دنیا بھر میں لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے وطن سے ہجرت کرتے ہیں، مگر پاکستان کا معاملہ کچھ مختلف اور تشویشناک ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں ہنر مند افراد کی بہت بڑی تعداد ہر سال ملک چھوڑ رہی ہے، اور یہ رجحان ایک خطرناک “برین ڈرین” کی شکل اختیار کر چکا ہے، جونہ صرف معیشت کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ملک کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق  ہنر مندوں کی اس نقل مکانی سے پاکستان کو ہر سال تقریباً 22 ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو اگر ملک میں رہتا تو نہ صرف معیشت کو سہارا دے سکتا تھا بلکہ نئی راہیں بھی کھول سکتا تھا۔
بیورو آف امیگریشن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال تقریباً سات لاکھ سات سو ہنر مند پاکستانی بیرونِ ملک چلے گئے۔ ان میں بڑی تعداد تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے جو بہتر روزگار، بہتر معیارِ زندگی اور محفوظ مستقبل کی تلاش میں وطن کو خیرباد کہہ گئے۔ اس کے علاوہ وہ افراد بھی ہیں جو دوسرے ممالک میں مستقل شہریت اختیار کر رہے ہیں، جن کی تعداد الگ شمار ہوتی ہے۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، مگر انہیں اپنے ہی ملک میں مواقع میسر نہیں، جس کی وجہ سے وہ ترکِ وطن پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف ان افراد کا نقصان نہیں بلکہ قوم کا اجتماعی نقصان ہے  کیونکہ یہ نوجوان وہ سرمایہ تھے جو ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کر سکتے تھے۔
اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو پاکستان نہ صرف قابل افراد سے محروم ہوتا جائے گا بلکہ ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہنر مندوں کو وطن میں ہی بہتر مواقع، روزگار، اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتیں بیرونِ ملک کے بجائے اپنے ہی وطن کی خدمت میں صرف کر سکیں۔

Post Views: 3.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

سیز فائر یا سودۂ حریت؟ فلسطین اور دو ریاستی فریب

اسلام ٹائمز: سیز فائر وقتی طور پر ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن اگر اس کے نتیجے میں دو ریاستی حل مسلط کیا گیا تو یہ ایک ناقابلِ معافی دھوکہ ہوگا۔ ہمیں اپنی حکومتوں، اپنے میڈیا اور عالمی اداروں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ ظالم کے ساتھ نہیں بلکہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ تاریخ ان کو معاف نہیں کرے گی جو ظلم کے سہولت کار بنے۔ تاریخ صرف ان کو یاد رکھے گی جو مظلوم کے ساتھ کھڑے رہے، چاہے وہ طاقت میں ہوں یا کمزور۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ

دنیا کی تاریخ میں کچھ مقامات ایسے ہیں جو محض جغرافیہ نہیں بلکہ انسانیت کی آزمائش کے میدان ہوتے ہیں۔ فلسطین انہی مقامات میں سے ایک ہے۔ یہاں صدیوں سے جاری جدوجہد آزادی دراصل انسان کی فطری خواہشِ حریت اور بنیادی انسانی وقار کی جنگ ہے۔ حالیہ دنوں میں فلسطینی جنگ بندی کو عالمی سطح پر ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں پر مسکراتے ہوئے سفارت کار، طاقتور ممالک کے نمائندے اور عالمی اداروں کے عہدیدار اسے "امن کی پیش رفت" قرار دیتے ہیں لیکن اگر ذرا گہرائی میں جھانکا جائے تو یہ سوال کھڑا ہوتا ہے: کیا واقعی یہ امن ہے یا ایک اور جال؟

بظاہر سیز فائر خون ریزی روکنے کا ایک مثبت قدم ہے۔ معصوم بچوں کے جسموں سے لہو بہنا بند ہو جائے، ماؤں کی چیخیں تھم جائیں اور اجڑے ہوئے گھر دوبارہ بسنے لگیں۔ کوئی بھی حساس دل رکھنے والا انسان اس منظر کو خوش آئند سمجھے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سیز فائر اس وقت لایا جا رہا ہے جب فلسطینی عوام اپنی قربانیوں اور مزاحمت کے ذریعے عالمی ضمیر کو ہلا چکے ہیں۔ اب طاقتور قوتوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر یہ جدوجہد مزید آگے بڑھی تو صیہونی ریاست کی ساکھ اور وجود کے بنیادی دعوے کمزور ہو جائیں گے۔

اسی لیے سیز فائر کو دراصل ایک وقفے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، تاکہ عالمی رائے عامہ کو مطمئن کیا جائے اور اس کے بعد "دو ریاستی حل" کے نام پر وہی پرانا فریب دوبارہ پیش کیا جائے۔ دنیا کو بار بار بتایا جا رہا ہے کہ "دو ریاستی حل" ہی مسئلہ فلسطین کا مستقل علاج ہے لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ یہ فارمولا فلسطینی عوام کے ساتھ ایک تاریخی ناانصافی ہے۔ فلسطینیوں نے نسل در نسل جو قربانیاں دی ہیں، لاکھوں جانوں کی شہادتیں، عورتوں اور بچوں کی بے پناہ تکالیف اور بے گھری کے دکھ۔ ان سب کا انعام ایک کٹا پھٹا، ٹکڑوں میں بٹا ہوا علاقہ نہیں ہو سکتا۔

دو ریاستی حل دراصل اس قبضے کو قانونی جواز دینے کی ایک چال ہے جو صیہونی ریاست نے طاقت کے زور پر کیا۔ فلسطینی عوام کو ایک چھوٹے سے علاقے میں قید کر دینا اور باقی زمین کو مستقل طور پر صیہونی ریاست کے حوالے کر دینا، انصاف نہیں بلکہ تاریخی دھوکہ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی سے اس کا گھر چھین کر، اسے گھر کے ایک کونے میں رہنے کی اجازت دے دی جائے اور اسے آزادی کا نام دیا جائے۔

امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ان کے دور میں "صدی کی ڈیل" جیسے منصوبے سامنے لائے گئے جن کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے حق سے محروم کرنا اور اسرائیل کے قبضے کو مزید مضبوط بنانا تھا۔ ان کا ایجنڈا دراصل انسان دشمن ہے۔ وہ آزادی اور حریت کی زبان نہیں بولتے بلکہ طاقت، دباؤ اور مفاد کی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہاں سوال یہ نہیں کہ ٹرمپ کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ان کے منصوبے انسانیت کے حق میں ہیں یا خلاف؟ جب کوئی منصوبہ لاکھوں لوگوں کی آزادی کو قید کر دے، تو وہ منصوبہ امن نہیں بلکہ غلامی ہے۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کئی اسلامی ممالک بھی عالمی دباؤ اور ذاتی مفادات کے تحت اس "دو ریاستی حل" کے فریب کو قبول کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان کی غیر مقبول حکومت ہو یا مشرقِ وسطیٰ کی بادشاہتیں، سب نے کسی نہ کسی انداز میں خاموشی اختیار کی یا اسرائیل کو پسِ پردہ تسلیم کرنے کے اشارے دیے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ کا کڑا احتساب شروع ہوتا ہے۔ کیا یہ حکومتیں بھول گئیں کہ فلسطین کے بچے صرف فلسطینی نہیں بلکہ پوری امت کے بچے ہیں؟ کیا وہ یہ حقیقت نظرانداز کر دیں گے کہ فلسطین کی مائیں اپنی عزتیں اور اولادیں قربان کر کے ایک ایسی جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں جس نے پوری انسانیت کو جگایا ہے؟

