UrduPoint:
2025-11-19@06:14:09 GMT

پولیو کے مکمل خاتمے کی راہ میں کیا چیز رکاوٹ؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT

پولیو کے مکمل خاتمے کی راہ میں کیا چیز رکاوٹ؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اگست 2025ء) صغریٰ ایاز انسدادِ پولیو مہم کا حصہ ہیں۔ ان کا زیادہ تر وقت پاکستان کے جنوب مشرقی علاقوں میں بسنے والے خاندانوں کو پولیو کے خطرناک اثرات بتاتے ہوئے گزرتا ہے۔ اس دوران بچوں کے والدین ان سے اپنے خوف اور خدشات بھی بانٹتے ہیں۔ بعض یہ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ویکسین سے زیادہ پانی اور راشن کی ضرورت ہے، تو بعض دیگر والدین کو پولیو کے قطروں سے ہی مسئلہ ہے، کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ پولیو کے قطروں سے ان کے بچوں میں 'بانچھ پن‘ کے اثرات نمایاں ہوسکتے ہیں۔


پاکستان: انسداد پولیو مہم کو بڑا دھچکا، رواں برس 11ویں کیس کا اندراج
بچوں کی جانیں بچانے والے پولیو ورکرز کی جانیں خطرے میں

واضح رہے کہ افغانستان اور پاکستان میں پولیو کی ویکسین سے متعلق غلط اور غیر تصدیق شدہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ دنیا کہ دو ملک ہیں جہاں سے پولیو اب تک ختم نہیں کیا جاسکا۔ ایسے میں صغریٰ جیسے ملازمین کئی مرتبہ بدانتظامی سے متعلق مسائل کی نشاندہی بھی کرتے آئے ہیں لیکن اس پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

لیکن اب اس کیمپین سے جڑے افراد بتاتے ہیں کہ پولیو کے کیسز میں حالیہ اضافے کی بڑی وجوہات میں بدانتظامی اور ویکسین کو مناسب طور پر اسٹور نہ کرنا سرِفہرست ہے۔

صغری نے بتایا کہ پولیو کیمپین کو جلد کامیاب بنانے کے چکّر میں کئی مینیجرز اپنی ٹیم کو بچوں کو پولیو کے قطرے مکمل ہونے کا غلط نشان لگانے کا کہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جن ویکسینز کو ٹھنڈا رکھنا ہوتا ہے، ان کو صحیح طریقے سے سٹور نہیں کیا جاتا۔

صغریٰ کے بقول، ’’ہمارا کام جس ایمانداری کے ساتھ ہونا چاہیے ویسے نہیں کیا جاتا۔‘‘

پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے 1980ء کی دہائی میں شروع کرنے والی مہم میں اب تک 20 ارب ڈالرز خرچ کیے جا چکے ہیں۔ تاہم پولیو کیمپین میں شامل افسران اور ماہرین پولیو کے مکمل خاتمے میں ناکامی کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔

تاہم عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر جمال احمد کہتے ہیں کہ مشکلات کو بڑھا چڑھا کر نہ پیش کیا جائے: ''آج بہت سے بچے، 40 سال سے چلنے والی اسی کیمپین کے نتیجے میں صحت مند اور پولیو سے محفوظ ہیں۔

‘‘ ڈاکٹر احمد نے امید ظاہر کی کہ پولیو اگلے 12 سے 18 ماہ کے درمیان ختم کردیا جائے گا۔

لیکن دستاویزات اور زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ اے ایف پی کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق 2017ء سے پولیو ورکرز نے متعدد بار ویکسین کے غلط ریکارڈ جمع کرنے، غیر تربیت یافتہ پولیو ورکرز کی بھرتی، اور ویکسین کو غلط طور پر ہینڈل کرنے جیسے معاملات کے بارے میں اپنے سینئیر افسران کو بتایا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے افسران نے بتایا کہ اکثر پولیو ورکرز کو ویکسین کو سنبھالنا نہیں آتا تھا، جبکہ کئی بار ویکسین اتنی استعمال نہیں کی جاتی تھی جتنا کہ دستاویزات میں لکھا ہوتا تھا۔

اس کے بارے میں ڈاکٹر ذوالفقار بھٹّہ نے، جو عالمی ادارہ صحت کے متعدد مشاورتی گروپوں کا حصہ رہے ہیں، کہا کہ کیمپین افسران کو اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی تنقید سننی چاہیے: ''ایسی فرسودہ پالیسی پر اندھا اعتماد رکھنا جس سے اتنے سالوں میں کوئی حل نہیں نکل سکا ہے، وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔

‘‘

دوسری جانب، پاکستان کے شہر کراچی میں پولیو ورکرز اپنی حفاظت کے بارے میں پریشان ہیں۔ یہاں بھی کیمپین کے دوران پولیو ٹیم کے ساتھ پولیس اہلکار موجود ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق 1990 کی دہائی سے پولیو ٹیم کی نگرانی کرنے پر مامور 200 سے زیادہ پولیس اہلکار مارے جاچکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو عسکریت پسند گروہوں نے مارا۔

امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کی پروفیسر سویہ کلوثر کے مطابق پاکستان اور افغانستان میں پولیو مہم سے متعلق کبھی اتنی مزاحمت نہیں تھی جتنی آج ہے: ''پولیو کیمپین کو ایک بہت بڑا دھچکا امریکی سی آئی اے کی جعلی کییمپین سے لگا۔‘‘

افغانستان اور پاکستان میں کام کرنے والے پولیو ورکرز نے غلط اعداد وشمار کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ فیلڈ میں کام کرنا خاصا مشکل ہے: ''ایک طرف معاشرتی رکاوٹیں ہیں، تو دوسری طرف پولیو ویکسین کے بارے میں غیر تصدیق شدہ اور من گھڑت باتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

‘‘

افغانستان میں کام کرنے والے ایک پولیو ورکر نے بتایا، ''جب ہم ویکسین لگانے کے لیے دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو اکثر گھر میں مرد نہیں ہوتے اور یہ بات معیوب سمجھی جاتی ہے کہ غیر مرد دروازے پر دستک دے کر خواتین سے بات کریں۔‘‘

اکثر ویکسین سے متعلق غلط خبروں کے سبب لوگ بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کر دیتے ہیں۔

پولیو ورکرز کے مطابق ایک اور پولیو ورکر نے بتایا: ''یہ ساری باتیں ہم نے اپنے سینئیرز کو بتائی ہیں۔‘‘ صغری بتاتی ہیں کہ کئی بار بچوں کی چھوٹی انگلی پر نشان لگادیا جاتا ہے جبکہ انہیں ویکسین نہیں پلائی گئی ہوتی۔

دوسری جانب کچھ طبی ماہرین قطروں کی صورت میں ویکسین پلانے کے بھی خلاف ہیں۔ حالانکہ اورل ویکسین محفوظ اور موّثر ثابت ہوچکی ہے اور اب تک تین ارب بچوں کو پلائی بھی جاچکی ہے۔

طبی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس کے نتیجے میں دو کروڑ سے زائد بچے پولیو کا شکار ہونے سے محفوظ رہے۔

بعض پولیو ورکرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ویکسین پر بڑھتی بے اعتمادی اور پولیو کیمپین کی بڑھتی بد انتظامی پولیو کی روک تھام کے آڑے آرہی ہے۔

افغانستان کے جنوب مشرقی حصے میں ایک خاتون نے پولیو ورکرز کو بتایا کہ وہ چاہتی ہیں کہ اپنے بچوں کو پولیو ویکسین دیں، لیکن ان کے خاوند اور خاندان کے دیگر مرد اس ویکسین کے خلاف ہیں کیونکہ وہ ان غلط افواہوں پر یقین کرتے ہیں کہ ویکسین سے بانچھ پن ہوتا ہے: ''اگر میں ان کے خلاف جاتی ہوں، تو مجھے بھی مار پیٹ کر گھر سے نکال دیں گے۔‘‘

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پولیو کیمپین پولیو ورکرز کے بارے میں کو پولیو کے ویکسین سے پولیو کی کے مطابق نے بتایا کہ پولیو بتایا کہ بچوں کو نہیں کی ہیں کہ

پڑھیں:

خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟ …شاہنواز فاروقی

ایک وقت تھا کہ خاندان ایک مذہبی کائنات تھا۔ ایک تہذیبی واردات تھا۔ محبت کا قلعہ تھا۔ نفسیاتی حصار تھا۔ جذباتی اور سماجی زندگی کی ڈھال تھا… ایک وقت یہ ہے کہ خاندان افراد کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ جون ایلیا نے شکایت کی ہے ؎

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

ٹوکنے کا عمل اپنی نہاد میں ایک منفی عمل ہے۔ مگر آدمی کسی کو ٹوکتا بھی اسی وقت ہے جب اُس سے اس کا ’’تعلق‘‘ ہوتا ہے۔ جون ایلیا کی شکایت یہ ہے کہ اب خاندان سے ٹوکنے کا عمل بھی رخصت ہوگیا ہے۔ یہی خاندان کے افراد کا مجموعہ بن جانے کا عمل ہے۔ لیکن خاندان کا یہ ’’نمونہ‘‘ بھی بڑی نعمت ہے۔ اس لیے کہ بہت سی صورتوں میں اب خاندان افراد کا مجموعہ بھی نہیں رہا۔ اسی لیے شاعر نے شکایت کی ہے ؎
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے


بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو مشترکہ خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے کا سانحہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام پر نہیں صرف خاندان پر اصرار کرتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے تو اپنی خرابیوں کی وجہ سے ٹوٹ رہا ہے اور اسے ٹوٹ ہی جانا چاہیے۔ اور اب اگر لوگ الگ گھر بناکر رہ رہے ہیں تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے! لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ جو جہاں بھی رہتا ہے محبت کے ساتھ دوسرے سے نہیں ملنا چاہتا۔ ایک وقت تھا کہ لوگ کسی ضرورت کے تحت خاندان سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجاتے تھے، مگر یہ فاصلہ صرف جغرافیائی ہوتا تھا… نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی نہیں ہوتا تھا۔ اب لوگ ایک گھر میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان ہزاروں میل کا نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی فاصلہ ہوتا ہے… اور یہی فاصلہ اصل خرابی ہے، یہی فاصلہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے، یہی ہمارے عہد کا ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس المیے کی وجہ کیا ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خاندان اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے۔ کائناتی سطح کے مفہوم میں مرد اللہ تعالیٰ کی ذات اور عورت اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر ہے، چنانچہ شادی کا ادارہ ذات اور صفت کے وصال کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شادی کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف دین کہا ہے۔ مرد اور عورت کے تعلق کی اسی نوعیت کی وجہ سے اسلام طلاق کو سخت ناپسند کرتا ہے، کیونکہ اس سے انسانی سطح پر ذات اور صفت میں علیحدگی ہوجاتی ہے۔ لیکن مرد اور عورت کے اس تعلق کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی ذات نے انسانوں کو ’’جوڑے‘‘ کی صورت میں پیدا کیا۔ اسی ذات نے زوجین کے درمیان محبت پیدا کی۔ اسی ذات نے بچوں کی پیدائش کو عظیم نعمت اور رحمت میں تبدیل کیا اور اسی ذات نے بچوں کی پرورش پر بے پناہ اجر رکھا۔ مذہبی معاشروں میں خاندان کا یہ تصور انسانوں کے شعور میں پوری طرح راسخ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا ادارہ لاکھوں یا ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی نہ صرف یہ کہ باقی اور مستحکم رہا بلکہ اس میں کروڑوں انسان ایک حسن و جمال اور ایک گہری رغبت بھی محسوس کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے غائب ہوا خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہوگیا۔مذہب کی وجہ سے خاندان کے ادارے کی ایک تقدیس تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ تھا۔ اس میں کائناتی سطح کی معنویت تھی جس کا کچھ نہ کچھ ابلاغ بہت کم پڑھے لکھے لوگوں تک بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا تھا۔ مذہبی بنیادوں کی وجہ سے خاندان میں ایک برکت تھی اور اس کے ساتھ اجروثواب کے درجنوں تصورات وابستہ تھے۔ لیکن خدا کے تصور کے منہا ہوتے ہی اور مذہب سے رشتہ توڑتے ہی خاندان اچانک صرف ایک حیاتیاتی، سماجی اور معاشی حقیقت بن گیا۔ یعنی انسان محسوس کرنے لگے کہ خاندان انسانی نسل کی بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ خاندان نہیں ہوگا تو انسانی نسل فنا ہوجائے گی۔ خاندان کے خالص حیاتیاتی تصور نے مرد اور عورت کے باہمی تعلق کو صرف جسمانی تعلق تک محدود کردیا۔ اس تعلق کی اہمیت تو بہت تھی مگر اس میں معنی کا فقدان تھا، اور اس سے کوئی تقدیس وابستہ نہ تھی۔ خدا اور مذہب سے بے نیاز ہوتے ہی انسان کو محسوس ہونے لگا کہ خاندان صرف ہماری سماجی ضرورت ہے۔ انسان ایسی حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے طویل عرصے تک ماں باپ اور دوسرے خاندانی رشتوں کی ’’ضرورت‘‘ ہوتی ہے، لیکن ضرورت ایک ’’مجبوری‘‘ اور ایک ’’جبر‘‘ ہے اور اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ چنانچہ مغربی دنیا میں کروڑوں انسانوں نے اس مجبوری اور جبر کے طوق کو گلے سے اتار پھینکا۔ انسان صرف سماجی نفسیات کا اسیر ہوجاتا ہے تو اس سے ’’معاشی ضرورت‘‘ کے نمودار ہونے میں دیر نہیں لگتی، اور معاشی ضرورت دیکھتے ہی دیکھتے سماجی ضرورت کو بھی ’’ثانوی ضرورت‘‘ بنادیتی ہے۔ خاندان کے ادارے کے حوالے سے یہی ہوا۔ خاندان کے سماجی ضرورت ہونے کے تصور سے معاشی ضرورت کا تصور نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاندان کے ادارے کے تشخص کا نمایاں ترین پہلو بن گیا۔

