سیزیرین کے بعد طبعی زچگی اور مصنوعی دردِ زہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
جب بھی مریضہ یہ خواہش کرے کہ اسے زچگی کے طبعی عمل سے گزرنا ہے اور پچھلی زچگی سیزیرین کے ذریعے تھی، ڈاکٹر کے ذہن میں ایک لال بتی جلنے بجھنے لگتی ہے۔
سب سے پہلے تو گائناکالوجسٹ کو یہ جانچنا ہے کہ ایسا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ سب کچھ جانچ پڑتال کے بعد ویجائنل ڈلیوری کی اجازت دے دی جائے تب اگلا مرحلہ دردِ زہ شروع ہونے کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق
سیزیرین کے بعد والی زچگی میں اگر دردِ زہ قدرتی طریقے سے شروع ہوجائیں تو ڈاکٹر کے لیے یہ اطمینان کی بات ہوتی ہے کہ کم از کم اس ڈراؤنے خواب سے وہ بچ گئی جہاں مصنوعی دردِ زہ کے آغاز کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
کیسے شروع کریں مصنوعی دردِ زہ؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔
قدیم مصر میں مصنوعی دردِ زہ کے لیے 2 طریقے مستعمل تھے، جڑی بوٹیوں کا استعمال اور بچہ دانی کے منہ یعنی سروکس کو کھولنے کی کوشش۔ دونوں طریقوں میں کامیابی کا عنصر مشکوک تھا اور زچہ کو کس تکلیف سے گزرنا پڑتا تھا، شاید اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔
16ویں، 17ویں صدی میں کچھ ایسی چیزوں کا ذکر ملتا ہے جن سے سروکس کو کھولنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ 20ویں صدی میں لیمینیریا ٹینٹ نامی لکڑی کا ٹکڑا سروکس میں رکھ دیا جاتا تھا جو آہستہ آہستہ پھول کر سروکس کو کھولنے کی کوشش کرتا۔
بیسویں صدی کو عورت پر رحم آیا اور 1935 میں پروسٹاگلینڈن (prostaglandin) نامی ہارمون کی شناخت ہوئی جو دردِ زہ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس ہارمون کو مزید 40 برس کا سفر طے کرنا پڑا، اور مسلسل تحقیق کے بعد پہلی دوا جس میں یہ ہارمون تھا، امریکا میں ایف ڈی اے نے 1977 میں منظور کی۔ لیکن تیسری دنیا تک اسے پہنچنے میں مزید کچھ برس انتظار کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ: قبل از وقت زچگی، ماؤں کی اموات میں اضافہ
ہمیں خوب یاد ہے کہ 1990 میں جب ہم ہاؤس جاب کررہے تھے، پروسٹن بنانے والی کمپنیاں فری سیمپل دیتیں اور ہم انہیں مریضوں میں استعمال کرتے۔ بخدا ہم اس وقت اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے کہ ہمیں زندگی جینے کا موقع سائنس کی ترقی کے دور میں ملا ہے۔ لیکن ان سب عورتوں کا سوچ کر دل بیٹھ جاتا جو گئے زمانوں میں زچگی کے سفر میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
پروسٹن (prostin) نامی دوا نے دردِ زہ کو آسان کردیا مگر ابھی بھی بہت کچھ تھا جہاں پروسٹن کے پر جلتے تھے اور آج بھی جل رہے ہیں۔
وہ مشکل مقام ہے اگر ایک پچھلی زچگی سیزیرین ہو اور اب مصنوعی دردِ زہ کے آغاز کا مرحلہ درپیش ہو۔
اگر بچہ دانی پر ایک سیزیرین ہوچکا ہو تو کٹی ہوئی جگہ کمزور پڑجاتی ہے اور اس کے بعد والی زچگی میں اگر مناسب نگہداشت نہ ہو تو بچہ دانی کے اس جگہ سے پھٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ بچہ دانی پھٹنے کا خطرہ مصنوعی دردِ زہ میں زیادہ ہوتا ہے اور خاص طور پر اگر پروسٹن سے دردِ زہ کا آغاز کیا گیا ہو۔
اس لیے پروسٹن کو مصنوعی دردِ زہ میں استعمال کی اجازت صرف سینئر ڈاکٹرز کو دی جاتی ہے اور تب بھی ان کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے استعمال کریں یا نہیں۔ بہت سے سینیئر ڈاکٹرز بھی اسے استعمال کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ پیٹ کے اندر موجود بچہ دانی کیا کرے گی، کوئی نہیں جانتا۔
پھر کیا کیا جائے؟سروکس کو کھولنے کے لیے لیمینیریا ٹینٹ جیسی ایک نالی ایجاد کی گئی ہے جو پیشاب نکالنے والی نالی جیسی ہے۔ اس نالی کو کُک بیلون (Cook Balloon) کا نام دیا گیا ہے۔ اس نالی کو سروکس میں ڈال کر اس کے ساتھ لگے غبارے کو پھلا دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں دردِ زہ کا آغاز ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
تیسری دنیا میں کُک بیلون کی قیمت اور اس کی افورڈیبیلٹی ایک مسئلہ بن جاتی ہے اس لیے کُک بیلون کی جگہ ایک ایسی نالی استعمال کی جاتی ہے جو مصنوعی دردِ زہ کے لیے نہیں بنی بلکہ مثانے سے پیشاب نکالنے کے لیے بنائی گئی ہے اور اسے فولی کیتھیٹر (Foley’s Catheter) کہا جاتا ہے۔
چونکہ فولی کیتھیٹر کی قیمت بہت کم ہے سو یہ کُک بیلون کا نعم البدل بن گیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کامیاب بھی ہے۔ پیشاب کی نالی کو سروکس میں داخل کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ لگے غبارے کو پھلا کر 24 گھنٹے انتظار کیا جاتا ہے۔ اس غبارے کے پریشر سے سروکس نرم پڑ کر کھلنا شروع ہوجاتا ہے اور یوں زچگی کے عمل کا آغاز ہوتا ہے لیکن کچھ کیسز میں یہ ناکام بھی ہوجاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیزیرین کے بعد ویجائنل ڈلیوری!
