو نظرانداز کرتا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر دن رات سیاسی دنگل دکھائے جاتے ہیں، مگر کوئی اینکر یہ سوال نہیں اُٹھاتا کہ ایک یونٹ کے فرق پر پورے بل کی رعایت کیوں ختم کر دی جاتی ہے؟ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ ریٹائرڈ ملازمین کی لیواِن کیشمنٹ کیوں کاٹ دی جاتی ہے؟ عوام کو جان بوجھ کر ان حقیقی مسائل سے غافل رکھا جا رہا ہے تاکہ ان کا دھیان صرف وقتی شور شرابے میں الجھا رہے۔
یہ نظام اکثریت کے گلے پر ہاتھ رکھ کر اقلیت کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی آبادی کی اکثریت یا تو عام عوام ہیں یا نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین۔ لیکن پالیسی سازی میں ان کا ذکر صرف بوجھ کے طور پر ہوتا ہے، حق دار کے طور پر نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بجلی کے بل عوام کے لیے عذاب بن گئے ہیں اور پنشن کی کٹوتیاں ملازمین کے بڑھاپے کو بے سہارا کر دیتی ہیں۔
چند عملی مثالیں اس تضاد کو ننگا کر دیتی ہیں۔ ایک اسکول ٹیچر کا بل اگر 201 یونٹ ہو جائے تو اسے پچھلے مہینے کے مقابلے میں 5 ہزار سے زائد ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم جس کی گریجوٹی پنشن 10لاکھ روپے بنتی تھی، سلیب کے نفاذ کے بعد اسے صرف 6 لاکھ دیے گئے۔ یہ مثالیں محض کہانیاں نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہیں جو روزانہ ہزاروں خاندانوں کو متاثر کر رہی ہیں۔

ایسی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کا ریاست پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ لوگ ٹیکس دینے سے کترانے لگتے ہیں، بجلی کے بل چکانے کے بجائے کنڈے ڈالنے لگتے ہیں، اور سسٹم سے بغاوت کرنے لگتے ہیں۔ یہ ریاست کے لیے انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ جب شہریوں کا اعتماد اُٹھ جائے تو نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
مزید برآں جب تنخواہیں اور پنشنز کم ہوتی ہیں اور مہنگائی کا بوجھ بڑھتا ہے تو لوگ کرپشن کی طرف دھکیل دیے جاتے ہیں۔ نچلے درجے کے ملازمین رشوت لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں تاکہ گھر کا خرچ پورا کر سکیں۔ یوں سلیب سسٹم صرف ناانصافی ہی نہیں بلکہ کرپشن کا براہِ راست محرک بھی بن جاتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ان تضادات کو ختم کیا جائے۔ بجلی کے بلوں میں ایک منصفانہ نظام رائج کیا جانا چاہیے۔ اگر 200 یونٹ تک رعایت دی جاتی ہے تو 201 یونٹ پر پورا بل مہنگا کرنے کے بجائے صرف وہی ایک یونٹ مہنگا ہونا چاہیے۔ اس سے عوام پر بلاجواز بوجھ نہیں پڑے گا اور انصاف کا تقاضا بھی پورا ہوگا۔
اسی طرح ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن گریجویٹی اور لیوان کیشمنٹ پر سلیب کا جبر ختم ہونا چاہیے۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے جو انہوں نے اپنی محنت کے ذریعے کمایا ہے۔ اس حق پر کسی قسم کی کٹوتی یا تضاد کسی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔

پارلیمنٹ کو فوری طور پر قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ بجلی کے سلیب اور پنشن کے سلیب کا خاتمہ کر کے ایک شفاف، منصفانہ اور یکساں نظام رائج کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ ناانصافیاں مستقبل میں بغاوت اور سماجی انتشار کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جاتا۔ وہاں بجلی کے نرخ یکساں اور شفاف ہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو بڑھاپے میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر یہی طرزِ عمل اپنایا جائے تو نہ صرف عوامی اعتماد بحال ہوگا بلکہ معیشت کو بھی استحکام ملے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام اور سرکاری ملازمین اتنے اندھے بہرے بنا دیے گئے ہیں کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش رہیں گے؟ یا وہ متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر باشعور شہری کے ذہن میں گونج رہا ہے۔
سلیب کا یہ کھیل عوام اور ملازمین دونوں کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس تضاد کو توڑ دیا جائے۔ بجلی کے بلوں سے لے کر پنشن کی کٹوتی تک، ہر جگہ انصاف قائم کیا جائے۔ کیونکہ جب اکثریت کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں تو ریاستیں اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔

رانا محمد اقرار گلزار

متعلقہ مضامین

  • کرسٹیانو رونالڈو نے ریٹائرمنٹ سے متعلق چہ مگوئیوں کی وضاحت کردی
  • کرسٹیانو رونالڈو کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے مبہم بیان کی وضاحت
  • 2 لاکھ 19 ہزار روپے مالیت کی سیفٹی پن نے انٹرنیٹ پر ہنگامہ مچادیا
  • مرد آہن جب جیل سے نکلا تو یہ عدالتیں ختم کردیں گے: چیئرمین پی ٹی آئی
  • کاروباری ہفتے کے دوسرے روز پاکستان سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی
  • پاکستان سٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی، 100 انڈیکس 1 لاکھ 61 ہزار 538 پوائنٹس پر بند
  • سونے کی قیمت کو پھر پر لگ گئے، فی تولہ 7400 روپے مہنگا
  • سٹاک مارکیٹ میں تیزی، انڈیکس ایک لاکھ 61 ہزار پوائنٹس کی حد پر بحال
  • سلیب کا کھیل: بجلی کے بلوں سے پنشن کی کٹوتی تک
  • 27 ویں ترمیم کی سامنے آنے والی تفصیلات ہولناک ہیں، حافظ نعیم