میڈیا اور عالمی طاقتوں کے ادارے ایک نیا بیانیہ دہرا رہے ہیں: دنیا بدل رہی ہے، ہمیں نئے نظام میں شامل ہونا ہوگا لیکن یہ "نیا نظام" دراصل طاقتوروں کی مرضی کا نظام ہے، جہاں کمزوروں کی قربانی کو ایک "ضروری ایڈجسٹمنٹ" کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ فلسطینیوں سے کہا جا رہا ہے کہ اپنی آزادی کی تحریک کو محدود کر کے دو ریاستی حل قبول کرو، کیونکہ دنیا بدل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بدل نہیں رہی بلکہ ظلم کی شکل بدل کر اسے نیا چہرہ دیا جا رہا ہے۔ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ظلم کبھی مستقل نہیں رہتا۔ ظالم اپنی طاقت کے غرور میں سوچتے ہیں کہ وہ ہمیشہ قائم رہیں گے، مگر انسان کی فطرت آزادی کی خواہش کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

وہ جذبہ جو فلسطین کے بچوں اور نوجوانوں کو پتھروں کے ساتھ ٹینکوں کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے، وہی جذبہ دنیا کے ہر مظلوم کے دل میں زندہ ہے۔ یہی جذبہ آخرکار ظلم کو شکست دے گا۔ صیہونی ریاست کی ظالمانہ پالیسی ہو یا کوئی اور طاقتور قوت جو انسانیت کو روندنا چاہے، وہ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دی جائے گی۔ انصاف کا تقاضا یہ نہیں کہ فلسطینیوں کو ان کے اصل وطن سے محروم کر کے ٹکڑوں میں بٹا ہوا خطہ دیا جائے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں ان کی پوری سرزمین، مکمل خودمختاری اور آزاد ریاست دی جائے۔ وہی فلسطین جو صدیوں سے ان کا گھر ہے۔ وہی فلسطین جس کی آزادی کے لیے لاکھوں جانیں قربان ہوئیں۔

یہ کالم نفرت یا انتقام کی دعوت نہیں بلکہ بیداری اور انصاف کی اپیل ہے۔ سیز فائر وقتی طور پر ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے، لیکن اگر اس کے نتیجے میں دو ریاستی حل مسلط کیا گیا تو یہ ایک ناقابلِ معافی دھوکہ ہوگا۔ ہمیں اپنی حکومتوں، اپنے میڈیا اور عالمی اداروں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ ظالم کے ساتھ نہیں بلکہ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں۔ تاریخ ان کو معاف نہیں کرے گی جو ظلم کے سہولت کار بنے۔ تاریخ صرف ان کو یاد رکھے گی جو مظلوم کے ساتھ کھڑے رہے، چاہے وہ طاقت میں ہوں یا کمزور۔

سیز فائر کا اصل مقصد اگر خون بہنے سے روکنا ہے تو اسے خوش آمدید کہنا چاہیئے، لیکن اگر اس کے پردے میں "دو ریاستی حل" کے نام پر فلسطینیوں کے حقِ آزادی کو بیچا جا رہا ہے تو یہ کھلی زیادتی ہے۔ یہ مظلوم قوم کی عظیم قربانیوں کے ساتھ دھوکہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایجنڈا انسان دشمن ہے اور امریکی باشعور عوام اور دنیا کے سالم ذہن انسان اس طرح کے فارمولے کو رد کرتے ہیں۔ یہی ردّ انسانیت کی بقا اور آزادی کی ضمانت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سیلابی صورتحال میں پاکستان ریلوے کو نقصان، بحالی کیلئے 14 کروڑ روپے کا تخمینہ
  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  • ترکی میں افراط زر کی شرح میں غیر متوقع طور پر اضافہ
  • لوگ سوال کرتے ہیں مغربی لباس اور نیل پالش میں نماز قبول ہوگی؟ یشما گل
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں 0.56 فیصد اضافہ، سالانہ شرح 4.07 فیصد ریکارڈ
  • کراچی، کورنگی نمبر 4 میں نماز کی ٹوپی بنانے والے کارخانے میں آتشزدگی، 7 افراد بحفاظت ریسکیو
  • پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
  • سیز فائر یا سودۂ حریت؟ فلسطین اور دو ریاستی فریب
  • شہری ہوشیار! بغیر لائسنس ڈرائیونگ پر بھاری جرمانے ہونگے
  • فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ امریکہ نہیں، بلکہ فلسطینی عوام کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی