Express News:
2025-09-18@19:07:28 GMT

سنت یہ بھی ہے

اشاعت کی تاریخ: 28th, August 2025 GMT

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے کو مسلمان عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘اس میں چراغاں ہوتا ہے‘جلوس نکلتے ہیں‘فیرنی تقسیم کی جاتی ہے اور میلاد کی محفلیں ہوتی ہیں‘یہ سب درست ہے ہمیں یہ کرنا چاہیے کیوں کہ یہ مہینہ پوری انسانیت کے لیے اہم ہے‘ہمارے نبی ﷺ اس مہینے دنیا میں تشریف لائے تھے اورہمارے نبیؐ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے۔

 اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی آمد کو انسانوں کے لیے اپنا احسان قرار دیا ہے‘ آپؐ انسانیت کے لیے کتنا بڑا احسان ہیں ہمیں یہ سمجھنے کے لیے قبل از اسلام اور بعد کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا‘ حضور ﷺ کی رحمت کسی خاص وقت اور قوم کے لیے نہیں تھی‘آپؐ ہر دور اور ہر قوم کے لیے رحمت ہیں‘اللہ تعالیٰ نے کچھ قوموں کو ایمان کی دولت سے محروم رکھا لیکن اس کے باوجود یہ بھی اس تبدیلی اوررسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے بلاواسطہ فیض حاصل کرنے میں کام یاب رہیں‘ کیوں؟ اور کیسے؟ ان قوموں نے رسول اللہ ﷺ کا صرف تعلیم کا پیغام لے لیا۔

دنیا میں اسلام سے قبل تعلیم کی اہمیت‘ افادیت اور اسے حاصل کرنے کی ترغیب اتنی شدت سے کہیں نہیں ملتی‘ ہمارے نبی ﷺ کی نبوت کی زندگی کا آغاز ہی پڑھنے کے حکم سے ہوا تھا‘ آپ ﷺ نے تعلیم کے ساتھ شعور و آگاہی کی تحریک شروع کی‘ ہر مسلمان پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا‘مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے لیے غیر مسلموں سے مدد حاصل کی۔

عین جنگ کے موقع پر اور بعد میں تعلیم پر پوری توجہ دی اور ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا‘ دنیا کی جن قوموں اور ملکوں نے ظہور اسلام کے بعد تعلیم کو ریاست مدینہ کی طرح ترجیح اول بنایا وہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی امامت کرنے لگیں‘آپ کو اگر یقین نہ آئے تو میں ماضی قریب کی تاریخ میں سے صرف دو ملکوں کی تاریخ آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ آپ کو اس سے ترقی کا راستہ مل جائے گا۔

1950 کی دہائی میں جنوبی کوریا دنیا کا غریب ترین ملک تھا‘ کوریا کی جنگ نے سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔ گاؤں اجڑ گئے‘شہر کھنڈر بن گئے‘کارخانے ختم ہو گئے اور عوام کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ تھا‘ بچے بھوک سے روتے تھے اور مائیں ان کو تسلی دیتی تھیں لیکن یہ ان سے کھانے کا وعدہ نہیں کر سکتی تھیں‘کوریا میں ایک طرف یہ صورت حال تھی اور دوسری طرف اس ملک کے پاس تیل تھا‘ گیس تھی۔

 سونا اور نہ ہی دوسرے قدرتی وسائل تھے لہٰذا ان کے پاس بھوک‘ غربت اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں تھا‘ اس زمانے میں دنیا بھر کے ماہرین کا خیال تھا‘ یہ ملک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا لیکن پھر ان ابتر حالات میں کوریا کی لیڈرشپ نے عجیب فیصلہ کیا‘انھوں نے قوم کو بتایا ہمارے پاس زمین کم ہے اور وسائل بھی نہیں ہیں‘ ہمارے پاس انڈسٹری اور زراعت کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا‘ ہمارے پاس صرف بچے ہیں‘ یہ ہمارا کل اثاثہ ہیں اور ہم اگر ان کو پڑھا دیں تو ہم اور ہمارا ملک ترقی کی لائین میں کھڑا ہو جائے گا لہٰذا ہمیں صرف تعلیم پر فوکس کرنا ہو گا‘ حکومت نے اس کے بعد ملک میں ایک تحریک چلا دی ہر بچہ اسکول جائے گا‘ امیر ہو یا غریب تعلیم حاصل کرنا ضروری ہوگا۔

