مری کے اسکول کی برسوں سے شاندار کارکردگی، لیکن سہولتیں ناپید
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
مری(نیوز ڈیسک) مری کے دور افتادہ علاقے میں قائم طالبات کا سرکاری اسکول برسوں سے علم کے چراغ جلاتے ہوئے معجزات دکھا رہا ہے اور ہر سال شاندار کامیابیاں سمیٹتے ہوئے ٹاپ رینکڈ طلبہ پیدا کر رہا ہے۔ لیکن ان درخشاں ذہنوں کو روزانہ کی بنیاد پر مسائل کا پہاڑ عبور کرکے یہ کامیابیاں سمیٹنے کی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ کبھی 300؍ طالبات کیلئے حد سے زیادہ طلب کا شکار ایک واش روم تک رسائی کی پریشانی، تو کبھی بنیادی ضروریات کے نہ ہونے کی مشکل تو کبھی تدریسی عملے کی کمی کے مسائل۔ علمی عظمت کے دس برس اور حکام کی بے حسی کا یہ صریح تضاد، گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول علیوٹ کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو بھیجی گئی درد بھری اپیل میں آشکار ہوا ہے جو خط کی صورت میں انہیں بھیجی گئی ہے۔ خط میں ایک ایسی کہانی کا ذکر کیا گیا ہے جو طلبہ اور اساتذہ کی خالص محنت اور عزم سے جڑی ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، ایک خاتون ٹیچر اپنی جیب سے ملازمت پر رکھے گئے چند اساتذہ کی تنخواہیں ادا کر رہی ہیں تاکہ بچیوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔ اعداد و شمار لگاتار اور شاندار کامیابی کی داستان رقم کرتے ہیں۔ یہ اسکول صرف ایک برس نہیں بلکہ تقریباً دس برسوں سے اپنی مثال آپ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ زیادہ تر طالبات غریب گھرانوں کی ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق 2018ء میں کامیابی کا تناسب 80؍ فیصد رہا۔ 2019ء میں دوبارہ 80؍ فیصد رہا جن میں 7؍ اے پلس اور 7؍ اے گریڈ شامل تھے۔ 2020ء میں یہ تناسب 90؍ فیصد تک پہنچا جن میں 4؍ اے پلس اور 6؍ اے گریڈ تھے۔ 2021ء میں نتیجہ 100؍ فیصد رہا جن میں 5؍ اے پلس اور 5؍ اے گریڈ آئے۔ 2022ء میں ریشو 95؍ فیصد رہا جن میں 8؍ اے پلس اور 6؍ اے گریڈ تھے۔ 2023ء میں نتیجہ 70؍ فیصد رہا جن میں 3؍ اے پلس اور 3؍ اے گریڈ تھے۔ 2024ء میں ایک بار پھر 100؍ فیصد تناسب رہا جن میں 7؍ اے پلس اور 3؍ اے گریڈ شامل تھے۔ 2025ء میں بھی 100؍ فیصد نتیجہ آیا، جس میں میٹرک میں 5؍ اے پلس اور 3؍ اے گریڈ اور نویں جماعت میں 95؍ فیصد تناسب کے ساتھ 12؍ اے پلس اور 4؍ اے گریڈ شامل ہیں۔ یہ ریکارڈ اس گائوں کے اسکول میں طلبہ اور اساتذہ کی غیر معمولی لگن، عزم اور محنت کا عکاس ہے، باوجود اس کے کہ بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے کوئی پذیرائی ملی نہ شاباشی۔ خط میں بتایا گیا اور مقامی افراد نے بھی تصدیق کی کہ 300؍ سے زائد طالبات کیلئے صرف ایک واش روم ہے۔ یہ واحد سہولت، جو پورے اسکول کی طالبات کیلئے ہے، دیہی اسکولوں کی بدترین حالت کی عکاس ہے۔ واش روم کا مسئلہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی سنگین مسائل میں سے ایک ہے۔ کچھ عرصہ قبل، ایک بڑا پتھر اسکول کی چھت پر گر گیا جس سے فرنیچر تباہ و برباد ہوگیا۔ یہ واقعہ تعطیلات کے دوران پیش آیا بصورت دیگر بڑا سانحہ پیش آ سکتا تھا۔ اسکول میں عملے کی شدید کمی ہے۔ ہیڈ مسٹریس کی اسامی خالی جبکہ سائنس، ریاضی اور آئی ٹی کے اساتذہ کی سخت ضرورت ہے۔ خط میں لکھا ہے، ’’ہمیں فوری طور پر ایک ایس ایس ای (جنرل)، دو ایس ای ایس ای (سائنس و ریاضی) اساتذہ، ایک آئی ٹی ٹیچر، ایک کلرک اور ایک خاکروب کی ضرورت ہے تاکہ اسکول کی سرگرمیاں بہتر انداز سے چل سکیں۔‘‘ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کے دور میں اسکول کی آئی ٹی لیب غیر فعال ہے۔ 2012ء میں قائم ہونے والی لیب محض ایک عمارت ہے جس میں خراب اور بیکار وائرنگ ہے، جس کی وجہ سے طالبات جدید ٹیکنالوجی کے متعلق تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔ اسکول کا کہنا ہے، ’’ہم اپنی طالبات کیلئے جدید آئی ٹی اور اے آئی کے مختصر کورسز متعارف کرانا چاہتے ہیں لیکن فعال لیب اور آئی ٹی ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔‘‘ اساتذہ نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک سائنس لیب قائم کی ہے لیکن اب اس کی فوری تجدید ضروری ہے۔ اسکول میں کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں کیلئے کوئی میدان یا جگہ نہیں۔ ہال بھی موجود نہیں۔ اس کے علاوہ عملے اور طلبہ دونوں کیلئے مستقل پانی کے نظام کی بھی سخت ضرورت ہے۔ مقامی افراد کے مطابق، اسکول کی عمارت کے پیچھے بڑے پتھر موجود ہیں۔ حال ہی میں ایک بڑا پتھر عمارت کی چھت پر گرا جس سے چھت اور کرسیاں ٹوٹ گئیں۔ خوش قسمتی سے یہ واقعہ تعطیلات کے دوران پیش آیا، بصورت دیگر جانی نقصان ہوسکتا تھا۔ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچائو کیلئے حفاظتی اقدامات لازمی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے اسکول والوں نے اپیل صرف سہولتوں کے حصول کیلئے نہیں کی بلکہ ایک شاندار ادارے کے تحفظ کیلئے کی ہے، جو دوسروں کیلئے مثال بن چکا ہے۔ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول علیوٹ کی طالبات نے تقریباً ایک دہائی سے سخت ترین حالات کے باوجود اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے، وہ آسائشوں کی طلبگار نہیں بلکہ وہ بنیادی سہولتیں اور محفوظ ماحول چاہتی ہیں جو ان کا حق ہے۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فیصد رہا جن میں طالبات کیلئے اے پلس اور اساتذہ کی اسکول کی اے گریڈ ا ئی ٹی
پڑھیں:
مہمان خصوصی کاحشرنشر
یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔
اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل
پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول
چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔
مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔
یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔
بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔
اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔
کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی
کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں
آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔
وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔
ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