ہنر مندوں کی نقل مکانی: پاکستان کو سالانہ 22 ارب ڈالر کا نقصان
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
دنیا بھر میں لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے وطن سے ہجرت کرتے ہیں، مگر پاکستان کا معاملہ کچھ مختلف اور تشویشناک ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں ہنر مند افراد کی بہت بڑی تعداد ہر سال ملک چھوڑ رہی ہے، اور یہ رجحان ایک خطرناک “برین ڈرین” کی شکل اختیار کر چکا ہے، جونہ صرف معیشت کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ملک کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق ہنر مندوں کی اس نقل مکانی سے پاکستان کو ہر سال تقریباً 22 ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو اگر ملک میں رہتا تو نہ صرف معیشت کو سہارا دے سکتا تھا بلکہ نئی راہیں بھی کھول سکتا تھا۔
بیورو آف امیگریشن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال تقریباً سات لاکھ سات سو ہنر مند پاکستانی بیرونِ ملک چلے گئے۔ ان میں بڑی تعداد تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے جو بہتر روزگار، بہتر معیارِ زندگی اور محفوظ مستقبل کی تلاش میں وطن کو خیرباد کہہ گئے۔ اس کے علاوہ وہ افراد بھی ہیں جو دوسرے ممالک میں مستقل شہریت اختیار کر رہے ہیں، جن کی تعداد الگ شمار ہوتی ہے۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، مگر انہیں اپنے ہی ملک میں مواقع میسر نہیں، جس کی وجہ سے وہ ترکِ وطن پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف ان افراد کا نقصان نہیں بلکہ قوم کا اجتماعی نقصان ہے کیونکہ یہ نوجوان وہ سرمایہ تھے جو ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کر سکتے تھے۔
اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا، تو پاکستان نہ صرف قابل افراد سے محروم ہوتا جائے گا بلکہ ترقی کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہنر مندوں کو وطن میں ہی بہتر مواقع، روزگار، اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتیں بیرونِ ملک کے بجائے اپنے ہی وطن کی خدمت میں صرف کر سکیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے 27ویں آئینی ترمیم کے بعد یکے بعد دیگرے ججز کے مستعفی ہونے پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری اپنے مفصل بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ استعفے پاکستان میں آئین، قانون، انصاف اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس منصور علی شاہ کے سپریم کورٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی اس سلسلے میں شامل ہو گئے ہیں، اور یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے تینوں ججز کی دیانتداری، انصاف پسندی اور پیشہ ورانہ کارکردگی کی کھل کر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ
جسٹس اطہر من اللّٰہ ججز بحالی تحریک کے دوران فرنٹ لائن کے رفیق تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی قابلیت، جرات اور پیشہ ورانہ آزادی سب پر واضح ہے۔
جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار بھی بہترین شہرت رکھنے والے ججز میں ہوتا ہے۔
انہوں نے جسٹس شمس محمود مرزا پر رشتہ داری کے الزام کو بے بنیاد اور “طفلانہ حرکت” قرار دیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ ان ججز کے فیصلوں سے اختلاف اپنی جگہ، مگر ان کی شرافت، اہلیت اور نیک نیتی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے استعفے عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہیں اور ادارہ جاتی توازن کو کمزور کرتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ استعفوں کو سیاسی دھڑے بندی کی نظر سے دیکھیں تو شاید کچھ لوگوں کو یہ اچھا لگے، لیکن حقیقت میں یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور “یہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائے گا”۔
انہوں نے زور دیا کہ ہر مخالف کو پکڑ لینا یا ملک دشمن قرار دینا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ذمہ دار ریاست ماحول کو ٹھنڈا رکھتی ہے، تنازعات بڑھاتی نہیں۔ پاکستان جیسے حساس اور نیوکلیئر ملک کے لیے اندرونی محاذ آرائی انتہائی نقصان دہ ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ خوشی کے ڈھول پیٹنے کے بجائے پیدا ہوتی فالٹ لائنز کو پُر کرنے کی کوشش کرنا ہی دانشمندی ہے۔