خاندان کے ادارے کے حوالے سے خدا اور مذہب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت محبت کے تصور کو حاصل ہے۔ محبت انسانی زندگی میں کتنی اہم ہے اس کا اظہار میر تقی میرؔ نے اس سطح پر کیا ہے جس سے بلند سطح کا تصور ذرا مشکل ہے۔ میرؔ نے کہا ہے ؎
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

میرؔ نے اس شعر میں محبت کو پوری کائنات کی تخلیق کا سبب قرار دیا ہے۔ محبت نہ ہوتی تو یہ کائنات ہی وجود میں نہ آتی۔ محبت کے حوالے سے میرؔ کا ایک اور شعر بے مثال ہے۔ انہوں نے کہا ہے ؎
محبت مسبّب محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب

محبت کے ’’کارِ عجب‘‘ کرنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف کائنات ہوتا ہے، لیکن محبت شادی کی صورت میں دو کائناتوں کو اس طرح ایک کردیتی ہے کہ ان کے درمیان کوئی تضاد اور کوئی کش مکش باقی نہیں رہتی۔ یہ عمل معجزے سے کم نہیں، مگر محبت نے اس معجزے کو تاریخ و تہذیب کے سفر میں اتنا عام کیا ہے کہ یہ معجزہ کسی کو معجزہ ہی نظر نہیں آتا۔

بچوں کو پالنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس میں ماں باپ کی شخصیت کی اس طرح نفی ہوتی ہے کہ اس کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں۔ بچوں کی پرورش ماں باپ کی نیندیں حرام کردیتی ہے، ان کا آرام چھین لیتی ہے، ان کی ترجیحات کو تبدیل کردیتی ہے۔ لیکن ماں باپ کی محبت ہر قربانی کو سہل کردیتی ہے۔ ماں باپ کے دل میں بچوں کے لیے محبت نہ ہو تو وہ بچوں کو پالنے سے انکار کردیں، یا ان کو ہلاک کر ڈالیں۔ لیکن محبت، بے پناہ مشقت کو بھی خوشگوار بنادیتی ہے اور انسان کو تکلیف میں بھی ’’راحت‘‘ محسوس ہونے لگتی ہے، پریشانی بھی بھلی معلوم ہوتی ہے، قربانی میں بھی بے پناہ لطف کا احساس ہوتا ہے۔ بچوں کو ماں باپ کی محبت کا جو تجربہ ہوتا ہے وہ ان کی شخصیت کو ایسا بنادیتا ہے کہ جب ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو اکثر بچے اسے لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ محبت ہی ہے جو بچوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اس لائق بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت، خوشیوں اور وسائل میں دوسروں کو شریک کریں۔ لیکن مغرب میں انسان خدا اور مذہب سے دور ہوا تو اس کے دل میں محبت کا کال پڑگیا، اور محبت کے قحط نے والدین کے لیے بچوں اور بچوں کے لیے والدین کو بوجھ بنا دیا۔ یہاں تک کہ شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے کو ایک وقت کے بعد ’’اضافی‘‘ نظر آنے لگے۔ مغرب کا یہ ہولناک تجربہ اب مشرق میں بھی عام ہے، یہاں تک کہ اسلامی معاشرے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اس سلسلے میں اسلامی اور غیر اسلامی معاشروں میں فرق یہ ہے کہ غیر اسلامی معاشروں میں خدا اور مذہب لوگوں کی زندگی سے یکسر خارج ہوچکے ہیں، جبکہ اسلامی معاشروں میں مذہب آج بھی اکثر لوگوں کے لیے ایک زندہ تجربہ ہے۔ البتہ جدید دنیا کے رجحانات کا دبائو اتنا شدید ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی مذہب پیش منظر سے پس منظر میں چلا گیا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہورہا ہے۔

