زری پالیسی اور معیشت کی مضبوطی
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
زری پالیسی کا اعلان ہو چکا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اعداد و شمار کاغذوں پر بچھا دیا تھا، جیسے شطرنج کی بساط پر مہرے اور ہر مہرہ اپنی چال چلنے کو بے تاب۔ کہا جا رہا تھا کہ تجارتی خسارہ بڑھنے کے امکانات ہیں۔
گزشتہ مالی سال کا تجارتی خسارہ 26.5 ارب ڈالرز ایک ایسا زخم ہے جو ابھی مندمل نہ ہوا تھا کہ پھر اعداد و شمار گویا ہوئے کہ ماہ جولائی میں 16 فی صد تجارتی خسارہ ہو گیا، اس کا مطلب درآمدات کی پیاس ابھی بجھی نہیں جس کی گواہی کراچی کی بندرگاہ دے رہی تھی۔ جہاں دیوہیکل بحری جہاز پرائے مالوں سے لدے ہوئے گودی پر لنگر انداز ہو رہے تھے۔ مزدور سامان ڈھو ڈھو کر تھک چکے تھے، مہنگائی کا خوف چائے کی چسکیوں کو بد مزہ کر رہا تھا، اسٹیٹ بینک ترسیلات زر میں اضافے سے متعلق پرامید ہے۔
کیوں کہ اس ملک میں ترسیلات زر ہی ایک امید کا چراغ ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی اپنی کمائی کا حصہ اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں اور اس سال ان میں اضافے کی توقع ہے لیکن اس خوشی کو نظر لگ جائے گی، عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ، درآمدی بل میں زیادہ اضافہ، ڈالر کی اونچی اڑان کے باعث۔ تجارت میں اب بھی درآمدات کا پلڑا بھاری ہے اور اگر برآمدات میں اضافے کی تدبیر نہ کی گئی تو خسارہ شطرنج کا ایسا کھیل بن جائے گا جہاں ایک غلط چال اگلی تین چالوں کو مات دے سکتی ہے۔ ایسے میں بساط کا بادشاہ بھی آج فریاد کر رہا ہے کہ ہم اپنی قسمت کے قیدی ہیں، ہم قرض کی زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں یا یہ زنجیریں ہی ہماری پہچان بن جائیں گی، ایسے میں اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار رپورٹوں میں تو خوش آیند نظر آئیں گے، زندگی میں خوشحالی کے روپ میں نظر نہیں آئیں گے۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جی ڈی پی سوا تین سے سوا چار فی صد تک متوقع ہے۔ یہ تو مالی سال ختم ہونے پر معلوم ہوگا کہ جی ڈی پی کتنے فی صد رہی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کی امید ہے، شرح سود کم کرکے 10.
اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر تک پہنچنے والے ہیں اب اس کے ساتھ ارد گرد کا ماحول زیادہ خطرناک ہو رہا ہے،کیونکہ گلیوں میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی کا شور سنائی دے رہا ہے، چینی مہنگی سے مہنگی ہونے کی دہائی دی جا رہی ہے۔ چھپے گوداموں کا منہ کھولتے ہیں تو وہاں سے چینی کی بند بوریاں ملتی ہیں، بے روزگاروں کا جم غفیر فیکٹری کے گیٹ تک پہنچتا ہے تو بڑا سا تالہ لگا دیکھتے ہیں، حقیقی جی ڈی پی میں اضافے کی نوید پاکستان دے رہا ہے، لیکن یہ شرح نمو ایک ننھی کلی کی مانند اس لیے ہوگئی ہے کہ یہ بہار کے انتظار میں ہے، لیکن یہ بہار جب ہی آئے گی جب کمپنی بہادر کی مرضی ہوگی کیونکہ ان کے خیال میں شرح نمو ساڑھے تین فی صد تک ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی شرح نمو 3.1 فی صد تک متوقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرح نمو کی امید بہار کو شدید خطرات ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کئی عالمی خطرات کی درست نشان دہی کی ہے۔ پاکستان کی معیشت انھی اندیشوں اور امید کے درمیان جھول رہی ہے، اس کے لیے ہمیں احتیاط اور محنت کرنے کو اپنا ہتھیار بنا کر اپنی ایکسپورٹ کو بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ کے طرز پر 50 ارب ڈالر سے بھی کہیں آگے لے جانا ہوگا۔ ہمیں کراچی کے ایک چھوٹے سے دفتر میں بیٹھ کر ایکسپورٹ آرڈر کی فائل دیکھنے والے کی مایوسی دورکرنا ہوگی، کیونکہ اب ایکسپورٹ کی لاگت بڑھ گئی ہے، شپنگ اخراجات بڑھ گئے ہیں، ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے، عالمی مارکیٹ میں مسابقت بڑھ رہی ہے، لہٰذا ایکسپورٹر، کارخانے دار، مل اونرز کے چہروں پر خوشی لانی ہوگی۔ جب کہیں جا کر کارخانوں کے بند تالے کھلیں گے، لوگوں کو روزگار ملے گا اور پاکستان کی معیشت جب مضبوط ہوگی جب عوام کی معیشت میں مضبوطی آئے گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسٹیٹ بینک میں اضافے فی صد تک رہی ہے رہا ہے
پڑھیں:
بینک ڈپازٹ کیلئے خریدے جانیوالے زرمبادلہ کیلئے بینک کے ذریعے ادائیگی کی شرط عائد
ملک بوستان کے مطابق خریدے گئے زرِمبادلہ سے بیرون ملک جا کر کرپٹو کرنسی خریدی جا رہی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینک ڈپازٹ کیلئے خریدے جانے والے زرمبادلہ کیلئے بینک کے ذریعے ادائیگی کی شرط عائد کر دی۔ اس سلسلے میں مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج کمپنیز کو ہدایات جاری کر دی گئیں۔ چیئرمین ای کیپ ملک بوستان نے فیصلے کو بروقت اور ضرورت کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صارفین نے ایکسچینج کمپنیز سے بینکوں میں جمع کروانے کیلئے تقریباً ایک ارب ڈالر کے مساوی زرمبادلہ خریدا مگر بینکوں میں جمع نہیں کروایا۔ ملک بوستان کے مطابق خریدے گئے زرِمبادلہ سے بیرون ملک جا کر کرپٹو کرنسی خریدی جا رہی تھی۔