مری(نیوز ڈیسک) مری کے دور افتادہ علاقے میں قائم طالبات کا سرکاری اسکول برسوں سے علم کے چراغ جلاتے ہوئے معجزات دکھا رہا ہے اور ہر سال شاندار کامیابیاں سمیٹتے ہوئے ٹاپ رینکڈ طلبہ پیدا کر رہا ہے۔ لیکن ان درخشاں ذہنوں کو روزانہ کی بنیاد پر مسائل کا پہاڑ عبور کرکے یہ کامیابیاں سمیٹنے کی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ کبھی 300؍ طالبات کیلئے حد سے زیادہ طلب کا شکار ایک واش روم تک رسائی کی پریشانی، تو کبھی بنیادی ضروریات کے نہ ہونے کی مشکل تو کبھی تدریسی عملے کی کمی کے مسائل۔ علمی عظمت کے دس برس اور حکام کی بے حسی کا یہ صریح تضاد، گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول علیوٹ کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو بھیجی گئی درد بھری اپیل میں آشکار ہوا ہے جو خط کی صورت میں انہیں بھیجی گئی ہے۔ خط میں ایک ایسی کہانی کا ذکر کیا گیا ہے جو طلبہ اور اساتذہ کی خالص محنت اور عزم سے جڑی ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، ایک خاتون ٹیچر اپنی جیب سے ملازمت پر رکھے گئے چند اساتذہ کی تنخواہیں ادا کر رہی ہیں تاکہ بچیوں کا مستقبل محفوظ بنایا جا سکے۔ اعداد و شمار لگاتار اور شاندار کامیابی کی داستان رقم کرتے ہیں۔ یہ اسکول صرف ایک برس نہیں بلکہ تقریباً دس برسوں سے اپنی مثال آپ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ زیادہ تر طالبات غریب گھرانوں کی ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق 2018ء میں کامیابی کا تناسب 80؍ فیصد رہا۔ 2019ء میں دوبارہ 80؍ فیصد رہا جن میں 7؍ اے پلس اور 7؍ اے گریڈ شامل تھے۔ 2020ء میں یہ تناسب 90؍ فیصد تک پہنچا جن میں 4؍ اے پلس اور 6؍ اے گریڈ تھے۔ 2021ء میں نتیجہ 100؍ فیصد رہا جن میں 5؍ اے پلس اور 5؍ اے گریڈ آئے۔ 2022ء میں ریشو 95؍ فیصد رہا جن میں 8؍ اے پلس اور 6؍ اے گریڈ تھے۔ 2023ء میں نتیجہ 70؍ فیصد رہا جن میں 3؍ اے پلس اور 3؍ اے گریڈ تھے۔ 2024ء میں ایک بار پھر 100؍ فیصد تناسب رہا جن میں 7؍ اے پلس اور 3؍ اے گریڈ شامل تھے۔ 2025ء میں بھی 100؍ فیصد نتیجہ آیا، جس میں میٹرک میں 5؍ اے پلس اور 3؍ اے گریڈ اور نویں جماعت میں 95؍ فیصد تناسب کے ساتھ 12؍ اے پلس اور 4؍ اے گریڈ شامل ہیں۔ یہ ریکارڈ اس گائوں کے اسکول میں طلبہ اور اساتذہ کی غیر معمولی لگن، عزم اور محنت کا عکاس ہے، باوجود اس کے کہ بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے کوئی پذیرائی ملی نہ شاباشی۔ خط میں بتایا گیا اور مقامی افراد نے بھی تصدیق کی کہ 300؍ سے زائد طالبات کیلئے صرف ایک واش روم ہے۔ یہ واحد سہولت، جو پورے اسکول کی طالبات کیلئے ہے، دیہی اسکولوں کی بدترین حالت کی عکاس ہے۔ واش روم کا مسئلہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی سنگین مسائل میں سے ایک ہے۔ کچھ عرصہ قبل، ایک بڑا پتھر اسکول کی چھت پر گر گیا جس سے فرنیچر تباہ و برباد ہوگیا۔ یہ واقعہ تعطیلات کے دوران پیش آیا بصورت دیگر بڑا سانحہ پیش آ سکتا تھا۔ اسکول میں عملے کی شدید کمی ہے۔ ہیڈ مسٹریس کی اسامی خالی جبکہ سائنس، ریاضی اور آئی ٹی کے اساتذہ کی سخت ضرورت ہے۔ خط میں لکھا ہے، ’’ہمیں فوری طور پر ایک ایس ایس ای (جنرل)، دو ایس ای ایس ای (سائنس و ریاضی) اساتذہ، ایک آئی ٹی ٹیچر، ایک کلرک اور ایک خاکروب کی ضرورت ہے تاکہ اسکول کی سرگرمیاں بہتر انداز سے چل سکیں۔‘‘ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) کے دور میں اسکول کی آئی ٹی لیب غیر فعال ہے۔ 2012ء میں قائم ہونے والی لیب محض ایک عمارت ہے جس میں خراب اور بیکار وائرنگ ہے، جس کی وجہ سے طالبات جدید ٹیکنالوجی کے متعلق تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔ اسکول کا کہنا ہے، ’’ہم اپنی طالبات کیلئے جدید آئی ٹی اور اے آئی کے مختصر کورسز متعارف کرانا چاہتے ہیں لیکن فعال لیب اور آئی ٹی ٹیچر نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔‘‘ اساتذہ نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک سائنس لیب قائم کی ہے لیکن اب اس کی فوری تجدید ضروری ہے۔ اسکول میں کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں کیلئے کوئی میدان یا جگہ نہیں۔ ہال بھی موجود نہیں۔ اس کے علاوہ عملے اور طلبہ دونوں کیلئے مستقل پانی کے نظام کی بھی سخت ضرورت ہے۔ مقامی افراد کے مطابق، اسکول کی عمارت کے پیچھے بڑے پتھر موجود ہیں۔ حال ہی میں ایک بڑا پتھر عمارت کی چھت پر گرا جس سے چھت اور کرسیاں ٹوٹ گئیں۔ خوش قسمتی سے یہ واقعہ تعطیلات کے دوران پیش آیا، بصورت دیگر جانی نقصان ہوسکتا تھا۔ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچائو کیلئے حفاظتی اقدامات لازمی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے اسکول والوں نے اپیل صرف سہولتوں کے حصول کیلئے نہیں کی بلکہ ایک شاندار ادارے کے تحفظ کیلئے کی ہے، جو دوسروں کیلئے مثال بن چکا ہے۔ گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول علیوٹ کی طالبات نے تقریباً ایک دہائی سے سخت ترین حالات کے باوجود اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے، وہ آسائشوں کی طلبگار نہیں بلکہ وہ بنیادی سہولتیں اور محفوظ ماحول چاہتی ہیں جو ان کا حق ہے۔
انصار عباسی

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: فیصد رہا جن میں طالبات کیلئے اے پلس اور اساتذہ کی اسکول کی اے گریڈ ا ئی ٹی

پڑھیں:

کس پہ اعتبار کیا؟

اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔

ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔

ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔

ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔

حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔

ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔

خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • استنبول میراتھون میں پاکستانی ایتھلیٹس کی شاندار کارکردگی، پہلی 3 پوزیشنز پر قبضہ
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • بابر اعظم نے طویل خاموشی توڑ دی، شائقین کے لیے پیغام جاری
  • جنوبی افریقا کیخلاف میچ کے بعد بابر اعظم کی ٹوئٹ وائرل
  • خاموشی کا وقت ختم، بابر اعظم نے پیغام جاری کردیا
  • او آئی سی سی آئی سروے میں 73فیصد افراد نے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے موزوں قراردیدیا
  • پنجاب میں اب زمین پر قبضے کا مقدمہ برسوں نہیں چلے گا، 90 دن میں کیس کا فیصلہ ہوگا
  • ایشن یوتھ گیمز میں شرکت کے بعد پاکستان ریسلنگ ٹیم کا واپسی پر شاندار استقبال
  • ایف سی بلوچستان (نارتھ) کے زیر اہتمام نوشکی میں ای کامرس تربیتی کورس کامیابی سے مکمل