مادی دنیا حقیقی خدا کے انکار تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے دولت کی صورت میں اپنا خدا پیدا کرکے دکھایا، اور وہ معاشرے جو کبھی ’’خدا مرکز‘‘ یا God Centric تھے وہ دولت مرکز یا Money Centric بنتے چلے گئے۔ ان معاشروں میں دولت ہر چیز کا نعم البدل بن گئی۔ اس نے حسب نسب کی صورت اختیار کرلی۔ وہی شرافت اور نجابت کا معیار ٹھیری۔ اسی سے علم و ہنر منسوب ہوگئے، اسی سے انسانوں کی اہمیت کا تعین ہونے لگا، اسی نے خوشی اور غم کی صورت اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ دولت ہی ’’تعلق‘‘ بن کر رہ گئی۔ دولت کی اس بالادستی اور مرکزیت نے معاشروں میں قیامت برپا کردی۔ مغرب کی تو بات ہی اور ہے، ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا ہے کہ والدین تک معاشی اعتبار سے کامیاب بچوں کو اپنے اُن بچوں پر ترجیح دینے لگتے ہیں جو معاشی اعتبار سے نسبتاً کم کامیاب ہوتے ہیں، خواہ معاشی اعتبار سے کمزور بچوں میں کیسی ہی انسانی خوبیاں کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں مشرق وسطیٰ جانے کا رجحان پیدا ہوا تو کروڑوں لوگ اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر بہتر معاشی مستقبل کے لیے عرب ملکوں میں جا آباد ہوئے۔ یہ لوگ دس پندرہ اور بیس سال کے بعد لوٹے تو ان کے پاس دولت تو بہت تھی مگر وہ اپنے بچوں کے لیے تقریباً اجنبی تھے۔ یہاں تک کہ ان کی بیویوں اور ان کے درمیان بھی ’’نیم اجنبی‘‘ کا تعلق استوار ہوچکا تھا۔

انسانوں کی شخصیتوں کی جڑیں معاشیات میں اتنی گہری پیوست ہوئیں کہ ہم نے متوسط طبقے کے بہت سے بچوں کو یہ کہتے سنا کہ ہمیں ہمارے باپ نے دیا ہی کیا ہے؟ حالانکہ ان کے پاس شرافت کی دولت تھی، ایمان داری کا سرمایہ تھا، علم کی میراث تھی، تخلیقی رجحانات کا ورثہ تھا۔ لیکن انہیں ان میں سے کسی چیز کی موجودگی کا شعور نہ تھا، کسی چیز کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔ انہیں شعور اور احساس تھا تو صرف اس چیز کا کہ ان کے پاس دولت نہیں ہے۔ کار اور کوٹھی نہیں ہے۔ بینک بیلنس نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شادی بیاہ کے معاملات میں دولت تقریباً واحد معیار بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تخصیص نہیں۔ دولت کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس کے بعد بھی لوگ سوال کرتے ہیں کہ خاندان کا ادارہ کیوں کمزور پڑرہا ہے!

شاہنواز فاروقی دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • جاپان کا پاکستان انسداد پولیو پروگرام کیلئے 35 لاکھ ڈالر گرانٹ کا اعلان
  • جاپان کا پاکستان کیلیے 3.5 ملین ڈالر پولیو گرانٹ کا اعلان
  • عمران خان سے ملاقات میں رکاوٹ، سلمان اکرم راجہ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی
  • دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پر عزم ہیں،پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے:وزیراعظم
  • خسرہ روبیلا اور پولیو سے بچاؤ کی قومی مہم شروع
  • بچوں کا عالمی دن! مگر غزہ کے بچوں کے نام
  • خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟
  • کراچی: ایڈا ریو ویلفیئر میں ’خسرہ و روبیلا اور پولیو ویکسین مہم 2025‘ کا افتتاح
  • ملک بھر میں خسرہ اور روبیلا سے بچاؤ کی ویکسینیشن مہم کا آغاز
  • ملک میں خسرہ، روبیلا اور پولیو سے بچاؤ کی قومی ویکسینیشن مہم کا آغاز