 اساتذہ کو تربیت دی گئی اورتعلیم کا نظام سخت اور معیاری بنادیا گیا‘اس کے بعد حکومتیں بدلتی رہیں لیکن پالیسی نہ بدلی‘ سیاست کے رنگ بدلتے رہے لیکن یہ فیصلہ مستقل رہا اور اس فیصلے نے کوریا کی قسمت بدل دی‘وہ بچے بڑے ہوئے‘ تعلیم نے ان کی سوچ بدل دی‘یہ محنتی اور نظم و ضبط کے پابند ہو گئے۔

 1980 کی دہائی میں صرف 30 سالوں میں کوریا کی شرح خواندگی 100 فیصد ہو گئی‘ ان بچوں نے آگے جا کر سام سنگ‘ ہنڈائی اور ایل جی جیسے برینڈ متعارف کروائے اور یہ برینڈ ہمارے گھروں اور ہاتھوں تک پہنچ گئے‘آپ جب یہ سطورپڑھ رہے ہوں گے توعین ممکن ہے سام سنگ کا موبائل آپ کے ہاتھ میں ہو یا آپ کے گھر میں ایل جی کی اسکرین نصب ہو اور آپ ان پر یہ سطریں پڑھ رہے ہوں‘یہ ہے کورین حکومت کے وژن کا نتیجہ‘ آج جنوبی کوریا دنیا کی 10 بڑی معیشتوں میں شامل ہے اور یہ صرف اور صرف تعلیم کی دین ہے۔

آپ اب سنگاپور کی کہانی سنیے‘ یہ 1965 کی بات ہے ملائیشیا سے ایک چھوٹا سا جزیرہ الگ ہوا‘ دنیا اسے ماہی گیروں کی بستی کہتی تھی‘وہاں صنعت تھی نہ وسائل اور نہ معیشت۔ بے روزگاری کا یہ عالم تھا نوجوان ہاتھوں میں کشتیوں کی رسیاں پکڑکر پورا دن گاہکوں کا انتظار کرتے رہتے تھے لیکن انھیں کام نہیں ملتا تھا لیکن پھر ایک رہنما ا ن کی رہنمائی کے لیے آگے بڑھا اور اس نے نئی نسل کو تعلیم اور ہنر سے جوڑنے کا فیصلہ کیا۔

 اس نے کہا ہمیں کوئی وسائل‘ بیرونی امداد اور زمین نہیں چاہیے‘ ہمیں صرف تعلیم بچائے گی‘اس نے نئی زبانیں سیکھنے پر زور دیا‘ نظام تعلیم کو میرٹ کی بنیاد پر قائم کیا‘ نوکریاں میرٹ پر دیں‘ سفارش اور کرپشن کا دروازہ بند کیا اورپھر ان فیصلوں کے رنگ نظر آنے لگے۔ صرف 30 سالوں میں سنگاپور ماہی گیروں کی بستی سے ایک ترقی یافتہ ملک بن گیا‘ آج سنگاپور ایک عالمی مالیاتی مرکز ہے اور اس کا پاسپورٹ دنیا کا طاقتور ترین پاسپورٹ ہے۔

آپ اب پاکستان کے حالات کا جائزہ لیجیے۔ پاکستان میں پانی‘ معدنیات‘ تیل اور سونا سب موجود ہیں لیکن ہم اس کے باوجود ترقی نہیں کر رہے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے انسانوں کو ڈویلپ نہیں کیا‘ ہم نے قوم کو تعلیم اور تربیت نہیں دی‘ یہ یاد رکھیں قوموں کی سب سے بڑی طاقت اس کے نوجوان اور اس کے بچے ہوتے ہیں ‘قومیں اگر انھیں استعمال کر لیں تو یہ قدرتی وسائل کے بغیر بھی ترقی کر لیتی ہیں اور اگر یہ وسیلہ نہ ہو تو دنیا کے تمام وسائل مل کر بھی قوم کو قوم نہیں بنا سکتے۔