ایک سیزیرین کے بعد ہونے والی زچگی ایک مشکل اور خطرناک مرحلہ ہے۔ ضروری ہے کہ اسے کروانے والا ڈاکٹر تجربہ کار ہو اور انتہائی اہم بات یہ کہ زچگی کے پورے عمل میں سی ٹی جی مشین سے دردِ زہ ریکارڈ کیے جائیں۔
یاد رکھیے کہ ہر پیچیدگی اپنے ہونے سے پہلے خطرے کا سائرن بجاتی ہے اور اس سائرن کو بھانپتے ہوئے جان لیوا پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ بچہ دانی بھی پھٹنے سے پہلے زور زور سے سائرن بجاتی ہے اور لال بتی بار بار جلتی بجھتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے جہاز کریش ہونے سے پہلے اشارہ دیتا ہے۔
کوئی بھی ایسی زچگی جس میں بچہ دانی پھٹنے کا خطرہ ہو وہ سی ٹی جی مشین کی مسلسل ریکارڈنگ کے بغیر نہیں کروانی چاہیے۔ سی ٹی جی پر ایسے نشان آجاتے ہیں جن سے پتا چل جاتا ہے کہ بچہ دانی خطرے میں ہے۔ لیکن سی ٹی جی پر وہ اشارہ صرف قابل ڈاکٹر ہی سمجھ سکتا ہے۔
ہم 2 چیزوں کی بات اس لیے کرتے ہیں کہ ہر زچہ اپنی ہر زچگی میں قابل ڈاکٹر اور اچھے اسپتال کا خرچہ نہیں اُٹھا سکتی۔ سو ان 2 کے بغیر زچگی کے عمل سے گزرنا موت کو دعوت دینا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر طاہرہ کاظمی سیزیرین کے بعد جاتی ہے اور ک ک بیلون بچہ دانی سی ٹی جی سے پہلے جاتا ہے زچگی کے کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کی فارما صنعت میں مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کا آغاز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)پاکستان کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ صحت کے نظام کو جدید بنایا جا سکے، ساتھ ہی بیماریوں کی تشخیص، ادویات کی دریافت اور نسخہ نویسی، اور منفی دوا کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔ یہ فیصلہ پیر کو ایک سرکاری ورکشاپ میں کیا گیا، جو 8ویں پی پی ایم اے (پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن) فارما سمٹ سے قبل منعقد ہوئی، اس ورکشاپ کا عنوان تھا ’فارما کا مستقبل: اے آئی کے ذریعے ادویات کی دریافت اور ذاتی نوعیت کی دوائیوں میں بہتری۔ ورکشاپ میں مصنوعی ذہانت کے عالمی ماہر جِم ہیرس نے بتایا کہ گوگل ڈیپ مائنڈ کے بانی ڈیمیس ہسبیس کے مطابق اے آئی کی مدد سے آئندہ 10 سال میں تمام بڑی بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ ہیرس نے بتایا کہ ’’الفا فولڈ اے آئی‘‘ کا استعمال کینسر کو ابتدائی مرحلے میں روکنے والی مرکبات کی شناخت کے لیے کیا جا رہا ہے، اور اے آئی نے پروٹین میپنگ کی رفتار کو انسانی تحقیق سے کئی گنا بڑھا دیا ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پِل کیم جیسی خوردنی کیمرا ٹیکنالوجی سے معدے کے اندر کی تصاویر لی جا سکتی ہیں اور اے آئی کی مدد سے پرکینسر پالیپس کی شناخت کی جا سکتی ہے۔