 ہمارے ملک کے 65 فیصد لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں‘ہمیں اس عظیم خزانے کی طاقت کو سمجھنا ہوگااور استعمال کرنا ہو گا لیکن بدقسمتی سے اس وقت ہمارے پانچ سال سے کم عمر اڑھائی کروڑ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں‘ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے اگر سنگاپور اور کوریا اپنی قوم کو تعلیم یافتہ بنا سکتے ہیںتوہم تعلیم کو ترجیح دے کر قوم کو ڈویلپ کیوں نہیں کر سکتے؟ آپ یقین جانیں ہمارے لیے بھی اس پر عمل کے وہی نتائج نکلیں گے جو دوسرے ممالک میں نکلے ہیں۔

ہماری ریاست اس وقت کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے‘اس کے پاس تعلیم کے لیے وقت اور وسائل نہیں ہیں لہٰذا اب تعلیم کو ترجیح اول بنانے کی سنت پر عمل کی زیادہ تر ذمے داری ہم سب پر عائد ہو گئی ہے‘ پاکستان میں انفرادی سطح پر سیکڑوں افراد یہ کام کر رہے ہیں‘درجنوں ادارے بھی اس کام کے لیے کوشاں ہیں‘ ان اداروں میں ایک نام ریڈفاؤنڈیشن کا ہے‘ میں کئی سالوں سے اس ادارے سے رضاکارانہ طور پر وابستہ ہوں۔

 یہ ادارہ کمال کر رہا ہے‘ایک طرف اس نے فارمل ایجوکیشن کے لیے 400 تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں‘ دوسری جانب اس ادارے نے تھرپارکر اور دیامر جیسے علاقوں میں بچیوں کے لیے 120 لٹریسی سینٹرز بنائے ہیں‘ اس کے ساتھ حکومت پنجاب نے اپنے 80 تعلیمی ادارے ان کے حوالے کیے ہیں یوں ان کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی تعداد 600 کے قریب پہنچ گئی ہے اور ڈیڑھ لاکھ طلباء اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ان لٹریسی سینٹرز میں بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

 ریڈفاؤنڈیشن کے کام میں بہت ہی خاص بات ان کا یتیم بچوں کا پروجیکٹ ہے‘ یہ ڈونر سے 60 ہزار روپے سالانہ لیتے ہیں جو کہ پانچ ہزار روپے ماہانہ بنتا ہے اور اس تھوڑی سی رقم سے یہ ان بچوں کوتعلیم کے ساتھ ساتھ یونیفارم اور کتابیں دیتے ہیں اور یوں یہ یتیم بچے ڈاکٹرز اور انجینئرز بن رہے ہیں اور ڈونر کے لیے صدقہ جاریہ کا باعث ثابت ہو رہے ہیں۔ریڈ فاؤنڈیشن ڈونرز کو زیر کفالت بچے کا مکمل پروفائل بھی ارسال کرتی ہے اورہر سال انھیں بچوں کی کارکردگی سے بھی مطلع کرتی ہے۔

ربیع الاول کے اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺ کودنیا میں بھیج کر انسانیت پر عظیم احسان فرمایا‘ اس احسان کا بدلہ یہ ہے تمام انسان خوشی کے اس موقع پر تعلیم دینے کی سنت پر عمل کریں‘ آپ کوئی تعلیمی ادارہ بنا دیں اور اسے اپنے والدین یا چاہنے والوں سے منسوب کردیں‘یہ ادارہ ان کے لیے صدقہ جاریہ کا اکاؤنٹ ثابت ہوگا یا آپ کسی تعلیمی ادارے میں فرنیچر دے دیں یا سائنس لیبارٹری فراہم کردیں اللہ تعالیٰ آپ کو اس دنیا اور آخرت دونوں میں نواز دے گا۔

آپ 60 ہزار روپے سالانہ یا 5ہزار روپے ماہانہ ارسال کرکے کسی ایک بچے کو اپنی کفالت میں لے سکتے ہیں۔ریڈ فاؤنڈیشن آپ کو بچے کی تفصیل ارسال کرے گی اور یہ بچہ تعلیم حاصل کرنا شروع کر دے گا‘آپ ایک سے زیادہ بچوں کی کفالت کا ذمے بھی لے سکتے ہیں‘ یقین کیجیے یہ بچے آپ اور آپ کی نسلوں کے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں گے۔‘ربیع الاول منانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ تعلیم کو ترجیح بنانے کی سنت کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔

میں ریڈفاؤنڈیشن کے رابطہ نمبر اور بینک اکاؤنٹ درج کر رہا ہوں۔امید ہے آپ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی یتیم بچے کا سہارا بنیں گے۔ (براہ مہربانی ڈونیشن کے بعد دیے گئے نمبرز پر اطلاع ضرور دیں تاکہ آپ کے عطیات آپ کی خواہش اور ترجیح کے مطابق بروقت استعمال کیے جا سکیں)

میزان بینک

اکاؤنٹ ٹائٹل:   READ  FOUNDATION

اکاؤنٹ نمبر: 0 3 0 3 0 1 0 0 2 3 5 7 8 8

انٹرنیشنل بینک اکاؤنٹ نمبر: PK57MEZN0003030100235788

 سوفٹ کوڈ:  MEZNPKKA

بینک برانچ: F-7مرکز، جناح سپر مارکیٹ ، اسلام آباد

رابطہ نمبرز: موبائل نمبر:  +92(0)3145025767

واٹس ایپ  :     +92(0)3349272523

ای میل ایڈریس: [email protected]

ویب سائٹ: www.

readfoundation.org

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے

اسلام ٹائمز: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ریلی سے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے لیکن اس میں ایران اور دیگر عرب ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے، اسرائیل صرف بچوں کو مار سکتا ہے، حماس اور القسام بریگیڈ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حماس ایک قانونی اور شرعی مزاحمتی قوت ہے جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاد کررہی ہے۔ خصوصی رپورٹ

جماعت اسلامی کے تحت اسرائیل کی جارحیت و دہشت گردی کے شکار اہل فلسطین بالخصوص بچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شاہراہ قائدین پر ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ کا انعقاد کیا گیا۔ تاحد نگاہ دور تک طلبہ و طالبات کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ مارچ میں شہر بھر سے نجی و سرکاری اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی اور لیبک یا اقصیٰ کے نعرے لگا کر غزہ کے نہتے مظلوم بچوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر، لبیک لبیک الھم لبیک، لبیک یا غزہ، لبیک یا اقصیٰ کے نعروں سے گونجتی رہی اور بچوں میں زبردست جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ میں شریک لاکھوں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں جاری اسرائیلی دہشت گردی و جارحیت سے 97 فیصد اسکول اور 90 فیصد اسپتال تباہ کیے جاچکے ہیں، صحافیوں اور نمازیوں کو نشانہ بنایا گیا اور مساجد پر بمباری کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ پوری دنیا میں عضو معطل بن چکی ہے، اس کی قراردادوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی، اسرائیل کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جبکہ مسلم دنیا کے حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں، غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 25 معصوم بچے شہید ہورہے ہیں، اب تک 22 ہزار سے زائد بچے شہید اور 42 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے، انسانی حقوق کی بات کرنے والا امریکہ فلسطین میں انسانیت کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، مسجد اقصیٰ صیہونی قبضے میں ہے، وہ گریٹر اسرائیل کے قیام کے خواب دیکھ رہے ہیں، دنیا کے باضمیر لوگ اسرائیل کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، بالخصوص امریکہ، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے تعلیمی اداروں کے طلبہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کیا۔

حافظ نعیم الرحمن نے مزید کہا کہ 7 اکتوبر کو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف یوم احتجاج منایا جائے گا جبکہ 5 اکتوبر کو کراچی میں شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ”غزہ ملین مارچ“ ہوگا، دیگر مسلم ممالک میں بھی ملین مارچز ہوں گے، گزشتہ دنوں ایران اور ملائشیا کے دورے کے دوران مختلف اسلامی تحریکوں اور سفیروں سے ملاقاتیں کی گئیں اور رابطے جاری ہیں، اہل غزہ و فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے امریکہ و اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ بھی جاری رہے گا۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف منافقت ترک کریں اور اہل غزہ و مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیں، ایک طرف اسرائیل کی مذمت اور دوسری طرف اسرائیل کے پشت پناہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرتے ہیں، امریکہ انسانیت کا قاتل ہے، ہیروشیما، ناگاساکی، عراق، افغانستان اور ویتنام میں لاکھوں انسانوں کے قتل عام کی تاریخ سب کے سامنے ہے، امریکہ کبھی کسی کا دوست نہیں ہوسکتا، اس کی تاریخ بے وفائی اور منافقت سے بھری ہوئی ہے، قطر پر حملے نے ثابت کردیا کہ امریکہ کسی مسلم ملک کا وفادار نہیں۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے لیکن اس میں ایران اور دیگر عرب ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے، اسرائیل صرف بچوں کو مار سکتا ہے، حماس اور القسام بریگیڈ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حماس ایک قانونی اور شرعی مزاحمتی قوت ہے جو بین الاقوامی قوانین کے مطابق جہاد کررہی ہے، فلسطینی اپنے ایمان اور صبر کی بدولت استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی آنے والی نسلیں بھی مزاحمت جاری رکھیں گی، فلسطین میں چاروں طرف سے محاصرہ ہے، امداد پہنچنے کے تمام راستے بند ہیں، جماعت اسلامی گلوبل صمود فلوٹیلا کی مکمل حمایت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا، ہم دو ریاستی حل کو نہیں مانتے، اسرائیل ایک ناپاک وجود ہے، امریکہ اس کی ناجائز اولاد ہے، جبکہ برطانیہ نے 1917ء میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔

امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے چلڈرن غزہ مارچ میں لاکھوں کی تعداد میں شریک طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج میں آپ سب کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ غزہ کے مظلوم بچوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، آپ کی یہ حاضری اور آواز یہ پیغام دے رہی ہے کہ اگرچہ دنیا سو رہی ہے لیکن ہم اہلِ کراچی اور اہلِ پاکستان اہلِ غزہ کے ساتھ ہیں، ہم اپنے فلسطینی بچوں کے ساتھ ہیں، ہم بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کھڑے ہیں، اور ہم آج یہاں ان مظلوموں کی آواز میں آواز ملانے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2 سال گزر چکے ہیں، غزہ پر آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، اسرائیل منصوبہ بندی کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، غزہ کے بچوں اور ماؤں اور بہنوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے، 65 ہزار سے زائد شہداء اور لاکھوں زخمی اس امت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، پورے غزہ کو کھنڈرات میں بدل دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ امریکہ کی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔

منعم ظفر خان نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو اسلحہ اور ڈالر فراہم کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ صرف فلسطینیوں کی نہیں رہی، یہ ظالم اور مظلوم اور انسانیت کی بقا کی جنگ ہے، پوری دنیا کے باضمیر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یونیورسٹیوں کے طلبہ ہوں یا یورپ اور امریکہ کے عوام، لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنے حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں، وہ سوال کرتے ہیں کہ کہاں گئے وہ انسانی حقوق کے دعوے؟ کہاں گئے وہ ادارے جو جانوروں کے حقوق کی بات کرتے تھے؟ کیا انہیں غزہ کا خون بہتا نظر نہیں آتا؟ لیکن افسوس! 22 ماہ سے زائد گزر گئے مگر مسلم دنیا کے حکمران صرف اجلاس کرتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں، کھانے کھاتے ہیں اور منتشر ہو جاتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی کراچی اگر مسلم دنیا کے حکمرانوں نے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر کردار ادا نہیں کیا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اہلِ غزہ نے دنیا کو یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایمان اور استقامت کے سامنے بڑے سے بڑا دشمن بھی شکست کھا جاتا ہے، فلسطینی عوام 700دنوں سے ڈٹے ہوئے ہیں، یہی ایمان، یہی جذبہ ہے جو انہیں ناقابلِ شکست بنا رہا ہے لیکن ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ہماری ذمہ داری ہے کہ فلسطنیوں پر مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں، سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں نکل کر احتجاج کریں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی، ایک دن قبلہ اول آزاد ہوگا، ہم بیت المقدس میں نماز پڑھیں گے اسرائیل نابود ہو جائے گا، امریکہ ہو یا برطانیہ یا مغرب کی طاقتیں، یہ سب زوال پذیر ہیں، کامیابی اور کامرانی صرف اسلام کا مقدر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گوگل ڈاؤن: دنیا بھر میں جی میل، یوٹیوب، سرچ اور ڈرائیو متاثر
  • فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • سرویکل ویکسین سے کسی بچی کو کسی بھی قسم کا کوئی خطرہ نہیں: وزیر تعلیم
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بےروزگاری، حالات سے تنگ تقریباً 29لاکھ پاکستانی وطن چھوڑ گئے
  • پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے لیے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلیے ہے، عطا تارڑ
  • خیبرپختونخوا: محکمہ تعلیم کے ملازمین کی تعلیمی چھٹی کا غلط استعمال بے نقاب
  • جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج